ڈاکٹر فاروق عبداللہ کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں ہیومینیٹیز ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر کے عہدے پر فائز ہیں،2017ء اور 2018ء میں استنبول ترکی میں انٹرنیشنل کانفرنسز میں شرکت کر کے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئےتحقیقی مقالہ جات پیش کر چکے ہیں۔2018ء ہی میں یونیورسٹی آف ڈھاکہ میں بھی عالمی کانفرنس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے تحقیقی مقالہ پیش کر چکے ہیں۔آپ ہائر ایجوکیشن کمیشن کےمنظور شدہ تحقیقی مجلہ جات میں 6 تحقیقی مقالہ جات شائع کر چکے ہیں۔ماضی میں روزنامہ اوصاف میں بطور سب ایڈیٹر کام کیا۔
کمزوری دشمن اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقتوں کے لئے جارحیت کی کھلی دعوت ہوتی ہے جس سے نہ صرف تاریخ بلکہ جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے اور اپنے آباء کے کارناموں اور خوبیوں میں کیڑے نکالنے والوں کی تقدیر اور قسمت میں بھی کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ تحریک آزادی میں جس نے بھی حصہ لیا وہ ہم پاکستانیوں کے ہیرو ہیں اور ہمارے سب سے بڑے ہیروز قائد اور اقبال ہیں۔ کچھ بدبخت قائد کے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ان پر تنقید کرنے اور الزام لگانے سے باز نہیں آتے۔ اپنے ہیروز کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ اس کے لئے تاریخ کے چند اوراق الٹنے سے آپ لیبیا پہنچیں گے، جہاں اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے۔ بصورت دیگر طرابلس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ لوگ طرابلس خالی کر کے جا چکے تھے۔ اس کے باوجود اٹلی نے خالی شہر پر تین روز بمباری کی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر ایک مجاہد کی غیرت نے جوش مارا اور جارح دشمن کو للکارا۔ یہ معلم قرآن عمر مختار تھا جو صحرائی علاقوں کے چپے چپے سے واقف کار تھا۔ عمر مختار نے اطالوی فوج کو گوریلا حملوں سے پریشان کئے رکھا۔ اطالویوں نے عمر مختار کی تحریک مزاحمت روکنے کےلئے کئی تدبیریں اپنائیں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کےلئے عقوبت گاہیں بنائیں۔ ان میں 25ہزار لیبیائی اسیر ٹھہرے جن میں سے مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک تہائی شہید ٹھہرے۔ اس کے باوجود عمر مختار کے جذبہ جہاد میں کوئی فرق آیا نہ عوام کا حریت پسندی کا عزم ماند پڑا۔ عمر مختار کی جارح دشمن کو اپنے وطن سے مار بھگانے کی جدوجہد میں کوئی فرق آیا نہ عوام کا حریت پسندی کا عزم ماند پڑا۔ عمر مختار کی جارح دشمن کو اپنے وطن سے مار بھگانے کی جدوجہد اس وقت اختتام کو پہنچی جب وہ ٹیپو سلطان کی طرح آخری دم تک لڑنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن 11ستمبر 1931ءکو وہ زخم کھا کر گرے تو اطالوی فوج نے ان کو گرفتار کر کے زنجیروں سے جکڑ دیا۔ پاﺅں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ گرفتاری کے وقت عمر مختار کی عمر 70سال سے زائد تھی۔ ان پر اٹلی کی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور 4دن کی سماعت کے بعد عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 1931ء کو آج کے دن 16ستمبر کو عمر مختار کو لیبیا میں اطالوی فوج نے پوری نخوت رعونت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن کی آزادی کی خاطر لڑنے والے مجاہد کو سرعام پھانسی لگا دی.... ان سے آخری خواہش پوچھی گئی تو کہا
”اناللہ وانا الیہ راجعون“
لیبیا کی قیادت نے وطن پر جان نچھاور کرنے والے کو بھلایا نہیں۔ عمر مختار کی خدمات اور قربانی کے اعتراف میں دس ریال کے نوٹ پر ان کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ 1981ء میں کرنل قذافی نے ہالی ووڈ سے عمر مختار کی زندگی پر ”صحرا کا شیر“ نامی فلم بنوائی اس میں اطالوی فوج کے معصوم لیبیائی باشندوں پرظلم و ستم کو بھی نمایاں دکھایا گیا ہے۔ اس لئے اٹلی میں 1982ء میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی۔
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ بھارتی وزیراعظم دورے پر آئے تو کشمیر سے منسوب شاہرات کے بورڈ ہٹا دیے جاتے ہیں۔ بھارتی وفد پاکستان آئے تو وہ جو بھی بک بک کر جائے ہمارے زعما مصلحت کے نام پر منافقانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھارت جائیں تو بھی مصلحت کا انداز اپنانا ان پر ہی فرض ہے۔ وہاں جا کر ایسے بیان دیتے ہیں کہ ان پر بھارت کے تنخواہ دار ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ وہ جتنا دباتے ہیں یہ اتنا دبتے چلے جاتے ہیں یا یہ جتنا دبتے ہیں وہ اتنا ہی دباتے چلے جاتے ہیں۔
کرنل قذافی گذشتہ سال دس جون 2009ء کو اپنے پہلے دورے پر اٹلی پہنچے۔ وہ وزیراعظم سلویو برلسکونی سے ملاقات کےلئے گئے تو ان کے سینے پر عمر مختار کی اطالوی فوج کے ہاتھوں گرفتاری کی تصویر چسپاں تھی۔ اسی تصویر کے ساتھ وہ اطالوی وزیراعظم کے ساتھ گلے ملے تھے۔ اس موقع پر اطالوی حکومت نے ایک اور زہر کا گھونٹ بھی اپنی مرضی سے پی لیا جب ایک چینل کو کرنل قذافی کی اپنے ہاں موجودگی میں Lion of Desert دکھانے کی ہدایت کر دی۔
ہمارے ہاں بھی آزادی کے ہر مجاہد کی عمر مختار کی طرح عزت اور قدر کی جانی چاہئے۔ قائداعظم کی تو کسی سے بھی بڑھ کر۔ کچھ بدبخت اور کم بخت قائداعظم کے پاکستان میں تمام سہولیات اور مراعات کو حاصل کر رہے ہیں لیکن قائد کی خدمات، کارناموں اور ارض پاک کی آزادی کی جدوجہد کو خامی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر اپنے لئے وہ ملک ڈھونڈ لیں جس کی آزادی قائد محترم کی مرہون منت نہ ہو۔
اگر آپ عمر مختار کی زندگی پر مووی دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر یوٹیوب پر مندرجہ ذیل لنک کھول کر مکمل مووی دیکھ سکتے ہیں
Is doctor Afia is cheap more than this Indian girl???A silent message to all Pakistanis....Remember, please don't pay attention on Rough language of this video...i just want to Tell you The importance of The Respect of the Nation........A silent message to all Pakistanis....
Al Qaeda is a creation of the CIA. It is simply a database of names of jihadists who were trained to fight against the Russians during the Afghan-Soviet conflict. The real purpose is to build up a fake enemy so as to get the American public to support the invasion of Afghanistan, Iraq and now Pakistan. The whole objective is for Oil resources. The secondary objective is the conquest of the middle east for: New World Order, One World Government. The balkanisation of Pakistan has begun. Pakistan is being dismembered and conquered. The greater middle east war will be triggered with Israel and USA vs Iran, Syria, Lebanon. This is pure BS. Dont be taken for a ride. The PTB wants to pit sheeple against sheeple to build their One World Empire!
جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لئے خدا نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(سورہ نساء، آیت 93)
16 Punjabis killed in Balochistan attacks
This News is Published: inDaily Nationon August 15, 2010
By: Bari Baloch
QUETTA – At least 16 Punjabi-speaking persons, including two security personnel, were shot dead while five others wounded in two separate incidents of target killings in Bolan District and Quetta on Saturday.
The Baloch Liberation Army claimed responsibility for both the incidents. Unidentified armed assailants intercepted a passenger coach that was travelling to Quetta from Lahore at Aab-e-Gum area of Bolan District, some 60 kilometres southeast of Quetta on the night between Friday and Saturday. They asked all the passengers to show their identity cards.
Sources said that after identifying 12 passengers as residents of Punjab, the attackers separated them from rest of the passengers and took them to nearby mountains where they opened indiscriminate firing on them. As a result, 10 of them died on the spot and two others received serious wounds.
The assassins fled the scene after committing the crime under the cover of darkness. On getting information, personnel of Levi’s Force and Frontier Corps reached the site and cordoned off the area. The deceased and injured were shifted to Bolan Medical Complex Hospital Quetta, Civil Hospital and CMH. Five victims have been identified as Syed Fakhar, Maqsood Ahmed, Mudasir Ali and Muhammad Waris while the injured were identified as Sajjad, Bilal Arshad, Palwan, Mital Khan and Altaf Hussain.
The sources said that two victims belonged to security forces. However, Home Secretary Balochistan Akbar Hussain Durrani denied reports that two security personnel died in the attack.
Official sources said that bodies were moved to BMCH morgue and after completing legal formalities, they would be sent to their native towns after their identification.
Talking to newsmen, Bilal Arash, 25, who was also injured in the incident, said that a group of armed men held all passengers at gunpoint and started checking their identity cards. “They separated 12 people hailing from Punjab, including me and asked whether we belonged to security forces or agencies,” he said and added that later they took us to mountains and opened fire. Bilal said that he received bullet on his shoulder and fell down and after being satisfied that all were dead, the attackers escaped from the site. “I reached the highway and informed Levi’s about the incident,” he added.
Published: September 24, 2010 This News is Published: inDaily NationonSeptember 24, 2010
LAHORE - A senior leader from Balochistan proposed on Thursday that the government should hold an all-party conference to discuss problems faced by the country’s most backward and thinly populated province and hammer out a strategy to solve them.
Parties represented at parliament as well as the ones which had boycotted the previous general elections on account of principles should be invited to the moot, Rauf Sasoli, secretary general of Jamhoori Watan Party (Aali group), said while talking to TheNation.
He said Aghaz-i-Haqooq-i-Balochistan was a good initiative taken by the government, but regretted that in practical terms it had become a step to improve the lot of ministers, not a common man. The ministers, he said, were either enjoying the benefits themselves or passing on to their cronies.
Sasoli said unless the government ensured that the benefits reached the common man, the package would not help improve the situation or bring an end to the unrest.
He said hatred created by the policies of former dictator Pervez Musharraf was still there and could be reduced only by prominent political leaders using their connections with the Baloch leaders.
Explaining the point, he said, PML (N) chief Nawaz Sharif and President Zardari had very good contacts with a number of Balochi leaders and must use their influence to set the situation right.
Along with this, he said, steps should be taken to bring former president Pervez Musharraf and ex-prime minister Shaukat Aziz to justice for their involvement in the assassination of Nawab Akbar Bugti.
I do not know who is doing terrorism but as the student of history i clearly want to say that all these incidents are replay of war of 1971 as the result was at that time separation at this time i am not seeing better result again because again these incidents are going to blame to Punjabi's as in 1971 therefore a lot of hatred created among all other 3 provinces and pujabi people are killing in Balochistan. today i understand why all three provinces are against punjabi people.......and killing punjabis in balochistan
i am a Punjabi and today i understand why all three provinces are against Punjabi people.......and killing Punjabi's in Baluchistan i am himself belong from Punjab but i heartedly request please stop this brutality and violence and if this brutality continued then Pakistan future will be horrible in past 1971 Bengali's were terrorist and today all Pakhtons are terrorist ?????what you got by making hatred against Bengali's ! Bangladeshis? and now what are you waiting fore?? in future
i am a punjabi and i request from Pakhtons, Balochi people please all Punjabi's are not same we condemn all this violence please you also stop your hatred to all Punjabi's we are also compel and seeing all this situation compulsively as you.... we are Muslim 1rst of all....we should know who is our enemy who is dividing us??from UMMAH to in Punjabi , Sindhi, balochi Pathan....We have to understand our enemy's strategy....??
استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا ،استخارہ کے عمل کو یہ سمجھنا کہ اس سے کوئی خبر مل جاتی ہے تویہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے کئی غلط فہمیوں نے جنم لیا جن کا تفصیل سے تذکرہ آگے آرہا ہے، استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
استخارہ حدیث نبوی کی روشنی میں
۱- عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی)
ترجمہ :حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔
استخارہ نہ کرنا محرومی اور بدنصیبی ہے
ایک حدیث میں جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
۲-من شقوة ابن آدم ترکہ استخارة اللّٰہ (مجمع الاسانید )
یعنی اللہ تعالی سے استخارہ کا چھوڑدینا اور نہ کرنا انسان کے لیے بدبختی اور بدنصیبی میں شمار ہوتا ہے ۔
اسی طرح ایک حدیث میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی كريم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
۳- عن سعد بن وقاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من سعادة ابن ادم استخارتہ من اللہ و من شقاوتہ ترک الاستخارة و من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ․(مشکوة)
ترجمہ : انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔
استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا
ایک حدیث میں حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
۴- ما خاب من استخار وما ندم من استشار (طبرانی)
یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا کہ میں نے یہ کام کیوں کیا ؟یا میں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ ، اس لیے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور اگر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا ، اس وجہ سے وہ شرمندہ نہیں ہوگا ۔
اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا ،مطلب اس کا یہ کہ انجام کے اعتبار سے استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی ، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اللہ تعالی سے استخارہ کرتا رہے ، اسی طرح جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ کبھی پچھتائے گا نہیں ، اس لیے کہ خدا نخواستہ اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کیا تھا ، اب آگے اللہ تعالی کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں۔ اس لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دو کام کرلیا کرو ، ایک استخارہ اور دوسرے استشارہ یعنی مشورہ۔
استخارہ کا مقصد
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
”واضح ہو کہ استخارہٴ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا ، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے ، گویا استخارہ کیا ہے ؟حق تعالی سے مشورہ لینا ہے ،اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی ، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے ؟ اس کا کرم بے نظیر ہے ، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے ، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا ، اس کی رہنمائی فرمائے گا ، پھر نہ سوچنے کی ضرورت ، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا ، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے ، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویانہ ہو ، ہوگا وہی جو خیر ہوگا ، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب !اسی لئے تمام امت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے “۔(دورحاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کی حکمت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی شہرہٴ آفاق تصنیف ”حجة اللّٰہ البالغة“ میں استخارہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ہیں :
۱- فال نکالنے سے نجات اور اس کی حرمت
۱- پہلی حکمت یہ کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثلا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے ، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس رہتے تھے ، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا ”امرنی ربی“ (میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے) اور کسی پر لکھا ہوتا ”نہانی ربی“(میرے رب نے مجھے منع کیا ہے)اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، اس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، مجاور تھیلا ہلا کر فال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال لے ،اگر”امرنی ربی“(کام کے حکم )والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کرتا اور”نہانی ربی“(کام سے منع) والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی، سورة مائدہ آیت نمبر ۳ کے ذریعے اس کی حرمت نازل ہوئی ، اور حرمت کی دو وجہیں ہیں :
۱- یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے ، جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈالا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر ضرور ہاتھ آئے گا ۔
۲- اس طرح سے فال نکالنا یہ اللہ تعالی پر افترا اور جھوٹا الزا م ہے ، اللہ تعالی نے کہاں حکم دیا ہے اور کب منع کیا ہے ؟اور اللہ پر افتراء حرام ہے ۔
نبی صلى الله عليه وسلم نے لوگوں کو فال کی جگہ استخارہ کی تعلیم دی ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجاء کرتا ہے تو اپنے معاملے کو اپنے مولی کے حوالے کرکے اللہ کی مرضی معلوم کرنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے دروازے پر جا پڑتا ہے اور اس کا دل ملتجی ہوتا ہے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائیں ، اللہ تعالی کی طرف سے فیضان کا باب کشادہ ہوتا ہے ، اور اس پر معاملہ کا راز کھولاجاتا ہے ، چنانچہ استخارہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے ۔
۲- فرشتوں سے مشابہت
۲-دوسری حکمت یہ کہ استخارہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ صفت بن جاتا ہے ، استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے ،اس کی بہیمیت (حیوانیت) ملکیت(فرشتہ صفتی)کی تابع داری کرنے لگتی ہے اور وہ اپنا رخ پوری طرح اللہ کی طرف جھکادیتا ہے تو اس میں فرشتوں کی سی خو بو پیدا ہوجاتی ہے ، ملائکہ الہام ربانی کا انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو الہام ہوتا ہے تو وہ داعیہ ربانی سے اس معاملے میں اپنی سی پوری کوشش خرچ کرتے ہیں ، ان میں کوئی داعیہ نفسانی نہیں ہوتا ، اسی طرح جو بندہ بکثرت استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتوں کے مانند ہوجاتا ہے ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :ملائکہ کے مانند بننے کا یہ ایک تیر بہدف مجرب نسخہ ہے جو چاہے آزما کر دیکھے۔ (حجةاللہ البالغة)
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاء میں نبی صلى الله عليه وسلم نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں :
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے ۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔(رحمة اللہ الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے“۔(مجالس مفتی اعظم )
استخارہ کا نتیجہ اور مقبول ہونے کی علامت
استخارہ سے کس طرح رہنمائی ملے گی ؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنا اثر ہوتا ہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں ؟یا یہ کرنا بہتر ہے یا نہیں ؟تو استخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں :
۱-دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔
۲-اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہوجانا ۔
تاہم اس میں خواب آنا ضروری نہیں ۔(اصلاح انقلاب امت)
استخارہ میں صرف یکسوئی کا حاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس کے بعد اس کے مقتضی پر عمل کرے ، اگرکئی مرتبہ استخارہ کے بعد بھی یکسوئی اور کسی ایک جانب اطمینان نہ ہوتو استخارہ کے ساتھ ساتھ استشارہ بھی کرے یعنی اس کام میں کسی سے مشورہ بھی لے لیکن استخارہ میں ضروری نہیں کہ یکسوئی ہوا ہی کرے۔(الکلام الحسن)
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے ، بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کر لے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے ، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا ، اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ، بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں ، لہذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے ، اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں ۔
بس استخارہ کی حقیقت اتنی سی ہے کہ دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگ لی ، پھر آگے جوہوگا اسی میں خیر ہے ، کام ہوگیا تو خیر ! نہیں ہوا تو خیر ! دل جس طرف متوجہ ہو جائے اور جس کے اسباب پیدا ہورہے ہوں یقین کر لیں کہ یہی میرے لیے بہتر ہے اور اگر دل کی توجہ ہٹ گئی یا اسباب پیدا نہیں ہوئے یا اسباب موجود تھے مگر استخارہ کے بعد ختم ہوگئے، کام نہیں ہوسکا تو اطمینان رکھے، اللہ پر یقین رکھے کہ اس میں میری بہتری ہوگی ، اپنی طبیعت بہت چاہتی ہے مگر اللہ تعالی میرے نفع ونقصان کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، اس طرح سوچنے سے ان شاء اللہ اطمینان ہوجائے گا ، اگر دل کا رجحان کسی جانب نہ ہو تو صرف اسباب کے پیش نظر جو فیصلہ بھی کرلے گا اس میں خیر ہوگی ، خدا نخواستہ اگر استخارہ کے بعد کوئی نقصان بھی ہوجائے تو یہ عقیدہ رکھے کہ استخارہ کی برکت سے اللہ تعالی نے چھوٹے نقصان کے ذریعے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ، استخارہ کی دعا میں دین کا ذکر پہلے ہے اور دنیا کا بعدمیں، اس لیے کہ مسلمان کا اصل مقصد دین ہے، دنیا تودر حقیقت دین کے تابع ہے ۔
استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو ؟!
عن مکحول الازدی رحمہ اللہ تعالی قال : سمعت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقول: ان الرجل یستخیر اللہ تبارک وتعالی فیختار لہ، فیسخط علی ربہ عز وجل، فلا یلبث ان ینظر فی العاقبة فاذا ہو خیر لہ․ (کتاب الزہد)
مکحول ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالی اس کے لیے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجیے ، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے ، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالی نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا ، اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے ، اوراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہوگا۔
اب جب وہ کام ہوگیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، دل کے مطابق نہیں ہے ، تو اب بندہ اللہ تعالی سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ہے ، اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمارہے ہیں کہ ارے نادان ! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا ، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا ، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا ، بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا ، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ واقعة یہی میرے لیے بہتر تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ایک بچہ ہے جو ماں باپ کے سامنے مچل رہا ہے کہ فلاں چیز کھاوٴں گا اور ماں باپ جانتے ہیں کہ اس وقت یہ چیز کھانا بچے کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہے ، چنانچہ ماں باپ بچے کو وہ چیز نہیں دیتے ، اب بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھ پر ظلم کیا ،میں جو چیز مانگ رہا تھا وہ مجھے نہیں دی اور اس کے بدلے میں مجھے کڑوی کڑوی دوا کھلا رہے ہیں ، اب وہ بچہ اس دوا کو اپنے حق میں خیر نہیں سمجھ رہا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد جب اللہ تعالی اس بچے کو عقل اور فہم عطا فرمائیں گے اور اس کو سمجھ آئے گی تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ میں تو اپنے لیے موت مانگ رہا تھا اور میرے ماں باپ میرے لیے زندگی اور صحت کا راستہ تلاش کررہے تھے ، اللہ تعالی تو اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں ، اس لیے اللہ تعالی وہ راستہ اختیار فرماتے ہیں جو انجام کار بندہ کے لیے بہتر ہوتا ہے ، اب بعض اوقات اس کا بہتر ہونا دنیا میں پتہ چل جاتا ہے اور بعض اوقات دنیا میں پتہ نہیں چلتا ۔
یہ کمزور انسان کس طرح اپنی محدود عقل سے اللہ تعالی کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے، وہی جانتے ہیں کہ کس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے؟ انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالی سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کے فیصلوں کو برا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا اور کب بہتر ہے ۔
اسی وجہ سے اس حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ جب تم کسی کام کا استخارہ کرچکو تو اس کے بعد اس پر مطمئن ہوجاوٴ کہ اب اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ خیر ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ، چاہے وہ فیصلہ ظاہر نظر میں تمہیں اچھا نظر نہ آرہا ہو ، لیکن انجام کے اعتبار سے وہی بہتر ہوگا ، اور پھر اس کا بہتر ہونا یا تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائے گا، ورنہ آخرت میں جا کر تو یقینا معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں
مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
”اب دیکھئے یہ(استخارہ) کس قدر آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں :
۱- پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر سو جاؤ ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
۲- دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر ۔
۳- تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو ۔
۴- چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا ۔
۵- پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں ۔
۶- چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار کیجیے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ، بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں ، اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنّفین پر رحم فرمائیں“۔ (خطبات الرشید)
باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے آداب میں سے تو ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے ۔
۱- استخارہ صرف اہم کام کے لیے نہیں !
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموں میں استخارہ کرنا چاہیے ، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لیے یا کاروبار کے لیے استخارہ کرلیا اور بس!گویا ہم ان چندگنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنی ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہیے، اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردداور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہیے ،حدیث نبوی کے الفاظ ہیں :
کان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا․(بخاری)
یعنی حضوراکرم صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام کو ہر کام میں استخارے یعنی اللہ سے خیر طلب کرنے کی تعلیم دیتے تھے ۔
۲- استخارہ کے لیے کوئی وقت مقررنہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے ، ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔
۳- استخارہ کے بعدخواب آنا ضروری نہیں
استخارہ کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”استخارہ “ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو، خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعدآسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یاکوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو ، یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔
۴- کسی دوسرے سے ”استخارہ نکلوانا“
استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں اس کی اصلاح بھی ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ”استخارہ نکال دیجیے“گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجیے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لیے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے نہ کہ خبر کا معلوم کرنا ۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدس صلى الله عليه وسلم دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا لیکن آج تک کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے ۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے ۔
۵- ہم گناہ گار ہیں! استخارہ کیسے کریں ؟
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تو اللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا ۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ۔
لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے :
۱- پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے ، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں؟ گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
۲- دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو خود کرے ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ”نکال دیں گے “اور استخارہ کرنے کو ”استخارہ نکالنا“کہتے ہیں ،یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔
۶- استخارہ کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کا کوئی واقعہ معلوم کرنا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی امر کے مصلحت یا خلاف مصلحت ہونے میں تردد ہو تو خاص دعا پڑھ کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو ، اس کے دل میں جو بات عزم اور پختگی کے ساتھ آئے اسی میں خیر سمجھے ، استخارہ کا مقصد تردداور شک ختم کرنا ہے نہ کہ آئندہ کسی واقعے کو معلوم کرلینا۔
بعض لوگ استخارہ کی یہ غرض بتلاتے ہیں کہ اس سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا آئندہ ہونے والا واقعہ معلوم ہوجاتا ہے ، سو استخارہ شریعت میں اس غرض سے منقول نہیں ، بلکہ وہ تو محض کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تردد اور شک دور کرنے کے لیے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لیے ،بلکہ ایسے استخارہ کے ثمرہ اور نتیجے پر یقین کرنا بھی ناجائز ہے ۔(اغلاط العوام)
۷- استخارہ کے ذریعے چور کا پتہ یا خواب میں کوئی بات معلوم کرنا
یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح استخارہ سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والاکوئی واقعہ نہیں پتہ چل سکتا بالکل اسی طرح آئندہ پیش آنے والا واقعہ کہ فلاں بات یوں ہوگی معلوم نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر کوئی استخارہ کو اس غرض کے لیے سمجھے ہوئے ہے تو وہ اپنے غلط خیال کی اصلاح کرے کہ یہ بالکل باطل اعتقاد ہے ، مثلا کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو اس غرض کے لیے کہ چور کا پتہ معلوم ہوجائے استخارہ کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مفید ہے ۔
اور بعض بزرگوں سے جواس قسم کے بعض استخارے منقول ہیں جس سے کوئی واقعة صراحتا یا اشارة خواب میں نظر آجائے ،سو وہ استخارہ نہیں ہے بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے ، پھر اس کا یہ اثر بھی لازمی نہیں ، خواب کبھی نظر آتا ہے اور کبھی نہیں اور اگر خواب نظر آبھی گیا تو وہ محتاج تعبیر ہے، اگرچہ صراحت کے ساتھ نظر آئے پھر تعبیر جو ہوگی وہ بھی ظنی ہوگی یقینی نہیں ، اس میں اتنے شبہات ہیں پس اس کو استخارہ کہنا یا مجاز ہے اگر ان بزرگوں سے یہ نام منقول ہے، ورنہ اغلاط عامہ میں سے ہے ۔ (اصلاح انقلاب امت)
۸- استخارہ کام کے ارادہ سے پہلے ہو
استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ ابھی کر لو پھر برائے نام استخارہ بھی کرلو ، استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہیے تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہوجائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں ، استخارہ اس شخص کے لیے مفید ہوتا ہے جو خالی الذہن ہو ورنہ جو خیالات ذہن میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں دل اسی جانب مائل ہوجاتا ہے اور وہ شخص اس غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ یہ بات استخارہ سے معلوم ہوئی ہے ۔
۹- استخارہ صرف جائز کاموں میں ہے
ایک بات یہ بھی سمجھ لینی چاہیے کہ استخارہ کا محل مباحات ہے ،جو مباح یعنی جائز کام ہیں ان میں استخارہ کرناچاہیے ،جو چیزیں اللہ نے فرض کردی ہیں یا واجبات اور سنن موٴکدہ ہیں ان میں استخارے کی حاجت نہیں ۔
اسی طرح جن کاموں کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام اور ناجائز کردیا ہے ان میں بھی استخارہ نہیں ہے ،مثلا کوئی آدمی استخارہ کرے کہ نماز پڑھوں یانہ پڑھوں؟ روزہ رکھوں یانہ رکھوں؟ تویہاں استخارہ نہیں، یہ کام تو اللہ تعالی نے فرض کردیاہے ،یا کوئی شخص اس بارے میں استخارہ کرے کہ شراب پیوں یانہ پیوں، رشوت لوں کہ نہ لوں ،ویڈیو فلموں کا کاروبار کروں نہ کروں، سودی معاملہ کروں یانہ کروں تو ان سب منہیات میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ سب تو حرام ہیں، استخارہ ان چیزوں میں کیا جائے جو جائز امورہیں،رزق حلال کے حاصل کرنے اور کسب معاش کے لیے استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو فریضہ ہے استخارہ اس میں کیا جائے کہ رزق حلال کے حصول کے لیے ملازمت کروں یا تجارت کروں ؟ تجارت کپڑے کی کی جائے یا اشیائے خورد ونوش کی؟ اب یہاں استخارہ کی ضرورت ہے ، اسی طرح اگر حج کے لیے جانا ہو تو یہ استخارہ نہ کرے کہ میں جاوٴں یا نہ جاوٴں؟ بلکہ یوں استخارہ کرے کہ فلاں دن جاوٴں یا نہ جاوٴں ؟۔
رشتوں کے لیے استخارہ
رشتہ کا معاملہ عام معاملات سے الگ ہے ، یہ صرف اولاد کا کام نہیں بلکہ والدین کا کام بھی ہے ، صحیح رشتہ کا انتخاب والدین ہی کرسکتے ہیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ان کومستقبل کے حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں رشتہ کریں ؟اس لیے بہتر یہ ہے کہ جن لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ خود بھی استخارہ کرلیں اور اگر ان کے والدین زندہ ہوں تو وہ بھی کرلیں۔
استخارہ ہر مشکل، پریشانی اور فتنے سے بچاوٴکا حل
محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
”دورِ حاضر میں امت کا شیرازہ جس بری طرح سے بکھر گیا ہے ، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، جب استشارے کا راستہ بند ہوگیا تو اب صرف استخارہ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے ، حدیث شریف میں تو فرمایاتھا:
ترجمہ : جو استخارہ کرے گا خائب وخاسر(ناکام اور نقصان اٹھانے والا) نہ ہوگا، اور جو مشورہ کرے گاوہ پشیمان شرمندہ نہ ہوگا۔
عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کرکے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہوگا ، مسنون استخارہ کا مطلب یہی ہے کہ انسان جب کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی واضح اور صاف پہلو نظر نہیں آتا، اس کا علم رہنمائی سے قاصراور اس کی طاقت بہتر کام کرنے سے عاجز تو حق تعالی کی بارگاہ رحمت والطاف میں التجا کرتا ہے اور حق تعالی کی بارگاہ سے دعا ، توکل تفویض اور تسلیم ورضا بالقضا ء کے راستوں سے کرتا ہے کہ وہ اس کی دستگیری اور رہنمائی فرمائے ، بہتر صورت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)“۔(دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کے خود ساختہ طریقے اور ان کے مفاسد
اس زمانے کے مسلمانوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود گھڑ لیے ہیں جن کا طریقہ مسنونہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو استخارہ کا طریقہ بیان فرمایا در حقیقت وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بندوں تک پہنچایا مگر بندوں نے یہ قدر کی کہ اسے پس پشت ڈال کر اپنی طرف سے کئی طریقے ایجاد کر لیے ، اللہ تعالی نے جو استخارہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو سکھا یا آپ صلى الله عليه وسلم نے وہی اپنی امت کو سکھایا اور ایسے اہتمام سے سکھایا جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے ۔
مگر آج کے مسلمانوں نے اللہ تعالی کے ارشاد فرمائے ہوئے طریقے کے مقابلے میں اپنی پسند کے مختلف طریقے گھڑ لیے ہیں ،انہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتماد نہیں۔تو وہ تمام طریقے مسنون نہیں ہے ، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنے کا ہے ،کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے ، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس میں سے کوئی سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ ان طریقوں میں تو ایک گونہ خطرے کا اندیشہ ہے ، رسول اللہ کا سنت طریقہ چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کرنا پتہ نہیں اللہ کو پسند بھی ہویا نہ ہو۔
وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں
استخارے کا ایک اور مسنون طریقہ
سنت استخارے کا ایک تفصیلی طریقہ تو وہ ہوا جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا لیکن قربان جایے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، اس وقت تو وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر وہ استخارہ کی مسنون دعا کرے ، لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فورا اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لیے خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ایک دعا تلقین فرمائی ،وہ یہ ہے :
اے اللہ ! میرے لیے آپ پسندفرمادیجیے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، بس یہ دعا پڑھ لے ، اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ․(صحیح مسلم)
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔
اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :
اَللّٰہُمَ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ․ (ترمذی)
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے ،ان دعاوٴں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دو کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ساری عمر یہ معمول رہا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوری فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لیے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذرا سی دیر میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا فیصلہ کروں ، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو ، بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالی ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ، اس لیے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحے کے اندر تم نے اللہ تعالی سے رشتہ جوڑ لیا ، اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالی سے خیر مانگ لی اور اپنے لیے صحیح راستہ طلب کرلیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرتا ہے اور اس پر خاص اجروثواب بھی عطا فرماتے ہیں ، اس لیے انسان کو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ، صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ، اس وقت فورا ایک لمحہ کے لیے اللہ تعالی سے رجوع کر لو ، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔(اصلاحی خطبات)
الغرض استخارہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے لہذا اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، محض سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے حضرات علماء کرام سے رہنمائی حاصل کی جائے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح معنی میں سمجھ ،اس پر عمل کرنے والا اور عملا اس کو روئے زمین پر قائم کرنے والا بناۓ ، آمین۔