امریکہ کی جنگ سے جان چھڑانا وقت کی اہم ضرورت
امریکہ کے دو ارکانِ کانگریس نے ایوانِ نمائندگان میں قرارداد جمع کرائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کیخلاف خفیہ اپریشن ختم کرکے وہاں موجود امریکی فوجیوں کو فوری وطن واپس بلایا جائے۔ ڈیموکریٹک رکن ڈینس کیوسٹیچ نے ایوان میں کہا کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان میں امریکی فوجی کانگریس کی منظوری کے بغیر خفیہ اپریشن کر رہے ہیں۔ خفیہ اپریشن امریکی جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی جنگی قوانین کے مطابق امریکی افواج بیرون ملک صرف اس صورت میں بھجوائی جا سکتی ہیں‘ جب اسکی اجازت کانگریس دے یا امریکہ کو شدید خطرے کا سامنا ہو۔ کیوسٹیچ کے اس بل کی ری پبلکن رکن مون پال نے حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج نے پاکستان میں اپریشنز میں نمایاں اضافہ کردیا ہے‘ پاکستان میں بڑھتی ہوئی امریکی کارروائیوں نے امریکہ کو محفوظ بنانے کے بجائے امریکہ کے زیادہ دشمن پیدا کر دیئے ہیں‘ بتایا گیا ہے کہ اس قرارداد پر آئندہ ہفتے بحث اور ووٹنگ ہو گی۔
شبنم اور دودھ سے دھلی ہوئی پاکستان کی معطر فضائیں آج خودکش حملوں‘ بم دھماکوں اور امریکی ڈرونز کی بمباری سے بارود اور زہر آلود ہو چکی ہیں‘ صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی محض ایک ٹیلی فون کال پر سرنڈر کیا تو امریکہ نے پاکستان کی مدد سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ پاکستان کی حامی طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا‘ لاکھوں بے گناہ افراد کو خون میں نہلا کر خاک میں ملا دیا گیا‘ امریکہ نے افغانستان میں اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت بنائی جو صرف کابل تک محدود ہے۔ طالبان کی مسلسل نو سال کی مزاحمت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اب امریکہ ویت نام سے بھی بڑا ہزیمت کا داغ لے کر افغانستان سے کوچ کی تیاری کر رہا ہے۔ جب سے افغانستان میں 30 کھرب ڈالر کے معدنیات دریافت ہوئے ہیں‘ امریکہ کی للچائی نظریں انہیں لوٹ کر لے جانے کی خواہش مند نظر آتی ہیں اس سلسلے میں پینٹاگون کے ماہرین ان ذخائر کے معائنے اور مستقبل کی حکمت عملی کیلئے افغانستان میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ اوباما نے اگلے سال کے وسط میں افغانستان سے انخلاء کا اعلان تو کردیا ہے لیکن امریکی حکام کوئی ڈیڈ لائن دینے پر تیار نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انخلاء 2014ء تک مکمل ہو گا‘ حالات کے مطابق اس میں توسیع بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال افغان اپنے ملک میں امریکہ سے نمٹ رہے ہیں‘ انکی تاریخ گواہ ہے کہ وہ جارح غیرملکیوں سے نمٹنا خوب جانتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ سکندر اعظم سمیت کوئی بھی انکی سرزمین پر قابض نہ ہو سکا۔
کسی بھی خطے میں لڑی جانیوالی جنگ کے اثرات پڑوسی ممالک میں ضرور نمودار ہوتے ہیں‘ پاکستان عاقبت نااندیش حکمرانوں کے باعث امریکہ کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی ہے‘ اس لئے امریکہ کی دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ سے نہ صرف شدید متاثر ہو رہا ہے بلکہ اپنی سالمیت کو بھی خطرہ میں ڈال چکا ہے‘ اس صورت میں جب امریکہ بھارت اور اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ اپنی سازشوں اور پاکستانی حکمرانوں کی نادانیوں اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کی پالیسیوں کے باعث یہ جنگ پاکستان پر بھی مسلط کر چکا ہے۔ اس جنگ کے باعث 45 لاکھ افراد بے گھر ہوئے‘ اکثر کی آباد کاری دوبارہ نہیں ہو سکی‘ انکے کاروبار ختم ہو چکے‘ فوجی اپریشنز اور امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں تو ردعمل میں انکے لواحقین خودکش حملے کرکے اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں‘ جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں اور ان کا ساتھ دینے والے حکمرانوں تک انکی رسائی نہیں ہوتی‘ تو یہ سارا غصہ جہاں انکی رسائی ہے‘ وہاں حملے کرکے نکالتے ہیں‘ انکی آڑ میں دشمن بھی حساس اداروں‘ درسگاہوں‘ مزارات اور بازاروں کو نشانہ بناتا رہتاہے‘ جس میں بے گناہ اور معصوم شہری مارے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی اس جنگ میں بقول آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تین ہزار سے زائد فوجی افسر اور جوان شہید ہو چکے ہیں‘ ڈرون حملوں‘ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ انفراسٹرکچر کی تباہی کی مد میں شدید نقصان اسکے علاوہ ہے۔ گزشتہ روز صدر آصف علی زرداری نے وسیلہ حق پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو 45 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ امریکہ آج افغانستان میں خود اور اسکی کٹھ پتلی کرزئی حکومت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے‘ پاکستان پر عسکریت پسندوں کیخلاف مزید کارروائیاں کرنے پر زور دیا جاتا ہے اور حکومت پاکستان پر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات پر بھی پابندی ہے جو حکومت نے بصد شکریہ قبول کر رکھی ہے۔ امریکہ نہ صرف پاکستان کے نقصان کا ازالہ کرنے پر تیار نہیں بلکہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے جہاں تک ممکن ہے‘ کمزور کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے‘ اس پر دنیا کے ہر خطے سے اسلحہ جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں‘ حتیٰ کہ وہ امریکہ کے علاوہ روس‘ آسٹریلیا‘ ہالینڈ‘ برطانیہ‘ فرانس اور کینیڈا سے ایٹمی توانائی کے حصول کے معاہدے کر چکا ہے‘ جبکہ ایسی کوئی سہولت امریکہ پاکستان کو دینے پر تیار نہیں ہے بلکہ چین کے ساتھ اگر سول ایٹمی توانائی کے حوالے سے معاہدہ ہوا ہے‘ تو اس پر نہ صرف ناراض ہے بلکہ بلاجواز پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا ہے۔ امریکہ دونوں ممالک پاکستان اور چین کو ایسے معاہدوں سے گریز کی دھمکیاں دے چکا ہے‘ چین ایک خودمختار اور خوددار ملک ہے‘ وہ امریکہ کی دھمکیوں کی پروا نہیں کرتا‘ اس نے امریکی تحفظات کو مسترد کر دیا جبکہ پاکستانی حکمران امریکہ کے باجگزار ہونے کے تاثر کے باوجود ابھی تک تو چین سے دوری پر تیار نہیں‘ اچھا ہے ڈٹے رہیں۔ امریکہ جس کی جنگ پاکستان میں حکمران بڑی خوشدلی سے لڑ رہے ہیں‘ جس کے سبب پاکستان کی معیشت ڈوب چکی ہے‘ بھارت کے اسلحہ جمع کرنے کے خبط کے باعث خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے‘ اب امریکہ نے پاکستان کی دفاعی پشت میں یہ کہہ کر ایک اور خنجر گھونپ دیا ہے کہ ایٹمی سپلائرز گروپ کے اجلاس میں پاکستان چین معاہدے کیخلاف ووٹ دینگے۔
امریکہ کی پاکستان کے ساتھ دوستی کی آڑ میں دشمنی اب خفیہ نہیں رہی‘ ہمارے حکمران نہ جانے کیوںامریکہ پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانیوں کی بربادی دیکھ رہے ہیں۔ یہ ان معاملات کو خفیہ رکھ رہے ہیں‘ جو امریکہ و مغربی میڈیا اور خود امریکی ارکان کانگریس ظاہر کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں بلیک واٹر اور ڈین کارپ اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ شرط لگاتے ہیں کہ بلیک واٹر اگر پاکستان میں موجود ہو تو وہ استعفیٰ دے دینگے‘ بلیک واٹر کے لوگ کئی بار پاکستان کے بڑے شہروں سے پکڑے گئے‘ بغیر لائسنس کے خطرناک اسلحہ اور بغیر کاغذات کے گاڑیوں کے ساتھ لیکن حکومت بڑی ڈھٹائی سے ایسے واقعات کی تردید کر دیتی ہے‘ امریکی فوجیوں کے پاکستان میں خفیہ اپریشنز کی امریکی اور پاکستانی حکومت کئی بار تردید کر چکی ہیں‘ دونوں کیلئے شرم کا مقام ہے کہ ارکان کانگریس نہ صرف ان خفیہ کارروائیوں کی تصدیق کر رہے ہیں بلکہ ان کو غیرقانونی قرار دیکر اپریشنز میں ملوث امریکی فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اب تو پاکستانی حکمرانوں کی غیرت اور حمیت جاگ جانی چاہیے‘ امریکہ پاکستان کو اپنی باجگزار ریاست بنانا چاہتا ہے‘ جس میں ہمارے حکمران برابر کے شریک ہیں‘ اسکی فوج کے خفیہ اپریشنز‘ ہزاروں کی تعداد میں سفارتکاروں کی موجودگی‘ بلیک واٹر اور ڈین کارپ کی کارروائیاں‘ ہر بڑے شہر میں حساس مقامات کے قریب کرائے کی عمارتوں کا حصول اور پنجاب کے گورنر ہائوس کی خریداری میں دلچسپی ایسے اوامر ہیں‘ جو امریکہ کے مذموم ارادوں کی غمازی کرتے ہیں۔
امریکہ کی پاکستان میں موجودگی سے ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے‘ نہ خوشحالی کا دور دورہ‘ امریکہ آکاس بیل کی مانند پاکستان کو نچوڑ رہا ہے اور مزید نچوڑنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ امریکہ کی جنگ کو خیرباد کہہ کر اسے اپنی فوج‘ بلیک واٹر کے غنڈوں اور سفارتکاروں کی فوج سمیت پاکستان سے کوچ کرنے پر مجبور کیا جائے‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی لعنت سے صرف اسی طریقے سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے‘ جو پاکستان کی معیشت‘ امن اور معصوم لوگوں کی بڑی تعداد کو دن بدن نگل رہی ہے۔
پانی پر خانہ جنگی ؟ ایک پاکستانی قوم کیوں نہیں…!
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ قوم پرستوں کو پانی پر سیاست نہیں کرنی چاہیے‘ میں قوم پرستوں کو نہیں مانتا۔ سب سے بڑا قوم پرست میں خود ہوں‘ صوبوں کو اعتماد میں لیا جائیگا‘ مشاورت سے پانی کے مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہتے ہیں۔
پانی کا مسئلہ بہت ہی حساس اور شدید اہمیت کا حامل ہے‘ پاکستان میں اس وقت ایک طرف شدید بارشوں کی وجہ سے ملک کے بہت سے حصے بارش کے پانی کی زد میں ہیں‘ دوسری طرف بھارت نے دریائے چناب میں دریائے توی کا پانی چھوڑ دیا ہے جس سے صوبہ خیبر پی کے اور پنجاب میں سیلاب شدید ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے اسکے تمام زمینی راستے بند ہو گئے ہیں اور اس کا رابطہ باقی ملک سے نہیں رہا۔ صدر زرداری ڈیموں کی تعمیر کی بات کرتے ہیں‘ وہ ماہرین سے بات کریں جو انہیں بتائیں گے کہ منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے وقت بھی سندھ کے قوم پرستوں نے اسکی شدید مخالفت کی مگر واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا اعداد و شمار کے مطابق بیان ہے کہ یہ دو ڈیم تعمیر ہونے کے بعد صوبہ سندھ کو ملنے والے پانی کی مقدار دو گنا ہو گئی ہے۔ اسی طرح اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو جائے تو بارشوں کے پانی سے ہونے والی تباہی بھی رک جائیگی اور صوبہ سندھ کو پہلے سے زیادہ پانی ملے گا اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی نجات مل جائیگی۔ پاکستان ایک وفاق ہے‘ کوئی بھی وفاقی اکائی دوسرے کی دشمن نہیں ہو سکتی۔ دریائے نیل کئی ممالک کے درمیان سے گزرتا ہے‘ ہر ملک اپنی ضرورت کے مطابق اس دریا کے پانی کو استعمال کر رہا ہے۔ اسکے بارے میں تو کبھی کسی نے قوم پرستی کا چرچا کیا‘ نہ ملکوں میں جنگ ہوئی۔ دریائے سندھ ہمارے ملک کیلئے اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان تحفہ ہے‘ ہمیں اس پر آپس میں جھگڑا یا خانہ جنگی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ سندھ کے عوام کو گزشتہ ساٹھ برسوں میں بیسیوں مرتبہ پانی کی زیادہ ضرورت تھی‘ پنجاب نے بڑی فراخدلی سے اپنے حصہ کا پانی دے دیا۔ سندھ کے قوم پرستوں کو جب گندم کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ پنجاب سے لے لیتے ہیں۔ پنجاب میں بھی قوم پرست موجود ہیں‘ انہوں نے تو کبھی سندھ کے ساتھ کسی تعصب کا اظہار نہیں کیا۔
ہم ایک قوم ہیں‘ پاکستان ہم سب کا ملک ہے‘ ہم کلمہ گو مسلمان ہیں‘ آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ ہمارے درمیان موجود لیڈروں کو چاہیے کہ وہ صوبائی اور علاقائی تعصب لسانی اختلافات کو ختم کرنے کیلئے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کریں اور اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو قومی جماعتیں بنائیں۔ اگر پنجاب میں بھی قوم پرستی عود کر آئی تو پھرکوئی سندھی‘ پٹھان صدر کیسے بن جائیگا؟ ہم سب کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے جھنڈے تلے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو ایک قوم اور ایک ملک کے شہری کہلانے پر فخر کرنا چاہیے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کیخلاف پنجاب اسمبلی کا احتجاج
ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی نے اسے کشمیریوں کے خون سے غداری قرار دیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان لائق صد ستائش ہیں کہ انہوں نے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ کو کشمیریوں کے خون سے غداری قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور اس پر بحث کی اجازت مانگی مگر سپیکر نے انکار کر دیا کہ کہیں بھارت سن نہ لے‘ تاہم ایک رکن شیخ علاء الدین نے کہا‘ ثابت کر سکتا ہوں‘ معاہدہ ہو چکا‘ بھارت کو مراعات نہیں دینگے جبکہ تنویر کائرہ نے کہا‘ معاہدہ نہیں ہوا‘ کائرہ صاحب کی شپر چشمی ہے کہ انہیں آسمان پر دمکتا ہوا معاہدہ نظر نہیں آرہا۔ بہرصورت پنجاب اسمبلی سے کشمیریوں کے حق میں جو آواز اٹھی ہے‘ وہ رنگ ضرور لا سکتی ہے‘ بشرطیکہ اسمبلی اس ناپسندیدہ معاہدہ کیخلاف اپنا احتجاج جاری رکھے‘ یہ معاہدہ ایسے حالات میں ہوا ہے‘ جبکہ بھارتی درندے مقبوضہ کشمیر میں مظلوم و محروم نہتے کشمیریوں کا گوشت نوچ رہے ہیں اور کسی طرح بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر کوئی معاہدہ کرنے سے گریزاں ہیں اوربھارت جب بھی مذاکرات کرتا ہے‘ کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے کر مذاکرات ناکام بنا کر اپنی راہ لیتا ہے۔ سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب کو اس اہم ایشو پر بحث کی اجازت دینی چاہیے بلکہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اس معاہدے پر کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ بھارت جو کہتا ہے‘ وہ منوا لیتا ہے‘ آخر ایسا کیوں ہے‘ کیا ہم امریکہ کے اس حد تک پابند ہو چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے ہوتے ہوئے بھی بھارت جیسے مکار دشمن کو راہداری دے دی‘ حکمران اس سلسلے میں نظرثانی کریں اور اگر کچھ بھی نہیں کر سکتے تو راہداری کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کر دیں۔