سیکولراِزم کی دعوت
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیکولراِزم کس بات کا علمبردار ہے اور وہ اِنسانوں کے سامنے کیا پیغام پیش کرتا ہے؟ آج کل بحث وگفتگو میں سیکولراِزم کی اصطلاح بہت استعمال ہوتی ہے ، لیکن پہلے اس کے لغوی معنی پر غور کیاجانا چاہیے۔ اوکسفرڈ ڈکشنری میں سیکولراِزم کا مفہوم یوں بیان کیاگیا ہے:
’’سیکولرازم ایسا نظریہ ہے جو اِس دنیا کے معاملات سے بحث کرتا ہے اور روحانیت یا تقدس سے عاری ہے۔ یہ مذہب یا مذہبی عقیدے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا‘‘۔ (ایڈیشن ۲۰۰۶ء)
ویبسٹر ڈکشنری میں سیکولرازم کی اصطلاح کی تشریح اِس طرح کی گئی ہے:
یعنی ’’سیکولراِزم ایک منظم سیاسی وسماجی فلسفہ ہے جو مذہبی عقیدے اور عبادت کی ہر شکل کو مسترد کرتا ہے۔ سیکولرازم اس تخیل کا نام ہے کہ تعلیم اور دیگر اجتماعی امور کے نظم میں کسی مذہبی عنصر کی شمولیت نہ ہونی چاہیے‘‘۔ (ایڈیشن ۱۹۹۶ء)
اپنی تصنیف "Secularization of European Mind" میں Chadwick نے تذکرہ کیا ہے کہ پہلی بار سیکولراِزم کی اصطلاح Holyoake نامی مفکر نے ۱۸۵۱ء میں استعمال کی۔ وہ اور اس کے رفقا اپنے آپ کو سیکولر کہتے تھے۔ انہوں نے "Reasoner" نامی جریدے کو اپنے خیالات کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا۔ اس جریدے نے اپنے مشن کا تعارف یوں کرایا ہے:
’’یہ ایک جیسا جریدہ ہے جو اِ س دنیا کے مسائل سے تعرض کرتا ہے اور ان سوالات پر بحث کرتا ہے جن کا تصفیہ اِسی زندگی میں ممکن ہے‘‘۔ (یورپی ذہن. از چاڈوک۔ باب چہارم)
چاڈوک اپنی مذکورہ بالا تصنیف میں تصریح کرتا ہے کہ سیکولراِزم کی اصطلاح کو رواج دینے والا مفکر ہولیوک اپنے آپ کو ملحد کہلانا پسند نہیں کرتا تھا۔ ’’ملحد‘‘ کی حیثیت سے تعارف کو ناپسند کرنے کی وجہ اس کے الفاظ میں یہ تھی:
’’ملحد کی اصطلاح اِس لیے نامناسب ہے کہ عوام ’’ملحد‘‘ سے ایسا شخص مراد لیتے ہیں جو نہ خدا سے کوئی واسطہ رکھتا ہو نہ اخلاقیات سے، بلکہ جو اِن دونوں سے دور ہی رہناچاہتا ہو‘‘۔ (ایضاً)
مندرجہ بالا تشریحات کی روشنی میں سیکولرازم کے دو پہلو سامنے آتے ہیں:
(الف) ایک پہلو فلسفیانہ ہے۔ اس اعتبار سے سیکولرازم خدا اور اِنسان کے زندہ تعلق کی صاف نفی کرتا ہے۔ اگرچہ سیکولراِزم کے ابتدائی داعی خود کو ملحد کہلانا پسند نہیں کرتے تھے مگر اس کی وجہ محض یہ تھی کہ وہ عوام میں اپنے خیالات پھیلانے کے خواہاں تھے اور اِس لیے عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔ بہر صورت یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ ان کا رجحان الحادکی جانب تھا۔ اِس رجحان کی وجہ ان کا یہ اصرار تھا کہ صرف ان معلومات کو یقینی اور قابل اعتماد تسلیم کیا جانا چاہیے جو اِنسان کو اپنے مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں بالفاظ دیگر وحی الٰہی کو علم کا قابلِ اعتماد ذریعہ تسلیم نہ کرناچاہیے۔ غیب کا انکار اِس رجحان کا لازمی نتیجہ ہے۔
(ب) سیکولراِزم کا دوسرا پہلو عملی ہے۔ اس اعتبار سے سیکولرازم اِس رجحان کا نام ہے کہ اصلاً اِس دنیا اور اس کے معاملات پر توجہ کی جائے۔ چاہے زبان سے آخرت کا انکار نہ ہو لیکن زندگی کے امور ومسائل پر گفتگو اور بحث میں اور کارِ حیات کی انجام دہی میں آخرت کو اور اس کے اِمکان کو نظرانداز کردیا جائے۔ اِسی طرح سیکولرازم اِس بات کانام بھی ہے کہ تعلیم، سیاست اور دیگر اجتماعی امور کو مذہب سے آزاد رکھاجائے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب یا الٰہی ہدایت کی طرف رجوع نہ کرنے کی صورت میں اجتماعی امور میں رہنمائی کس منبع سے حاصل کی جائے گی تو اِس کا جواب سیکولراِزم کے نزدیک یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے معاملات کی تنظیم کے لیے اِنسانی عقل کو رہنما بنایا جائے گا۔ یہ عقل انسانی مشاہدات اور تجربات کو زیر غور لائے گی، ان کو منظم کرے گی اور ان سے نتائج اخذ کرے گی۔ چونکہ مشاہدات اور تجربات قابلِ اعتماد ہیں، اِس لیے ان سے اخذ کردہ نتائج بھی قابلِ اعتماد ہوں گے۔
مغرب میں سیکولرازم کی روایت خدا اور مذہب کے انکار کی روایت ہے اسی لیے مغرب کی لغات میں سیکولرازم کے معنی لادینیت بتائے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیکولرازم کا مسلم معاشروں میں کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی فکری روایت ایمان اور یقین کی روایت ہے‘ مغرب کی طرح”شک“ کی روایت نہیں ہے۔ مغرب کے بعض دانش وروں نے امام غزالیؒ کی فکر میں شک کا عنصر تلاش کیا ہے اور انہیں مغرب میں شک کی روایت کا پیش رو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن غزالیؒ پر اس سے بڑا الزام کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزالیؒ نے اپنی خود نوشت المنقذ من الضلال میں صاف لکھا ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی لمحہ نہیں آیا جب انہیں وجود باری تعالیٰ پر یا اسلام کے دیگر عقائد پر کوئی شک گزرا ہو۔ البتہ ان کی زندگی میں ایک دور ایسا ضرور آیا تھا جب انہیں اپنے دور میں موجود اسلام کی مختلف تعبیرات کے حوالے سے تذبذب نے گھیر لیا تھا۔ لیکن اسلام کی بنیادی عقائد میں شک کا پیدا ہونا اور اسلام کے حوالے سے موجود تعبیرات کے معاملے میں تذبذب کا لاحق ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔
بلاشبہ اسلام کی فکری تاریخ میں بعض گروہ ایسے ہوتے ہیں جن کے کفر پر امت مسلمہ میں اجماع ہوگیا۔ مثلاً معتزلہ۔ لیکن معتزلہ کی روایت بھی شک اور مذہب کے انکار کی روایت نہیں ہے۔ معتزلہ خدا اور مذہب کے قائل تھے البتہ ان کے بعض عقائد ایسے تھے جو خلاف اسلام تھے‘ چنانچہ ان عقائد کی بنیاد پر انہیں دائرہ اسلام سے باہر کردیا گیا۔ اسی طرح مسلمانوں میں منکرین حدیث کا بھی ایک عنصر پایا جاتا ہے لیکن انکارِ حدیث اسلام کا کلی انکار نہیں جزوی انکار ہے اور اس کا مغرب میں موجود کلی انکار کی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔
مغرب میں سیکولرازم کا ایک پہلو یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کو الگ کرکے مذہب کو ریاستی امور سے بے دخل کردیا گیا اور کہا گیا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانب دار ہوتی ہے اور یہ کہ مذہب افراد کا ” نجی معاملہ“ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب میں سیکولرازم صرف فکری تجربہ ہی نہیں ”تاریخی تجربہ“ بھی ہے۔ لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں سیکولرازم کبھی تاریخی تجربہ نہیں رہا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ملوکیت ہے‘ بادشاہت ہے مگر سیکولرازم نہیں ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں مذہب کبھی سیاست سے الگ نہیں رہا اور نہ ہی اسے کبھی فرد کا نجی معاملہ قرار دیا گیا۔ مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی ایجاد کیا اور یہ تجربہ اسلام کی ضد تھا لیکن اس میں مذہب کے انکار کی وہ صورت نہیں تھی جو صورت مغرب میں پائی جاتی ہے پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اکبر نے اپنے آخری زمانے میں دین الٰہی سے رجوع کرلیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیکولرازم مسلمانوں کی فکری تاریخ اور مسلمانوں کے تاریخی تجربے میں ایک اجنبی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ سیکولرازم اور مسلم معاشروں کے تعلق سے گفتگو کا محض ایک زاویہ ہے۔
گفتگو کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ سیکولرازم خدا اور مذہب کا انکار کیے بغیر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تباہی مچا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سیکولرازم کی اس صورت کا ”تشخص“ کیا ہی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا ایک تصور آخرت ہے اور ایک تصور دنیا۔ اس تصور کے دائرے میں ”دین داری“ یہ ہے کہ آخرت کو دنیا پر کامل غلبہ حاصل رہے اور انسان کی زندگی آخرت کی محبت کی علامت ہو۔ اس تصور کے دائرے میں دین داری کی ضد یہ ہے کہ انسان دنیا کی محبت میں مبتلا ہوجائے اور دنیا آخرت پہ غالب آجائے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ دنیا ہماری آرزوﺅں اور تمناﺅں میں آخرت پر غالب ہو۔ اس کی ایک شکل یہ ہے کہ دنیا ہمارے خیالات میں آخرت پر غالب ہو۔ اس معاملے کا ایک رخ یہ ہے کہ دنیا ہمارے منصوبوں میں آخرت پر غالب آجائے اور اس مسئلے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ہماری زندگی آخرت پر دنیا کے غلبے کا مظہر بن جائے۔ غور کیا جائے تو سیکولرازم کی یہی وہ صورت ہے جو خدا اور مذہب کا انکار کیے بغیر ہماری زندگی میں نہ صرف یہ کہ سرایت کرچکی ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔
اس صورتِ حال کا ایک استعارہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی زر پرستی ہے۔ اسلامی معاشرے میں فضیلتیں صرف دو ہیں تقویٰ کی فضیلت اور علم کی فضیلت۔ لیکن مسلم معاشروں میں ان فضیلتوں کا فضیلت ہونا نہ ظاہر ہے نہ ثابت ہے۔ تقویٰ کا دوسرا نام شرافت ہے اور شریف آدمی کو ہمارے معاشرے میں بے وقوف آدمی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے تو مسلم معاشرے تقریباً علم سے بے نیاز کھڑے ہیں اور مسلم معاشروں کے بازار میں علم ایک ایسی شے ہے جس کا کوئی خریدار نہیں۔ مسلم معاشروں میں اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ دولت ہے لیکن دولت کا معاملہ یہ ہے کہ دولت صرف دولت نہیں ہے بلکہ وہ پوری زندگی بن گئی ہے۔ شرافت اور نجابت ہے تو اس کے پاس جس کے ہاتھ میں دولت ہے۔ صاحبِ علم اور ذہین ہے تر وہی شخص جس کے پاس زر کے انبار ہیں۔ طاقتور ہے تو وہی انسان جس کا بینک بیلنس صحت مند ہے۔ ایک وقت تھا کہ لڑکیوں کے رشتے کرتے ہوئے شرافت اور نجابت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ شرافت اور نجابت کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پوچھتا ہے تو صرف ایک چیز کو دولت کو‘ نوکری کو‘ تنخواہ کو‘ لڑکے میں دس عیب ہوں تو کوئی بات نہیں مگر اس میں دولت کی قلت کا عیب نہیں ہونا چاہیے۔
ہماری دنیا پرستی کی ایک بڑی علامت ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ اسلامی تاریخ میں علم کے دو عظیم مقاصد رہے ہیں۔ ایک یہ کہ علم معرفت الٰہی میں مدد دے دوسرے یہ کہ علم کی بنیاد پر تخلیق و ایجاد کی روایت آگے بڑھے اور علم‘ علم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرے لیکن ہم نے علم کو ان دو عظیم مقاصد سے کاٹ کر اس کو صرف ایک مقصد سے وابستہ کرلیا ہے اور یہ مقصد ہے اچھی ملازمت کا حصول۔ چنانچہ والدین اپنے بچوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ٹھیک طرح سے پڑھیں تاکہ انہیں اچھے سے اچھا روزگار حاصل ہوسکے۔ عزیز رشتے دار بچے کو اسی ہدف پر توجہ مرکوز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اساتذہ کا مشن بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو بہتر سے بہتر امتحانی نتائج پیدا کرنے میں مدد دیں تاکہ انہیں اچھی سے اچھی ملازمت مل سکے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پورا معاشرہ نئی نسلوں کو گمراہ اور تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور مزے کی بات ہے کہ اس پر فخر کرتا ہے۔ تعلیم کا یہ ماڈل سرسید کی دین ہے اور سرسید کے زمانے ہی سے یہ ماڈل عوام میں بے انتہا مقبول ہے۔
اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے اکبرالٰہ آبادی نے کہا تھا: سید اٹھے جو گزٹ لے کر تو لاکھوں لائی شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا اس شعر میں سرسید کا گزٹ ”نئے علم“ کی علامت ہے اور قرآن ”قدیم علم“ کی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب قرآن دکھانے سے بھی پیسے مل جاتے ہیں اور وہ غلط نہیں کہتے مگر بدقسمتی سے ہم قرآن بھی دنیا کے لیے ہی پڑھ اور پڑھا رہے ہیں۔
ہماری دنیا پرستی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہماری صلاحیت‘ توانائی اور وقت کا بہترین اور بیشتر حصہ معاشی سرگرمی کے لیے وقف ہوگیا ہے۔ مذہبی زندگی کے لیے نہ ہماری بہترین صلاحیتیں استعمال ہورہی ہیں نہ بہترین توانائیاں نہ بہترین وقت۔ اس سلسلے میں مری بھیڑ اللہ کے نام کی کے اصول پر عمل ہورہاہے یعنی ہماری صلاحیت ‘ توانائی اور وقت سے جو حصہ ”بچ“ جاتا ہے اسے ہم مذہبی زندگی‘ مذہبی کاموں اور مذہبی سرگرمیوں کے لیے بروئے کار لاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ اس کے لیے ”بچی کھچی چیزیں“ استعمال کی جائیں۔ لیکن یہ بات نہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور میں کہیں موجود ہے نہ ہمیں اس پر کسی قسم کی شرمندگی لاحق ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب ہماری زندگی کا متن نہیں صرف حاشیہ ہے۔ ہماری زندگی کا متن دنیا اور اس کی محبت ہے۔ یہ سرتاپا ایک سیکولر طرزِ فکر اور طرزِ حیات ہے لیکن ہم اس کے اعتراف اور ادراک دونوں سے گریزاں ہیں۔
۱۱؍اگست ۴۷ء کے بعد جو ارشادات
قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی
باربار خود ان کی زندگی میں کی اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، اس کے
چند نمونے ملاحظہ ہوں
پشاور ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خاں نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا۔۔۔ انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں۔ (پاکستان ٹائمز، ۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)
کراچی، ۲۶جنوری: قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں(جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے گذشتہ شام دی گئی) تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنا پر نہیں بنے گا۔(پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خاں وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔(پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء
کیا پاکستان سیکولر اسٹیٹ ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں
دعوت کی عالم گیری
سیکولرازم کا مختصر تعارف سامنے آجانے کے بعد اِس اعتبار سےموازنہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا ان نظریات نے تمام اِنسانوں کو اپنا مخاطب بنایا ہے اور کیا سب سے ان کے خطاب کی نوعیت یکساں ہے؟ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، یہ بات واضح ہے کہ اس کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ قرآن مجید اِنسانوں کے لیے ’’الناس‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اس نے اپنی دعوت بِلا تفریق سارے انسانوں کو پیش کی ہے۔ ایرانی مفکر علی شریعتی اپنی تصنیف ’’عمرانیاتِ اسلامی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قرآن نے ہرجگہ ’الناس‘ کو خطاب کیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو الناس کی طرف بھیجا گیا، آپ نے الناس سے خطاب کیا۔ مزید برآں اجتماعی عروج وزوال کا ذمہ دار بھی الناس کو ٹھہرایا گیا ہے۔ عمرانیات کی زبان میں تشریح کریں تو اِنسانوں کو مجموعی حیثیت سے الناس کہا گیا ہے (مختلف طبقوں اور گروہوں کے مابین فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے)۔‘‘
اِسلامی خطاب کے عام ہونے کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہے کہ اسلام جو پیغام پیش کرتا ہے ، وہ بھی سب کے لیے یکساں ہے۔ جو دعوت ایک فرد کے لیے ہے، وہی دوسرے کے لیے بھی ہے۔ سب کو اِسلام نے اللہ کی بندگی کی طرف ہی دعوت دی ہے۔ دعوت کی یہ یکسانیت، انسانی مساوات کا لازمی نتیجہ ہے۔
خطاب کی عمومیت کے اعتبار سے اب سیکولرازم کے نظریے کا جائزہ لیاجاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’کیا سیکولرازم کا خطاب سارے اِنسانوں سے ہے‘‘؟ اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں سیکولرازم کے علمبرداروں نے پوری دنیامیں اس کی تبلیغ کی ہے اور جہاں موقع ملا ہے جبر اوراکراہ کے ذریعے سیکولرازم کے نفاذ میں بھی کوئی دریغ نہیں کیا ہے۔ اس طرز عمل سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ سیکولرازم اپناپیغام سارے اِنسانوں تک پہنچانے کا قائل ہے۔ اس کی دعوت کسی ملک، طبقے یا گروہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ سب کے لیے ہے۔
اس موضوع سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا سیکولراِزم کا پیغام ہر انسانی گروہ کے لیے یکساں ہے؟ اِس سوال کا جواب دینے کے لیے سیکولرازم کی دعوت کے ایک کلیدی جز پر غور ضروری ہے۔ وہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اِنسانی مسائل میں رہنمائی کے لیے ’’ہدایت الٰہی‘‘ کے بجائے ’’عقلِ انسانی‘‘ کی طرف رجوع کیا جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقلِ انسانی سے استفادہ کس طرح کیا جائے گا؟ اس سلسلے میں پہلی مشکل تو یہ ہے کہ ہر فرد کی عقل الگ الگ رہنمائی کرتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باہم تبادلہ خیال اور بحث ومباحثے کے بعد بھی لوگوں کی آرا میں یکسانیت پیدا نہیں ہوپاتی۔ دوسری دقّت یہ ہے کہ اِنسانی عقل آزادانہ اور دیانت دارانہ کام نہیں کرتی بلکہ سوچنے والے فرد کے جذبات اور مفادات سے بہرحال متاثر ہوتی ہے۔تیسری دشواری یہ پیش آتی ہے کہ عقل کو اپنا کام انجام دینے کے لیے زیرِ غور معاملے سے متعلق معلومات درکار ہوتی ہیں اور اکثر یہ معلومات ناقص اور ادھوری ہوتی ہیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خلافِ واقعہ باتوں کو ’’معلومات‘‘ کے طور پر پیش کردیاجاتا ہے۔ جب عقل ناقص معلومات کی بنا پر نتائج اخذ کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ نتائج بھی ناقص ہوتے ہیں۔ چوتھی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ پیچیدہ معاملات میں صحیح رائے پر پہنچنے کے لیے معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوچنے والے کی عقل، معاملے کے ایک پہلو پر توجہ کرتی ہے تو دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کردیتی ہے۔ عقل کی رہنمائی سے استفادہ کرنے میں حائل اِن تمام دشواریوں سے ہر وہ شخص واقف ہوگا جس نے اجتماعی امور و مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہو۔
اِن مشکلات کے علاوہ عقلِ انسانی سے استفادے میں سب سے بڑی دشواری جو سامنے آتی ہے وہ معیارات اور قدروں کے بارے میں ہے۔ اِنسانی رویوں کے تعین کے لیے رہنما اقدار (Values) کی ضرورت پڑتی ہے جو خوب و ناخوب، صحیح و غلط، پسندیدہ و ناپسندیدہ اور مطلوب و نامطلوب طرزِ عمل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ عقل اِس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی بلکہ اس کو قدروں کے تعین کے لیے اِنسانی ضمیر اور وجدان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے یا سماجی روایت (Tradition) سے رہنمائی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ جب ایک بار معیارات متعین ہوجاتے ہیں تب اِنسانی عقل یہ کام کرسکتی ہے کہ ایسے طریقے سوچے اور ایسی تدابیر اختیار کرے جن سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوسکتے ہوں یا اجتماعی معاملات میں ایسے ضوابط اورقوانین وضع کرے اور ایسی پالیسیاں مرتب کرے جو متعین اقدار کی آئینہ دار ہوں۔
مثال کے طور پر اگر کسی سماج میں حیا اور عفت و عصمت کو بنیادی قدر قرار دیا جائے اور فرد کی آزادی کو اخلاقی حدود کے تابع سمجھا جائے تو عقلِ انسانی اِس مزاج سے مطابقت رکھنے والے ضوابط اور آداب وضع کرسکتی ہے یا وہ موجود ہوں تو ان کی معقولیت پر بآسانی مطمئن ہوسکتی ہے۔ مثلاً حیا اور پاکیزگی کی قدروں کی تابع عقل کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ بِلاضرورت اختلاطِ مرد وزن ناپسندیدہ ہے، مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ عورتوں کے لیے یہ درست نہیں کہ غیر محرم مردوں کے سامنے اپنی زینت کا مظاہرہ کریں۔ پردے اور حجاب کا اہتمام ضروری ہے ، نکاح کو آسان بنایا جانا چاہیے اور عورت کو سامانِ تجارت بنانا اس کی توہین ہے۔اِس کے برعکس اگر کسی سماج میں حیا اور پاکیزگی کو کوئی خاص اہمیت نہ دی جائے بلکہ جنسی معاملات میں فرد کی آزادی کو مطلق (Absolute) سمجھا جائے تو عقلِ انسانی اس مزاج سے مطابقت رکھنے والے قوانین وضوابط وضع کرسکتی ہے۔ اس مزاج کی تابع عقل محض بدکاری کو جرم قرار نہ دے گی بلکہ صرف اس وقت اس فعل کو جرم سمجھے گی جب اس میں جبر شامل ہو اس لیے کہ اس صورت میں فرد کی آزادی مجروح ہوتی ہے۔ اِسی طرح پردے، حجاب اور اخفائے زینت کے احکام اِس عقل کی سمجھ میں نہ آئیں گے۔
اِس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایتِ الٰہی کے بجائے عقلِ انسانی سے رہنمائی حاصل کرنے کا سیکولر پیغام، اپنے اندرابہام (Ambiguity) رکھتا ہے۔ اِس ابہام کو دور کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ عقل اپنا فریضہ، کن قدروں کی رہنمائی میں انجام دے گی؟ سیکولرازم کے علمبرداروں نے اپنے عملی رویے سے اِس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ قدریں مغربی معاشرے سے لی جائیں گی۔ اِس جواب پر پوری دنیا میں عمل بھی ہورہا ہے۔ نظامِ تعلیم اور ذرائع اِبلاغ پوری قوت سے مغربی قدروں کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور جو معاشرے اِس تبلیغ میں مزاحم ہیں ان پر بہ جبر اِن قدروں کو مسلط کیاجارہا ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی اور معاشی نظام اِس طرح مرتب کیے جارہے ہیں کہ اِن قدروں کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف اِنسانی گروہوں کے لیے سیکولراِزم کا پیغام یکساں نہیں ہے۔ (الف) اہلِِ مغرب کے لیے سیکولراِزم کا پیغام یہ ہے کہ وہ اِنسانی امور ومسائل میں اپنی عقل کو رہنما بنائیں۔ (ب) رہی بقیہ انسانیت تو اس کے لیے سیکولرازم کی دعوت یہ ہے کہ وہ مغربی عقل کا اتباع کریں یعنی پہلے ان قدروں کو تسلیم کریں جن کو صنعتی انقلاب کے بعد مغرب نے اپنا رہنما بنایا ہے۔ پھر ان قدروں کے مطابق سماجی وسیاسی تنظیم کے لیے عقل کا استعمال کریں۔ مندرجہ بالا فرق کی بنا پر یہ بات واضح ہے کہ سیکولراِزم آفاقی نظریہ نہیں ہے۔
ہدایتِ الٰہی سے ماخوذ نظریے
اسلام میں یہ امتیاز واضح ہے۔ جو کچھ کتابِ الٰہی اور سنتِ رسول سے ثابت ہے، وہ دائمی ہے اور جن امور میں کتاب وسنت نے آزادی دی ہے، وہ غیر دائمی عنصر سے متعلق ہیں۔ ان میں حالات بدلنے کے ساتھ، کتاب وسنت کی تربیت یافتہ عقلِ انسانی اپنا کام انجام دے سکتی ہے۔ اس سرگرمی کا نام اجتہاد ہے۔ مستقل اور غیر مستقل کے درمیان یہ واضح امتیاز ، الٰہی ہدایت کی بہت بڑی دَین ہے جو اِنسانوں کو غیرضروری اختلافات سے بچا لیتی ہے۔ اس امتیاز سے عقلِ انسانی کا صحیح رول متعین ہوجاتا ہے۔ تبدیلی زندگی کا وصف ضرور ہے لیکن حیات کے بعض پہلو دائمی بھی ہیں۔ آفاقی نظریہ اِس حقیقت کا واضح ادراک رکھتاہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاسیکولراِزم ’’زمانی آفاقیت کے معیار پر پورا اترتاہے؟ کیا کوئی ’’کتاب‘‘ ایسی ہے جس پر سیکولر نظریے کے قائلین متفق ہوں اور جس کے مندرجات کو اِس نظریے کا دائمی عنصر قرار دیا جاسکتا ہو؟ ظاہر ہے کہ اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اصولاً اس نظریے میں ہر چیز متغیر ہے اس لیے کہ عقلِ انسانی کی پرواز پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ چنانچہ نظریے کے اجزائے ترکیبی میں سے کسی کو بھی دائمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اصولاً ان میں سے ہرجز میں تبدیلی کا یا اس کے یکسر مسترد کردیے جانے کا اِمکان موجود ہے۔
عملاً اس دشواری کا جو جواب سیکولراِزم کے قائلین نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مغرب کے تعامل کو سیکولر نظریے کا دائمی عنصر قرار دے لیا ہے گویااِس وقت جو کچھ مغرب میں مسلّم ہے، وہ ان کے نزدیک ہر قسم کے حالات کے لیے صحیح اور درست ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مفروضہ ہے جس کے حق میں کوئی معقول دلیل نہیں دی جاسکتی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ جبر کے ذریعے دنیا کو مجبور کیا جائے کہ مغرب کے مفروضات کو تسلیم کرلے خواہ وہ اس کی سمجھ میں نہ آتے ہوں۔ اِس وقت سیکولراِزم کے داعیوں کا طرز عمل بتاتاہے کہ وہ بہ جبر دنیا پر اپنی فکرمسلط کرناچاہتے ہیں۔
اِس بحث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زمانی آفاقیت کے اعتبار سے بھی سیکولراِزم آفاقی نظریہ نہیں ہے۔
نظریے کی جامعیت
کسی نظریے کے آفاقی قرار دیے جانے کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ نظریہ، حیاتِ انسانی کے ہر پہلو میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔ ظاہر ہے کہ اِسلام اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ اِسلام کی اس خصوصیت کا تعارف کراتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں:
’’اسلام فکر بھی ہے اور عمل بھی۔ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی۔ یہ اخلاق بھی ہے اور قانون بھی۔ یہ اللہ تعالیٰ سے اِنسان کا تعلق بھی جوڑتا ہے اور انسانوں کے ایک دوسرے سے روابط بھی درست کرتا ہے۔ یہ فرد کی اصلاح بھی ہے اور سماج کی تعمیر بھی۔ یہ تزکیہ و طہارت بھی ہے اور جدوجہد اور جہاد بھی۔ اِس میں روح کی تسکین بھی ہے اور مادی ضروریات کی تکمیل بھی۔ یہ اِنسانوں کے جذبات و احساسات اور خیالات کی بھی نگرانی کرتا ہے اور اس کے معاملات کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ اس کی روح کو خدا کے سامنے جھکاتا اور اس کے جسم کو اس کے احکام کا پابند بناتا ہے۔ یہ دین عورت کے لیے بھی ہے اور مرد کے لیے بھی۔ جوان کے لیے بھی ہے اور بوڑھے کے لیے بھی۔ حاکم کے لیے بھی ہے اور محکوم کے لیے بھی۔ امیر کے لیے بھی ہے اور غریب کے لیے بھی۔ یہ ہر ایک کے حقوق بھی بتاتا ہے اور فرائض بھی۔ یہ فرد اور معاشرہ دونوں پر خدا کی حکومت قائم کرتا ہے۔ اس کی حکومت ظاہر پر بھی ہوتی ہے اور باطن پر بھی۔ یہ فرد کو پاکیزہ زندگی اور قوموں کو عروج و ترقی عطاکرتا ہے۔ یہ خدائے قدوس کا دین ہے۔ اِس میں دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی‘‘۔ (’’اسلام اور اس کی دعوت‘‘)
اب اس کسوٹی پر سیکولرز م کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سیکولرنظریہ آخرت کا کوئی تصور نہیں رکھتا چنانچہ وہ صرف دنیا کے معاملات سے بحث کرسکتا ہے۔ اِن معاملات میں اپنے عین مزاج کے مطابق سیکولراِزم صرف اجتماعی معاملات سے تعرض کرتا ہے اور اجتماعی امور کے بھی صرف اس ظاہری پہلو پر توجہ کرتا ہے، جو مشاہدے کی گرفت میں آسکتا ہو۔ ان ساری محدودیتوں کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہے کہ سیکولر نظریے کے پاس افراد کی اصلاح وتربیت کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اِنسانی زندگی کے بہت سارے پہلو ایسے ہیں جن میں سیکولراِزم نے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کی ہے۔
اس کے برعکس یہ واقعہ ہے کہ مذہب اِنسان کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اگر مذہب کو اِنسانی زندگی سے خارج کردیا جائے تو ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس کو سیکولر نظریہ پُر نہیں کرسکتا مثلاً:
(الف) اطمینانِ قلب اِنسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ مذہب بتاتا ہے کہ اللہ کی یاد سے دِلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
(ب) اِنسان موت کے بعد کی زندگی میں نجات کا خواہاں ہے۔ مذہب اسے بشارت دیتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں اسے نجات حاصل ہوگی۔ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے لوگ زندگی بعد موت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے لیے نجات کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہر اِنسان کے دل میں موت کے بعد آنے والی زندگی کا خیال موجود ہوتا ہے اور وہ کسی طرح اِس اندیشے سے آزاد نہیں ہوسکتا کہ وہاں اسے کِن حالات سے سابقہ پیش آئے گا۔
(ج) انسان زندگی کی مشکلات میں ایسا ولی ومددگار چاہتا ہے جس کی پناہ میں آکر وہ مصائب وآلام کا مقابلہ کرسکے۔ مذہب بتاتا ہے کہ خالقِ کائنات کا سہارا حقیقی سہارا ہے۔ اس سے دعا مانگ کر اور اس کی پناہ طلب کرکے اِنسان مسائل حیات سے نبرد آزما ہونے کی طاقت فراہم کرسکتا ہے۔
(د) اِنسان کے قلب میں خیر کی طرف فطری رجحان اور شر سے بیزاری دونوں موجود ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ بہک جاتا ہے اور اپنی خواہشات کا اتباع کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ خیر کے راستے سے اس کے قدم ہٹ جاتے ہیں۔ اِس صورت حال میں انسان کسی قوی محرک کا طالب ہوتا ہے جو اس کے اندر نفس کی چالوں کے مقابلے کی قوت پیداکرسکے۔ مذہب کا عطا کردہ تصورِ آخرت اِنسان کی اِس ضرورت کو پوری کرتا ہے۔
مذکورہ بالا نکات کی بنا پر صاف اور سیدھا سوال یہ ہے کہ کیا اِنسان کو ایسا نظریہ درکار ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرے یا ایسا نظریہ جو محض بعض شعبوں سے بحث کرتا ہو؟ ظاہر ہے کہ اِنسانی فطرت جامع نظریے کا تقاضا کرتی ہے اور جزوی رہنمائی سے اس کی تشنگی پوری نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ جامعیت کے اعتبار سے بھی سیکولراِزم کو آفاقی نظریہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ جو لوگ فی الواقع حق کے متلاشی ہیں ان کو آفاقیت کی کسوٹی پر نظریات کو پرکھنا چاہیے۔ ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع آفاقی نظریہ حیات صرف اسلام ہے۔ اسی نظریے کو اپناکر انسانیت کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔