استنبول میں
یونانی لٹیروں سے ملاقات (ایک سنسنی خیز واقعہ کی سچی روداد) ڈاکٹر فاروق عبداللہ
اس واقعہ
کو بیان کرنے سے پہلے میں تھوڑا سا قسطنطنیہ یعنی استنبول کا تعارف کروا دوں ۔آبنائے
باسفورس کے جنوبی علاقے میں دو براعظموں میں واقع استنبول دنیا کا واحد شہر ہے۔ شہر
کا مغربی حصہ یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے۔۔استنبول کے حمیدیہ ہوٹل میں یہ ہماری یہ پہلی رات تھی، جو اس شہر کی تیسری پہاڑی
پر موجود ہے۔شاید کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ استنبول کو ”سات پہاڑیوں کا شہر
“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں
ہر پہاڑی کی چوٹی پرآج ایک مسجد قائم ہے ۔۔۔رومی سلطنت کے ادوار میں شہر کی قدیم چار دیواری نے ان سب پہاڑیوں کا احاطہ کیا
ہوا تھا۔۔قدیم و جدید طرز تعمیر میں اب ان پہاڑیوں کی شناخت مشکل ہے۔۔صرف اونچی
نیچی گلیاں اور روڈ نظر آتے ہیں۔۔ لاہور سے استنبول کی برا ہ راست ترکش ایئر لائن
کےگزشتہ رات اور صبح 11 بجے تک ہوٹل پہنچنے کے سفرکےباوجود طبعیت اور کیفیت پرجوش تھی۔ڈاکٹر
عبدالغنی لاہور سے میرے ہمسفر تھے۔اس تاریخی شہر میں یہ میرا پہلا دن تھا۔۔۔۔سامان
رکھتے ہی ہم نے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔۔ہوٹل سے باہر نکلتے ہی دو رویہ روڈ
تھا۔۔جس کے دوسری جانب ایک شاندار مسجد
نظر آ رہی تھی۔۔ یہ شہزادہ مسجداستنبول میں
سولہویں صدی میں عثمانیوں کی تعمیر
کردہ شاہی مسجد ہے۔ میں اس تاریخی شہر کی آب و ہوا اور ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر
رہا تھا۔۔تیز دھوپ تھی لیکن سمندری ہوا کی ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔اس لئے گرمی کا
احساس بالکل نہ تھا موسم نہایت خوشگوار محسوس ہو رہا تھا۔۔ سب سے پہلے ہم نے شہزادہ
مسجد میں ظہر کی نماز پڑھی وہاں اتنی خوبصورت تلاوت ہو رہی تھی کہ ہم مسحور ہو کر
سفر کی تکان اور تھکاوٹ بھول گئے۔۔ پھر باہر قریب ہی شہر کا میونسپل سٹی آفس تھا۔جس کے سامنے 16 جولائی 2016 کی ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے
شہداء کی تصویریں ایک بڑے فلیکس پر نمایاں کی گئی تھیں۔۔15 جولائی کو فوج کے ایک حصے
نے صدر رجب طیب اردوغان سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی تھی اور اس واقعے
میں کم از کم ڈھائی سو افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔۔میونسپل
سٹی کے قریب نیلگوں فوارے اور سرسبز و شاداب
پارک تھے جہاں صفائی کا عملہ مشینوں کے ذریعے صفائی میں مشغول تھا۔۔۔ ہم نے
یہ دن گھومتے پھرے گزارا۔۔ہوٹل کے اردگرد
کا ماحول ہمارے مال روڈ کے جیسا تھا۔بہت بارونق اور گاڑیوں اور بسوں کا رش اور چہل
قدمی اور شاپنگ میں مشغول مردوزن بڑی
تعداد میں نظر آرہے تھے۔۔۔رات کے وقت میرے ساتھی روم میٹ ڈاکٹر عبدالغنی تکان اور تھکاوٹ
کی وجہ سے سونے کی تیاری میں مشغول تھے اور میں نیند سے کوسوں دور تھا۔۔چنانچہ سوچ
رہا تھا کہ ایک بار پھر باہر نکلا جائے۔۔۔اندرون لاہور کا باسی ہونے کی وجہ سے ہم رات
کو بارہ یا ایک بجے بھی دن ہی کی طرح محسوس کرتے ہیں،چنانچہ مجھے یہاں بھی باہر نکلنے
میں کوئی تردد نہیں ہوا،،میں نے ٹراؤزر اور شرٹ پہنی اورباہر نکل کھڑا ہوا۔۔۔ہوٹل
سے باہر کسی طرح کا رش نہیں تھا۔۔۔اکا دکا لوگ نظر آ رہےتھے۔۔۔میں ادھر سے ادھر
ادھر سے ادھر چہل قدمی کرنے لگا۔۔۔اور یہ سوچ رہا تھا کہ کس طرف جاؤں۔۔ بغلی گلی
سے اچانک جینز اور شرٹ میں ایک صحت مند لیکن درمیانے قد کا ایک آدمی نمودار ہوا۔۔۔
میں نے اسے نظر انداز کیا لیکن اس نے میرے پاس سے گزرتے ہوئے انگریزی میں کچھ
پوچھا۔۔۔۔وہ کسی جگہ کے بارے ایڈریس مجھ سے دریافت کر رہاتھا۔۔۔میں نے اپنی
لاعلمی کا اظہار کیا۔۔۔بس یہاں سے اس نے بات چیت شروع کر دی۔۔۔۔آپ کا تعلق کہاں سے
ہے۔ ۔میں نے پاکستان کا بتایا تو جواب میں
اس نے اپنا تعلق یونان سے بتایا۔۔۔استنبول میں انگریزی زبان جاننے والے بہت کم لوگ
ہوتے ہیں۔اکثریت مکمل لاعلم ہوتی ہے۔ ترکش
صرف اپنی زبان میں ہی بات کر پاتے
ہیں یا پھر دوسرے درجے میں عربی سے واقف ہوتے ہیں۔۔میں پہلے ہی تنہائی سےبیزار
تھا۔۔۔رات کے اس پہر کسی اہل زبان سے
واقفیت غنیمت معلوم ہوئی اور ہم نے انگریزی میں باہمی تبادلہ خیال شروع کر دیا۔۔اس
اجنبی یونانی نے کہا کہ میں قریب میں تین
دن سے قریبی ہوٹل زیورخ میں مقیم ہوں ۔۔ بہت بو ر ہو رہا تھا سوچا کہ باہر گھوما
جائے۔۔کیا آپ میرے ساتھ گھومنا پسند کریں گے۔۔۔میں پہلے ہی اس موقع کی تلاش میں تھا۔۔میں نے ہاں کر دی۔۔۔
اس نے کہا یہاں کوئی رش یا مارکیٹ نہیں ہے۔۔۔ہمیں شہر کے مرکز میں جانا ہو گا۔۔۔۔میں
نے رضامندی ظاہر کر دی۔۔۔ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اب وہ مجھے اپنے ساتھ گفتگو
میں مشغول رکھ کر کدھر لے جا رہا ہے۔۔لا شعوری طور وہ اس وقت گائڈ کا رول اداکر
رہا تھا۔۔۔۔ہم ایک لوکل ویگن میں سوار ہوئے جس میں بالکل ہماری لاہور کی لوکل
ٹرانسپورٹ کی طرح سواریاں اتر تی چڑھتی رہیں۔۔۔اور اس نے تیزی سے فراٹے بھرنا شروع
کر دئے ۔۔۔۔راستے میں ہم تین
رویہ اتاترک برج سے سمندر پر سے گزرے۔۔۔۔رات کی روشنیوں میں پل کی گاڑیوں اور
سمندر میں چلنے والی کشتیوں کے چمکتی دمکتی روشنیوں کا امتزاج انتہائی دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔آخر کار وین
رکی اور اس یونانی نے مجھے پیسے دینے سے
منع کردیا اور کرایہ خود ادا کیا۔۔۔ہم ایک گلی میں داخل ہوئے تو وہاں کا منظر بہت پر رونق تھا۔۔کھانے پینے کے ہوٹلزاور کیفے
بنے ہوئے تھے۔۔جن کے باہر کرسیاں میزیں لگی ہوئی تھی۔۔کچھ لوگ اندر اور کچھ باہر کھاتے پیتےنظر آ رہے تھے۔۔۔کہیں کہیں تیز میوزک
کا شور تھا۔۔۔ہم ایک ہوٹل میں داخل ہوئے ۔۔اندر تیز روشنیوں میں تیز میوزک کے ساتھ کچھ نوجوان ڈانس کر رہے تھے۔۔ہم ایک
ٹیبل پر بیٹھ گئےایک بیرا آیا۔۔تو یونانی شخص نے اس سے بات کی اور مجھ سے پوچھا کہ
یہاں شراب دستیاب ہے کیا آپ لینا پسند کرو گے۔۔۔میں نے فوری منع کر دیااور اس جگہ سے باہر جانے کی
خواہش ظاہر کی تو اس یونانی نے کہا کہ اس جگہ داخلے پر پر بھی چارجز عائد ہوتے
ہیں۔۔۔میں یہ ادا کر چکا ہوں چنانچہ ہمیں کچھ نہ کچھ کھانا یا پینا پڑے گا میں نے
کہا کہ میں چائے پی لوں گا۔۔ابھی تک میں صورتحال کا مکمل اندازہ کرنے سے قاصر تھا۔۔۔یونانی نے کہا کہ ہم
اپنے اپنے پیسے خود ادا کریں گےمیں نے بخوشی رضامندی ظاہر کردی۔چائے پیش کر دی گئی
لیکن جب میں نے چائے کو دیکھا اور چکھا تو یوں معلوم ہوا کہ جیسا ذائقہ پاکستان
میں صرف پتی اور پانی سے مل کر بنتا ہے۔۔ترکش اسی کو چائے بولتے ہیں۔۔میں نے بمشکل
چائے کے گھونٹ بھرے لیکن ختم نہ کر پایا۔۔اتنے میں اس یونانی کے پاس ایک لڑکی آ کر
بیٹھ گئی اور وہ اس سے بات چیت کرنے لگا۔۔۔میں ان دونوں کو بات کرتے دیکھ رہا تھا
کہ اچانک ایک لڑکی میرے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی۔جس نے اپنا تعلق الجیریا سے بتایا۔۔اس
نے مجھ سے انگریزی میں سوالات کرنا شروع کئے آپ کہاں سے آئے ہو؟ کس مقصد کے لئے یہاں آنا ہوا؟ پاکستان میں کیا کرتے ہو؟
میں نے اس کو جواب دیا۔۔۔ اس صورتحال میں اس سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا۔ ۔۔اس پر اس
نے مجھے بے تکلفی سےکہا کہ آپ شرما کیوں
رہے ہو؟ اس وقت مجھے دل میں کچھ کھٹکا سا ہورہا تھا کہ کوئی گڑ بڑ ہے یہاں۔۔۔میں
نے یونانی سے اصرار کیا کہ میں یہاں سے باہر جا رہا ہوں۔تم نے یہاں رکنا تو رکو۔۔۔اس
نے کہا ٹھیک ہے ہم اکٹھے چلتے ہیں اور ویٹر کو بل لانے کو کہا۔۔۔جب
بل آیا تو اس پر پندرہ سو پچاس لیرا لکھا ہوا تھا۔۔میں نے پاکستانی رقم میں جب
حساب کیا تو حیران رہ گیا یہ اس وقت کے ایک لیراکے حساب سے پاکستانی پچاس ہزار کے
قریب رقم بن رہی تھی۔۔۔اس وقت میرا دماغ گھوم گیا۔۔۔میں نے یونانی کی طرف دیکھا تو
وہ کہنے لگا یہاں یہ بل ادا کرنا ہوگا میں اپنا بل ادا کرتا ہوں آپ اپنا بل ادا
کرو۔۔۔میں نے مزاحمت کی اور بل دینے سے صاف انکار کر دیا۔۔اتنے میں چار افراد نے
مجھے گھیرے میں لے لیا۔۔وہ یونانی کہنے لگا یہ دیکھو میں اپنا بل دے رہا ہوں۔۔۔آپ
بھی نکال دو ۔۔در اصل وہ اسی گروپ کا حصہ تھا جو مجھے خود ان سے تعاون پر اکسا رہا
تھا۔ صورتحال میرے بس سے باہر لگ رہی تھی۔۔۔میں نے صاف انکار کر دیااتنے میں ان
لوگوں نے میری جیبوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔۔اور کھینچا تانی میں انہوں نے میری
جیب سے پرس اور موبائل زبردستی نکال
لیا۔۔میری جیب میں اس وقت ۹۹ ہزار پاکستانی رقم کے لگ بھگ لیرا موجود تھے۔۔۔اب یہ
سب رقم ان کے قبضے میں تھی۔۔۔اور میں مکمل ان کے رحم و کرم پر تھا۔۔اور ان لوگوں
نے مجھے دھمکانا شروع کر دیا اور کہا کہ
اگر کسی کو بتایا تو نتائج اچھے نہ ہوں گے۔۔اس وقت ایک شخص نے میرے پرس کو کھول کر
کارڈز چیک کئے تو سول ڈیفنس کے پاکستانی پولیس جیسے یونیفارم میں میری تصویر والا کارڈ انہیں نظر
آیا۔۔جو کسی زمانے میں سول ڈیفنس کی ایک ٹریننگ کی وجہ سے کافی عرصے سے میرے پرس
میں پڑا ہوا تھا۔۔۔اس وقت انہوں نے آپس
میں کچھ بات چیت کی اور پندرہ سو لیرا رکھ کر بقایا رقم میرے حوالے کر دی۔۔میں موبائل پرس لے کر فوری
باہر نکلا اور باہر نکلتے ہیں میں نے ایک راہگیر سے پولیس کے بارے میں دریافت کیا
اس نے مجھے اس گلی کے سامنے کی جانب جا کر دائیں طرف مڑنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔میں
فوری طور پر اس مقام پر پہنچا تو تھوڑا آگے جا کر ایک پولیس چوکی نظر آئی۔۔اندر
ایک سپاہی موجود تھامیں نے اس سے سارا مسئلہ بتانے کی کوشش کی لیکن وہ انگریزی
زبان سے زیادہ واقف نہ تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے مجھے اس کو سمجھانے میں کافی وقت
لگا۔۔۔لیکن اس نے میری بات سن کر مجھے کہا کہ آپ سامنے جا کر دائیں طرف مڑ جاؤ
وہاں پولیس اسٹیشن ہے۔۔۔میں اس طرف مڑا تو سامنے دو افراد میری طرف بڑھتے ہوئے نظر
آئے میں نے ان سے پولیس اسٹیشن کا دریافت کیا تو انہوں نے کہا آپ بتاؤ کیا مسئلہ
ہے۔۔۔میں نے ان پر چلانا شروع کر دیا کہ تم اپنے مہمانوں کو ایسے لوٹتے ہو یہاں
۔۔۔میں غصے میں ان پر چلا رہا تھا اور وہ مجھ سے معذرت کر تے ہوئے کہ رہے تھے۔کہ آپ پولیس کو نہ بلائیں ہم آپ کا مسئلہ
حل کریں گے۔۔ اچانک ان میں سے ایک شخص نے اپنی جیب سے لیرا نکالے اور بولا کتنے
پیسے انہوں نے لئے ہیں۔۔میں نے پندرہ سو لیرا بولے۔۔۔تو اس نے آہستہ آہستہ وہ لیرا
نکال کر میرے حوالے کرنا شروع کر دئے۔۔۔پہلے دو سو پھر پھر تین سو میںچلایا مجھے رقم پوری واپس
کرو وگرنہ مجھے ہر حال میں پولیس کو بلانا ہے ۔۔آخر کار میرے پاس چودہ سو لیرا کی
رقم واپس آگئی۔۔جب سو لیرا رہ گئے تو وہ
شخص کہنے لگا اب اتنی رقم تو آپ ہمیں دے دو میں نے کہا کہ نہیں مجھے رقم پوری لینا
ہے۔۔اس شخص نے اتنے میں ایک ٹیکسی کو روکا اور مجھے کہا کہ یہ آپ کو ہوٹل چھوڑ دے
گی آپ یہاں سے واپس جائیں پولیس کو مت بلائیں میں نے کہا یہ بھی تمہارا ہی ساتھی
ہو گا۔۔۔تو اس نے کہا کہ ہم پر اعتماد کریں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔یہ ٹیکسی بیس لیرا
میں آپ کو ہوٹل پہنچا دے گی۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے اس کو بیس لیرا اداکرو میرے
سامنے۔۔اس نے بلآخر ٹیکسی والے کو مزیدبیس
لیرا کی رقم ادا کی۔۔اور میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔۔اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوتے ہی
میں نے ٹیکسی والے سے کہا کہ یہاں پولیس کو کیسے بلاتے اس نے بتایا کہ آپ ہوٹل
پہنچ کر وہاں کی انتظامیہ کے زریعے پولیس کو کال کریں یہاں سیاحوں کے تحفظ کے لئے
پولیس کا الگ شعبہ موجود ہے۔۔۔۔ہوٹل پہنچتے ہی میں نے جب انتظامیہ کو ساری صورتحال
سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو پھر وہی مسئلہ کہ کسی کو بھی انگریزی زبان سے واقفیت
نہ تھی۔۔چنانچہ گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد سے بمشکل صورتحال ان کو سمجھائی اور انہوں
نے پولیس کو کال کیا ۔۔پولیس بھی فوری وہاں پہنچ گئی میں نے پولیس سے بات کرنے کی
کوشش کی تو وہ بھی ترکش کے علاوہ بات چیت سے قاصر تھے۔۔۔میں اس صورتحال میں بہت
سٹپٹایا کہ لوگ سامنے موجود پولیس سامنے موجود لیکن میں چاہ کر بھی انہیں سمجھا
نہیں پارہا۔۔۔چنانچہ پولیس کے جوان نے ہوٹل والوں سےکہنے لگے کہ ہمارے ساتھ ترجمان نہیں ہے آپ
صبح قریبی اسٹیشن میں ہمارے پاس آ جائیں ہم متکلم کے ساتھ اس جگہ پر جائیں گے۔۔میں
نے کہا ٹھیک ہے ہوٹل والے کہنے لگے کتنی رقم لوٹی ہے۔۔میں نے بتایا لوٹی تو ساری
تھی لیکن اب بقایا 80 لیرا ہیں جو پاکستانی پچیس سو کے لگ بھگ بنتا تھا۔۔لیکن میں
چاہ رہا کہ ان لوگوں کو پولیس پکڑے جو ایسے دھوکہ دہی سے سیاحوں کو لوٹ رہے۔۔تو
ہوٹل کا مینیجر کہنے لگا آپ خوش قسمت ہیں جو بچ گئے یہاں عام طور پر ایسے کسی کو رقم واپس نہیں ملتی۔۔آپ
صدقہ سمجھ کر چھوڑ دیں۔۔۔چنانچہ میں
استنبوٖ ل میں زندگی کے پہلی رات کے اس ناقابل فراموش واقعہ کے ساتھ نیند پوری کرنےکے لئے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا۔۔اس
سارے واقعہ میں محفوظ کیسے رہا۔۔۔کیسے اتنی بڑی رقم واپس کر دی گئی۔۔۔سفر سے قبل
صدقہ دے کر نکلا تھا۔۔۔والدین کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ نے جانی و مالی نقصان سے
محفوظ رکھا۔۔حاصل کلام یہ ہے کہ سفر میں کبھی کسی پر کسی بھی صورتحال میں اعتماد
نہ کریں اورکسی بھی صورتحال میں اجنبی افراد سے بات چیت سے گریز کریں۔خاص طور پر
جس ملک یا علاقے کی زبان سے ناواقف ہوں خصوصی طور پر وہا ں بہت زیادہ محتاط رہیں۔۔جس
ملک کا بھی سفر کریں وہاں کی لوکل سم کے ساتھ پولیس اور سیکورٹی اداروں کے
نمبر وغیرہ محفوظ رکھیں۔۔سم خریدنے کے معاملے میں کسی کنجوسی کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ
کسی بھی طرح کی کی صورتحال میں یہ بہت مفید ثابت ہو تی ہے۔ایک افغانی کا سفرنامہ
پڑھا تھا جس نےکہا تھاکہ سفر میں آپ کا سب سے بڑا دشمن وہی اجنبی دوست ہوتا ہے جس
پر آپ اعتماد کرتے ہیں۔