Sunday, August 8, 2010

اسلام دور حاضر میں مغرب کےلیۓ ایک چیلنج

اسلام دور حاضر میں مغرب کےلیۓ ایک چیلنج



اگر صرف برصغیر پاک وہند کی بات کریں تو بھی یہ درست ہے وگرنہ پوری دنیا کے اندر صدیوں قائم رہنے والے نوآبادیاتی نظام نے مدتوں لوگوں کے وسائل پر قبضہ کیا، انھیں محرومیوں کی دلدل میں دھکیلا اور ان کو نسل در نسل محروم ابنِ محروم بنایا۔ اس نظام کے ہاتھوںظلم کی ایسی داستان رقم ہوئی جو آج بھی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس نوآبادیاتی دور میں مسلمانوں نے بڑی اذیتیں جھیلیں، مشکلات کے پہاڑ سر کیے‘ زندگی جن عنوانات سے جانی پہچانی جاتی ہے ان تمام حوالوں سے پوری امت ِمسلمہ نے مغرب کے ہاتھوں چرکے کھائے۔ بسا اوقات اَن گنت علاقوں میں لوگ اپنے نام سے بھی ناآشنا ہوگئے، اپنے شجرے کو بھی بھول گئے، اپنے ماضی، حال اور تاریخ سے بھی ناواقف ہوگئے اور وقت اور حالات نے جو نئے کل پرزے نکالے تھے‘ اس کے اسیر ہوکر رہ گئے۔ مغربی استعمار نے شعوری طور پر مسلمانوں کو نظریاتی اور سیاسی سطح پر بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور تہذیب وتمدن اور ثقافت اور اخلاق کے دائرے میں بھی۔ آزادی جدوجہد سے، تحرّک، سرگرمی، مقاصد اور آداب کو سامنے رکھ کر، اور ایثار و قربانی کا پیکر بن کر ملتی ہے۔ یہ آزادی اگر دنیا بھر میں مسلمانوں نے حاصل کی تو کسی نے طشت میں رکھ کر ان کو پیش نہیں کی تھی۔ یہ ان کے خون پسینے کی کمائی تھی، ان کے بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین سب کا اس میں حصہ تھا۔ آزادی کی ان تحریکوں میںکہیں کہیں قوم پرستی کی جھلک نظر آتی ہے لیکن اصلاً وہ اسلام کی مرہونِ منت تھیں، ہر جگہ مذہب مضبوط ترین حوالہ رہا اورچار دانگ عالم میں بظاہر جو گئے گزرے لوگ تھے،کردار کے حوالے سے بالکل بانجھ تھے، ان سب نے بھی اسلام کا دامن تھاما۔ فلسفہ، نظریہ اور نعرے انھیں اسلام نے دیے، پیروں کے اندر جماؤ اور قوت اسلام نے عطا کی، استقامت اور اولوالعزمی کا پیکرانھیں اسلام نے بنایا۔ لہٰذا آزادی حاصل کرنے کے بعد پھر عظمت ِرفتہ کی بحالی کے خواب نے انگڑائی لینا شروع کی۔ جگہ جگہ اسلامی تحریکیں منظم ہوئیں‘ رجوع الی اللہ کی تحریکیں، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف لانے کی تحریکیں، خواب ِغفلت سے نکال کر فی الاصل کچھ کرنے اورکر گزرنے کی تحریکیں۔ بیداری کی ان تحریکوں کے نتیجے میں لوگوں کے اندر شعور بیدار ہوا۔ دنیا نے ہر خطے کے مسلمانوں کو اپنے رب کے ساتھ جڑتے، آقائے دوجہاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرتے‘ ان کے دامن میں پناہ لیتے، ان کی سنتوں کو اپناتے، ان کی شریعت ِمطہرہ کو لے کر اٹھتے اور جو جدوجہد اور کشمکش آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں اس کا خوگر بنتے اور اس کلچر کو پروان چڑھتے دیکھا۔ مغربی استعمار نے جب اس بات کو محسوس کیا کہ آزادی ملنے کے بعد مسلمان اسلام کی طرف پلٹ رہے ہیں، ماضی کی طرف لوٹ رہے ہیں، خدا اور رسول سے تعلق جوڑ رہے ہیں اور اپنے باہمی رشتوں کو دوبارہ استوار کررہے ہیں، تو اس نے الزامات کی یورش کی، مخالفانہ پروپیگنڈے کے طوفان اٹھائے اور اسلام کی ایک ایسی تصویرکشی کی کہ لوگ اس سے برگشتہ ہوجائیں۔ کہیں ملی ٹینٹ Militant))، جنگجو اسلام کی بات ہونے لگی، کہیں جنونی(Fanatic) اورکہیں جبرو تشدد کے خوگر اور تلوار اور طاقت کے بل پر پھیلنے والے اسلام کی باتیں کی جانے لگیں، بنیاد پرست (Fundamentalist)، شدت پسند اورانتہاپسندExtremist)) اسلام کی بات کی گئی۔ دہشت گرد (Terrorist)، متشدد (Violent)، اور غیر منطقیIrrational)) اسلام کی پھبتی کسی گئی۔ استعمار نے میڈیا میں غلط پروپیگنڈے اور اسلامی دنیا میں اپنے کٹھ پتلی حکمرانوںکے ذریعے اسلامی تحریکوں کی پیش رفت اور عوام کے اندر ان کے اثر و نفوذ کو ختم کر نے کی کوششیں کیں۔ جبر سے روکنے کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ احیاء(Revivalism) کی تحریکوں پر جا بجا Radicalism کا عنصر چھانے لگا۔ آج کل عام طور پر ہم یہاں سے بات شروع کرتے ہیں کہ اس وقت اسلام کوکون سا چیلنج درپیش ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خود اسلام وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے جو دنیاکے سیکولرازم کو درپیش ہے۔ سیکولرازم یورپ و امریکا کا ہو یا روس کا، سیکولرازم خواہ لیفٹ کا ہو یا رائٹ کا، سیکولرازم خواہ مسلم بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کا ہو یا مسلم جمہوری حکمرانوں کا، یہ سارے ازم اسلام کو اپنے لیے خطرہ اور چیلنج سمجھتے ہیں۔ احیائے اسلام کی تحریکوں کی لو اور ’لے‘ کو دبانے، اور انھیںنشانات ِراہ اور منزل سے دور لے جانے کے لیے ساری مسلم حکومتیں اور پورا یورپ و امریکا اور روس کوشاں ہیں، اور چاہتے ہیں کہ جہاں ممکن ہو سازشوں سے بیداری کی ان تحریکوں کو ناکام بنادیا جائے، اور کہیں عسکری قوت یا کسی اور دباؤسے یہ کام ہوجائے۔ اسلام اور اس کی دعوت کا ایک سفر ہے جو نوآبادیاتی دور سے شروع ہوا ہے، چلا ہے اور یہاں تک پہنچا ہے۔ غلامی کے دور میں اس دعوت کی راہ مسدود اور منبرو محراب تک محدود کردی گئی تھی۔ اس کی آواز گنبد و مینار میں قید اور پسِ دیوار زنداں دھکیل دی گئی تھی۔ اصل اسلام کو تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم کرنے کی کوشش کی گئی، چند مراسمِ عبودیت، چند اخلاقی فضائل، چند اوراد و وظائف ہی اس کی کل جمع پونجی قرار پائی تھی۔ اگرچہ یہ بھی اسلام ہی کا حصہ ہےں لیکن انہی کو اول وآخر جانا گیا تھا۔ اسلام کی یہ دعوت صدیوں کی غلامی کے نتیجے میں بظاہر عجز و درماندگی کی تصویر بن گئی تھی۔ بے کسی و بے چارگی اسلام کی تقدیر قرار پائی تھی۔ غربت ویاس اور تقسیم درتقسیم سے دوچار اسلام، اجنبی اور غریب الغربا اسلام، پرائیویٹ لائف کا الگ اور پبلک لائف کا جدا اسلام، جو دے اس کا بھی بھلا‘ جو نہ دے اس کا بھی، وہ اسلام! لیکن وقت بدلا ہے، حالات بدلے ہیں اور دور تک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ شہداءاور غازیوں کے قافلے نکلے ہیں، مجاہدوں اور صف شکنوں کے طوفان اٹھے ہیں، لوگ ایثار و قربانی کا پیکر بنے ہیں۔ چاروں طرف کے حالات میں مزاحمت کے کلچر نے فروغ پایا ہے، جدوجہد اپنے نتائج لارہی ہے اور اسلام اب خود ایک چیلنج بن گیا ہے۔ آج پولیٹیکل اسلام کی باتیں ہورہی ہیں اور اسے عالمی استعمار کا مدمقابل قرار دیا جارہا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا اور اس کے حواری بھی بظاہر اسلام کی بات کرتے ہیں، وائٹ ہاؤس کے اندر ہر سال افطاری کا اہتمام ہوتا ہے اور امریکا کے اندر تمام مسلم تنظیموں کو مدعو کیا جاتا ہے، عیدملن کا اہتمام ہوتا ہے، یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی وہاں آزادی ہے کہ آپ جس چرچ کو چاہیں اسلامک سینٹراور جس گرجا گھر کو چاہیں خرید کر مسجد بنالیں، لیکن پولیٹیکل اور سیاسی اسلام ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ اسے انتہاپسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد اسلام کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ اسلام بیچ چوراہے پہ آکے کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ رب کی طرف لوٹنے کی صدا لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اہلِ ایمان پورے کے پورے اسلام کے اندر داخل ہوجاؤ، انفرادی و اجتماعی دائرے میں بندگی رب کا حق ادا کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو۔

No comments:

Post a Comment