کیا یہ ہماری جنگ ہے؟
آج ہم جنگ کی حالت میں ہیں اور ہماری فوج اور ائر فورس ان عناصر کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں جنہیں امریکا اور بھارت کی سازش کے تحت پاکستان کے علاقوں میں داخل کیا گیاہے اپنے ہی علاقے میں ہم دشمن کے پیدہ کردہ عناصر کے ساتھ حالت جنگ میں ہیںجب یہ ہماری جنگ بن چکی ہے تو اس کی ترجیحات بھی الگ ہونی چاہئیں اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے طریقہ کار بھی بدلنا ضروری ہے یعنی بیرونی عناصر کی سرکوبی اور اپنوں سے مذاکرات کریں اور ان مذاکرات میں ان علاقوں کے منتخب نمائندے شامل کریںتاکہ بغیر جنگ کئے دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کر سکیں یہ پورا علاقہ پس ماندہ اور محرومیت کا شکار ہے، یہاں پر مضبوط منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی کام کرنے کی ضرورت ہے اس سال کے آخر تک جب امریکا میں حکومت تبدیل ہو گی تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوں گیاگر نئی امریکی حکومت کو حالات کا صحیح ادراک ہے تو ان کے لیئے بہتر ہوگا کہ وہ اور ان کے اتحادی افغانستان سے نکل جائیںاور یہ بھارت کی بدبختی ہوگی کہ وہ افغانستان میں ذمہ داریاں سنبھال لے شاید اسی کام کیلئے وہ اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان بھیج رہا ہےپھر وہ دیکھنے والا منظرہوگاکہ افغانی اورہمارے قبائیلی بھارت کاکیا حشر کرتے ہیںا سے بھاگنے کا رستہ بھی نہیں ملے گا چین اورروس بالواسطہ طورپر پہلے ہی اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں جہادی بھی اس جنگ میں شدت کے ساتھ شریک ہیں روس کیلئے افغانستان میں امریکا سے اپنی شکست کا انتقام لینے کیلئے یہ بہترین موقع ہے روس کے تعاون سے چیچنیا ، کرغزستان ، قازقستان اور ازبکستان کے جہادی بھی بڑی تعداد میں افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے وقتوں میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کیلئے افغانستان میں استقبال کی زبردست تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اس حقیقت کو اگر ہم نگاہ میں رکھیں توپاکستانی قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اللہ نے ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ایک بہت مضبوط فصیل کھڑی کر دی ہے اور تاریخ ایک نیا رخ لینے والی ہے ہمیں امریکا کے ساتھ اور خصوصابھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی ترجیحات کی بنیاد پر قائم کرنا پڑے گا اور ہماری پوری توجہ مسئلہ کشمیر کے منطقی انجام کی طرف ہونی چاہئیے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملے کیونکہ اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو چکا ہے جس طرح کہ اسرائیل کی شکست کے بعد فلسطین کا فیصلہ ناگزیر ہو چکا ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونی ہے امریکا اور یورپ کے دانشور بھی اب مشورہ دے رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان سے نکل جاﺅ، ایران کے ساتھ دوستی کر لو، ایران ایٹمی صلاحیت والی طاقت بنتا ہے تو اسے بننے دو ان دانشوروں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی وہ اہمیت باقی نہیں رہیبلکہ بھارت ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن جس طرح بھارت ان سازشوں کا حصہ بن کر افغانستان میں داخل ہو چکا ہے اس کے نتیجے میں ہم بھی وہ منظر دیکھیں گے کہ کل بھارت کا وہاں کیا حشر بنے گاکیونکہ اس کا مقابلہ دنیا کی تیسری بڑی قوت سے ہو گاجو عالم اسلام کی ناقابل شکست مدافعتی قوت ہے یہ مدافعتی قوت کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے، یہ ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے، ایک خداوندی قوت ہے کہ جس کے ہاتھوں عالمی نظام کے خدوخال مرتب ہو رہے ہیںاور جن سے ٹکرا کر دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اور ان کے اتحادیوں کا غرور خا ک میں مل چکا ہے پھر بھی اس طاقت کو مغربی دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ ہر قدم پر اسی طاقت کے ہاتھوں شکست در شکست کھا رہی ہے جنہیں دہشت گرد کہہ کر خودفریبی میں مبتلا ہیں یہ تیسری طاقت ایک حقیقت ہے، ایک معجزہ ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے جس نے سمجھ لیا وہ کامیاب ہوگا جس نے نہ سمجھا وہ ہار جائے گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہماری سرحدوں پر اتنی مضبوط حفاظتی دیوار مہیا کر دی ہے جسے توڑنے کی دنیا کی کسی طاقت کے پاس صلاحیت نہیں ہےپھر کیا ڈر ہے افغانستان کو، کیا خوف ہے پاکستان کو، اللہ کے سپاہی ہمارے محافظ ہیں اللہ کی یہی رضاہے کہ ساری دنیا میں طاقت کا توازن قائم رہے ورنہ طاقتور قومیں نہ جانے کب کی کمزور اور غریب قوموں کو ہڑپ کرچکی ہوتیں امریکا کا ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا خواب ٹوٹ چکا ہے ، اور کن کے ہاتھوں ؟وہی ،جوننگے بھوکے اور سوکھی روٹی کھانے والے ہیں، جن کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل ہے اور ہاتھوں میں ہلکے ہتھیارہیں لیکن پھر بھی سامراجی طاقتیں انہیں دہشت گرد کہتی ہیںاور اب انہیں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنا چاہتی ہیں اور افغانستان کے حکمران بھی ملا عمر سے مدد کے طلبگار ہیں پاکستانی قوم کو خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، ملک دشمنوں سے محفوظ ہے لیکن اصل خطرہ خود اپنوں سے ہے جو سیاسی مصلحتوں کے تحت کاسہ لیسی اختیار کئے ہوئے ہیں اللہ انہیں ہدایت دےآمین!
No comments:
Post a Comment