امریکا ٹوٹ جاۓ گا؟
آج سے چارسال قبل یمن کے وزیراعظم عبدالقادرحمّال نے بہت حسرت سے کہاتھا ”کاش امریکا دنیا کے نقشے سے مٹ جائے !“اس آرزومیں کتنی گہرائی پوشیدہ ہے اوریہ بات صرف عبدالقادرحمّال ہی نہیں بلکہ اس وقت دنیا بھرکے چھ ارب سے زائد انسانوں کی اکثریت کی زبان پریہی ہے کہ ”کاش امریکا دنیا کے نقشے سے مٹ جائے !“ یہ امریکا ہی ہے جس کے باعث آج دنیا زخموں سے چورچورہے۔ یہ امریکا ہی ہے جس کے باعث انسانیت کا لاشہ آج چوراہے پربے گوروکفن پڑاہے۔ اوریہ امریکا ہی ہے جس نے دنیابھرکے کروڑوں انسانوں کو محض اپنی اناکی تسکین کے لیے صفحہ ہستی سے مٹایاہے۔ اگرآج دنیا کے نقشے پرامریکا کا وجود نہ ہوتا تو کروڑہا انسان فلسطین‘جاپان‘ ویت نام‘ افغانستان‘ عراق اور پاکستان میں اپنی ٹانگوں اورہاتھوں سے محروم رہ کر زندگی نہ گزاررہے ہوتے امریکا کی فطرت ہی میں بدمعاشی اورتھانیداری گھسی ہوئی ہے اس لیے اسے یہ پرامن دنیا‘ یہ معصوم‘ پھول جیسے بچے اوریہ کمزوروناتواں سی عورتیں ہرگزاپیل نہیں کرتیں۔ اس کی فطرت ہے کہ دنیا صرف تخت وتاراج رہے اور اقوام عالم اس کے اشارہ ابروپرحرکت کریں۔ یہ ہراس ملک میں مداخلت کرتاہے جو پرامن ہوں اورمعاملات خودسلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بے حیثیت کارندے بھی آزادسرزمینوں کو اجرائے احکام کے لیے اپنے ناپاک قدموں سے روندتے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ امریکا ہے جو ہرملک میں اپنے ایجنٹوں کو مقررکرتاہے اور اگرکوئی حکمران اس کی منشاءکے مطابق کام کرنے سے انکار کردے تو پر اسرار طریقے سے یاتو اسے قتل کروادیتاہے یافضاءمیں اس کے طیارے کو اس سمیت آگ اورشعلوں کی نذر کردیتاہے۔ اسی کانام اس نے ”نیو ورلڈ آرڈر“ رکھاہے جس کا مطلب معروف دانشور یہودی نوم چومنسکی کے مطابق یہ ہے کہ ”ہوگا وہی جو ہم چاہیں گے“۔ ”نیو ورلڈآرڈر“ کی اس سے زیادہ خوبصورت تعریف اورکوئی ممکن ہی نہیں ہے۔ یعنی ”ہوگاوہی جو ہم چاہیں گے“اقوام متحدہ کا ادارہ جسے دنیا میں دوبڑی جنگوں کے بعد اس تمناسے قائم کیاگیا تھا کہ اس کے ذریعے سے دنیامیں امن ومحبت کا راج ہوگا۔ وہ بھی آج امریکا کی چودھراہٹ کے باعث محض کٹھ پتلی بناہواہے۔ اقوام متحدہ کا دوسرا نام آج”ریاست ہائے متحدہ امریکا“ کے سوا کچھ اوربھی نہیں ہے۔ اس خطہ ارض پروہ کون سا ملک ہے جس میں اس نے اپنے ہزاروں فوجی اوربمبارطیارے نہ اتارے ہوں‘ اورپھربھی وہ وہاں سے کامیاب وفتح مندلوٹ آیاہو؟۔ ویت نام ‘ ایران‘ افغانستان‘ عراق‘ ہرجگہ ذلت ورسوائی اس کا مقدررہی ہے۔ عالمی تھانیداری اس کی فطرت بنی ہوئی ہے اس کے تحت نہ ماضی کے صدر وڈروولسن اورٹرومین اورنہ جدید دورکے نکسن‘ بش اوربارک اوباما کی منصوبہ بندی میں کوئی تغیرواقع ہواہے۔ امریکی حکومتیں اپنی فطرت کے باعث بالآخراپنی قوم کوبھی تباہی کے اندھے غاروں میں دھکیلنے جارہی ہیں۔اگریہ سوال کیاجائے کہ دنیا کا وہ واحد ملک کون ساہے جس کی عمارتوں‘تنصیبات اورعام افراد پردنیاکے ہرخطے‘ انڈونیشیا‘ چلّی‘ لیبیا‘ سعودی عرب مصر‘پاکستان اور افریقی ممالک وغیرہ میں خطرناک ترین حملے تابڑتوڑکیے جاتے ہوں‘ تو جواب آئے گا امریکا‘ اگریہ سوال کیاجائے کہ کون سا ملک ایساہے جو ہرجگہ ذلت ورسوائی کے ساتھ بھاری جانی ومالی نقصان کے بعدشرمندگی سے واپس لوٹتاہے تو جواب آئے گا امریکا۔ اور اگریہ سوال کیاجائے کہ وہ کون سا ملک ہے جس کی حکومتیں ہرآئے دن اپنے شہریوں کو دنیا کے ہرخطے میں محتاط رہنے اور زیادہ نقل وحرکت نہ کرنے کی باربارہدایات جاری کرتی رہتی ہیں تو اس کا جواب بھی وہی ایک آئے گاکہ امریکا۔ امریکا سے اس وسیع وعالمگیرنفرت‘ دنیاکی قوموں میں امریکا سے آزادی حاصل کرنے کا ولولہ ‘صہیونی قوتوںکی امریکا کے خلاف درپردہ گہری سازشیں‘ امریکا کا بدترین اخلاقی زوال‘ ہرملک میں اس کی جنگ کرنے کی حرص‘ قومی معیشت کی اس بھیانک بربادی اورمذہب اوراصول وضوابط سے اس کی حددرجہ بیزاری بالآخرایک دن امریکا کو لے کے ڈوب جائے گی۔ امریکا کی بربادی کے دن اب قریب آگئے ہیں۔ دس پندرہ سال کے بعد ہماری نوجوان نسل کو پھروہ امریکا نظرنہیں آئے گا جو آج تھانیدارہے‘ سامراج ہے‘ عالمی دہشت گردہے‘ اورجودنیا کے ہرخطے میں اپنی پٹھو حکومتیں بناکے رکھتاہے۔ پندرہ سال کے بعد امریکا ان شاءاللہ ایک کمزورٹوٹا پھوٹا اور غربت کا مارا ہوا ملک نظرآئے گا۔ ابھی تین چارسال مزید گزریں گے کہ دنیا کے لوگوں کو مارکیٹ میں امریکا کے بھی کٹے پھٹے نقشے فروخت ہوتے ہوئے اسی طرح نظرآئیں گے جیسے آج امریکا دنیا بھرکو پاکستان کے کٹے پھٹے نقشے دکھاتا پھررہاہے۔ ”گوامریکاگو“ کا نعرہ اب حقیقت بنتا ہوا نظرآرہاہے۔ امریکا کی شکست ور یخت اب دیوارپرلکھی ہوئی نظرآرہی ہے۔ ہم یہ کوئی جذباتی گفتگو نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ صدائیں اب امریکی ومغربی صحافی واسکالر خود بلندکررہے ہیں۔ پال کینیڈی‘نوم چومنسکی‘ڈیوڈ ہلکرز‘سیموئل ہمگنٹن‘جے بکارنن اور فرید ذکریا۔ (ایڈیٹر نیوز ویک لندن) کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہے ۔ امریکا کی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح نظرآرہی ہے کہ امریکا نہ تو مندرجہ بالااسکالروں کی آوازوں کوخاطرمیں لائے گا‘ نہ اپنے خلاف عالمی نفرتوں سے کوئی سبق سیکھے گا اور نہ اپنی حددرجہ زوال پذیرمعیشت سے کوئی نصیحت حاصل کرے گا وہ تو بس تباہی کے راستے پر اندھا دھند بھاگتا چلاجارہاہے۔ اگر کل بھارت‘ روس اوربرطانیہ ٹوٹ سکتے تھے تو آج سپر عالمی طاقت امریکا کیوں نہیں ٹوٹ سکتا۔؟
No comments:
Post a Comment