Wednesday, September 29, 2010

Muslim Youth Motivation

Muslim Youth Motivation

A silent massage to the Muslim youth of all over the world......




OH ALLAH!!! GUIDE MY HEART...




Oh Allah Forgive Me............
May Allah forgive us for our sins and shortcomings and give us all the ability to obey Him and His Messenger ( محمد صل اللہ علیہ وسلم). Ameen

Saturday, September 11, 2010

Reality of 9/11 incident

Reality of 9/11 incident

9/11 Proof Of Used Laser Weapons Part 1


9/11 Proof Of Used Laser Weapons Part 2


9/11 Proof Of Used Laser Weapons Part 3

911stealth - WTC Pentagon Removing Evidence and Witnesses


9/11 Mystery Plane ?? CNN Coverage


9/11: Total Proof That Bombs Were Planted In The Buildings!


9/11 - Strange things in the sky on 911


9/11 Proof Of Planted Explosive Charges Conspiracy



9/11 Scientist Proves The Molten Metal With The Thermal

9/11 Con Of Bombs Inside The Building

9/11 JACK KELLEY FBI BOMBS
DISCOVERED

Bombs Sound 9/11

Proof Explosives Witness Reports 9/11 U can Hear the BOMBS!

Collapse Inside the World Trade Center!

Helicopter World Trade Center UFO Film Is this real?

Unusual activities at the world trade center before 911...


The 911 Solution the Big Clue Everybody Missed.

Pentagon was not hit by an airplane: PROOF!


Plane hitting Pentagon... NOT!


No Windows on Flight 175

Was Extra Equipment Attached To Flight 175?
(The plane that struck the south Twin Tower on 9/11)

No bodies, just body parts, NBC, 08:49, 9/13

It was a Military Plane!

wtc 9/11 conspiracy clearly see a missle being fired at wtc

What really hit on 9/11

American face of liberty and freedom in iraq

Crimes of US soldiers in IRaq




Another despicable US crime in Iraq banned on tape.



War Crimes Caught on Video


USA War Crimes in Iraq !!!

American War Crimes in Iraq 2003 Laser Weapons kill bus full of civilians


STOP  NOW War Crimes...




American soldiers killing innocent civilians in coold-blood! That is american justice


Collateral Murder in Baghdad Wikileaks WARNING: Graphic Footage










American Soldiers: Kill First, Laugh Later.


US soldier kills wounded Iraqi


american killing people in iraq


Killing of IRAQi soldier


American Soldiers killing Iraqis



Thursday, September 9, 2010

Currupt Pakistani media enjoying with black water

Currupt Pakistani media enjoying with black water....

 



Zia-u-lhaq's warning - Still Relevant?

 

 

  

(تہذیب یافتہ  کون ؟ اجڈ اور وحشی کون؟فیصلہ آپ کریں!)
 ایوان ریڈلی سے ڈاکٹر عافیہ تک

یہ بات تو اٹل ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دسمبر 2001 ءمیں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن جاتے جاتے بھی طالبان عورتوں کے لیے، اپنے ہمدردرانہ عمل کی ایک ایسی روشن مثال چھوڑ گئے جو اہل مغرب کے لیے نا قابل انکار حقیقت بن گئی۔ جن انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور حق تلفی کے حوالے سے طالبان مورد الزام ٹھہرائے جاتے رہے ہیں ان میں سب سے اہم اور نمایاں ” حقوق نسواں“ ہیں۔ طالبان کے منظر پر آنے سے لے کر ان کے پس منظر میں جانے تک مغربی ممالک اور ان کے ترجمان ذرائع ابلاغ پوری شدت، تسلسل اور مبالغے کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ طالبان نے عورتوں پر ظلم و ستم کیا ہے۔ 8اکتوبر 1996 ءکو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکی حکومت نے طالبان کو متنبہ کیا کہ اگر عورتوں کے بارے میں ان کی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو افغانستان کی نہ صرف امداد روک لی جائے گی بلکہ ان کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اپنی ایک قرار داد میں طالبان کو متنبہ کیا کہ وہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے باز رہیں۔ 8 مارچ 1998 ءکو مغربی دنیا میں ”یوم خواتین“منایا گیا تو اس موقع پر افغان خواتین کو طالبان کے ”مظالم“ کا شکار قرار دے کر ان سے خصوصی ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ اس اقدام کے پس پردہ مبینہ طور پر افغانستان میں کام کرنے والے غیر ملکی اداروں اور مغربی ممالک کی سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ کار فرما تھا، جو دنیا بھر کے عوام کے سامنے یہ امر باور کروانا چاہتے ہیں کہ طالبان نے عورتوں کے ساتھ نا انصانی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ 4 مارچ اور 29 اپریل 1999 ءکو امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن نے طالبان پر تنقید کی کہ وہ عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے بھی جون 2000 ءمیں اقوام متحدہ میں ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان پر نکتہ چینی کی۔
قارئین کرام!موجودہ جنگ اصل میں دو تہذیبوں، دو نظاموں اور
دو نظریات کے درمیان جنگ ہے۔ یہ جنگ دو ملکوں، دو سلطنتوں اور دو قوموں کی جنگ نہیں بلکہ دو ایسی تہذیبوں کی جنگ ہے جو اپنے آپ کواخلاقیات میں مہذب گردانتی ہیں۔ اب ہم یہاں دونوں تہذیبوں اور نظاموں کا تقابلی جائزہ لیں گے اور دیکھے گے کہ کون اپنی تہذیب اور نظام میں وسیع الظرف، عالی حوصلہ اور بلند کردار کا مالک ثابت ہوتا ہے۔ یہاں دو ”خواتین“ کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اپنے اپنے دشمن کی قید میں تھیں ایک وہ جو اجڈ، گنوار، وحشی، اخلاقیات سے کوسوں دور، غیر مہذب ترین گروہ کے ہاتھوں میں جلال آباد سے گرفتار ہوئی اور بالآخر ان غیر مہذب ترین کے اخلاق، عالی حوصلہ اور بلند کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مذہب پر لے آتی ہے اور پھر ان کے اخلاق کا ڈنگا چاروں عالم میں بجاتی ہے اور دوسری وہ خاتون جس کو اسلامی ملک کی سر زمین سے اغواءکر کے دنیا کی مہذب ترین قوم کے حوالے کیا گیا اس خاتون پر جو بیت رہی ہے وہ کسی سے چھپی ڈھکی بات ہیں۔ جی ہاں! میرا اشارہ برطانیہ کی صحافی ایون ریڈلی( جو اب مریم بن چکی ہیں) اور دوسری ڈاکٹر عافیہ ہیں جو امریکہ کی جیل میں ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ ان دونوں عورتوں کی کہانی اور کردار میں ”آنکھوں والوں“ کے لیے ہدایت کا سر چشمہ موجود ہے۔
”ایون ریڈلی“ ایک برطانیہ صحافی خاتون تھی جو 28 ستمبر 2001
ءمیں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر حملے کے امکانات بڑھنے کے بعد، افغانستان کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر افغانستان میں داخل ہوئی۔ اپنے داخلے کے تھوڑی دیر بعد ہی طالبان نے اس خاتون کو جلال آباد میں حراست میں لے لیا۔ پھر یہ خاتون 10 دن تک طالبان کی تحویل میں رہی۔ اس دوران اس خاتون نے اپنے ساتھ پیش آنے والے طالبان کے حسن سلوک کی جو روداد بیان کی، اس میں چند اقتباس قارئین کے لیے.... ایون ریڈلی اپنے ایام حراست کی کہانے سناتے ہوئے کہتی ہیں:” ایک وقت ایسا بھی آیا جب کابل کی جیل میں قید کے دوران میری قوت برداشت اس حد تک جواب دے گئی کہ میں اپنے قید کرنے والوں کے منہ پر تھوکا اور ان کو گالیاں دیں۔ مجھے اس کے بدلے میں ان سے بد ترین جواب کی امید تھی لیکن ان لوگوں نے میری اشتعال دلانے والے رویے کے باجود مجھے بتایا کہ ” میں ان کی بہن اور مہمان ہوں“۔
ریڈلی دوسرا منظر یوں بتاتی ہیں
:
”خوب
، بہت خوب! میں تو چاہتی ہوں کہ میں ہر ایک کو بتاں کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری امی کو علم ہو جائے، میرا کمرہ ائیر کنڈیشنڈ ہے اور کمرے سے ملحق باتھ میں فلش بھی لگا ہوا ہے۔مجھے ایک ریڈیو دیا گیا تاکہ میں BBC سروس سن سکوں، مجھ سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ مجھے کسی اور چیز کی تو ضرورت نہیں؟ حمید (طالبان ترجمان) کہتا ہے کہ ہر ایک کو یہی فکر ہے کہ میں کھانا نہیں لیتی اور ہو پوچھتا ہے کہ آیا خوراک میری پسند کی نہیں، کیا میں کوئی خاص کھانا لینا چاہتی ہوں یا میرے لیے ہوٹل کے کھانے کا بندوبست کیا جائے؟ وہ بار بار مجھے اپنا مہمان بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میں مغموم ہوں تو وہ بھی غم زدہ ہو جاتے ہیں، میں اس پر یقین نہیں کر سکتی۔ یہ طالبان مجھے مہربانی کے ساتھ مارنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ کئی اعتبار سے نرم خو، خوش خصال، شریف، مہربان اور دوسروں کا خیال رکھنے والے، ہاں جب وہ لڑنے پر آتے ہیں تو وہ دنیا کے خوفناک ترین جنگجو ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرے گھر میں کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ مجھ سے کیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ میں شرط لگاتی ہوں کہ لوگ تو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے اذیت دی جا رہی ہو گی، مارا پیٹا جا رہا ہو گا اور وہ میری عزت سے کھیل رہے ہوں گے۔ مگر.... مگر....؟
طالبان کے حسن سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے ریڈلی کہتی ہے۔
”وہ
سب بڑے مہربان محسوس ہوتے ہیں۔ وہ بڑے فراخ دل ہیں مگر یہ بات بھی بڑی تیزی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے جنگ کرنے کو تیار ہیں“۔ ایون ریڈلی ابھی طالبان کی قید میں تھی کہ افغانستان پر امریکی اور اتحادی افواج کا حملہ شروع ہو گیا، طالبان چاہتے تو اس حملے کی سزا ایون ریڈلی کو دے سکتے تھے۔ جیسا شمالی اتحاد کے سپاہی کرتے تھے جب ان کو کسی محاذ پر طالبان سے شکست ہوتی تو وہ اپنا غصہ بے چارے، مجبور و بے کس طالبان قیدیوں پر نکالتے تھے۔ طالبان نے اس موقع پر برطانوی صحافی خاتون کو رہا کر ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ اپنی رہائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہے:
”آخر کار وہ وقت بھی
آگیا جب طالبان نے مجھے رہائی کی نوید سنائی۔ انہوں نے مجھے چوڑے افغان روایتی تکیے پر بیٹھنے کو کہا اور پھر قید خانے کے نگران نے مجھے خوبصورت دبیز مخمل کا لباس دیا اور کہا یہ روایتی افغان لباس ہے باہر نکلنے سے قبل اسے پہن لو اور وہ خود سارے کمرے سے باہر نکل گئے تا کہ میں لباس تبدیل کر لوں.... آخر کار جب میں طور خم بارڈر پر پہنچی اور میں نے افغانستان سے باہر پاکستان میں قدم رکھا ہی تھا کہ میرا چہرہ ٹیلی ویژن کیمروں کی روشنیوں سے چمکنے لگا۔ میں وقتی طور پر چکرا سی گئی، مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک آواز آئی ” طالبان نے آپ سے کیا سلوک کیا؟“ گزرے ہوئے دس دنوں کی تمام یادیں اور ذہنی کرب سب میرے لوح ذہن پر نمودار ہونے لگے۔ میں نے جواب میں کہا ” شائستگی اور احترام کا سلوک“ میں سوچتی ہوں کہ ان کے اندر ہمارے خلاف کوئی کینہ معلوم نہیں ہو رہا۔ نا معلوم ان پر بمباری کیوں کی گئی؟
ایون ریڈلی نے چونکہ اپنی قید کے دوران طالبان سے وعدہ کیا
تھا کہ وہ اسلام کا مطالعہ ضرور کرے گی۔ چنانچہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 30 جوان 2003 ءکو اس نے اپنے اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔ ایک انٹرویو میں ریڈلی سے پوچھا گیا کہ گوانتا ناموبے کے ایکسرے کیمپ اور کابل کے قید خانے کا موازنہ آپ کس طرح کرتی ہیں، تو اس نے کہا:
”میں لوگوں کو بتاتی رہتی ہوں کہ میں اس حوالے سے بہت خوش قسمت
واقع ہوئی ہوں کہ مجھے امریکہ کی بجائے ”روئے زمین کے سب سے زیادہ برے اور وحشی لوگوں“ کی قید میں رہنے کا موقع ملا۔ مجھے مسلسل چھ دن تک ایک ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا جس کی چابی تک مجھے دے دی گئی۔ میرے ساتھ ہمدردی اور احترام کا سلوک کیا گیا۔ مجھے ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے، کسی قسم کی تعذیب دینے یا حملہ کرنے کی کوشش نہیں ہوئی، گو کہ کچھ سوال جواب ضرور ہوئے۔ وہ مجھے مسلسل یہ بتا تے رہے کہ وہ مجھے خوش رکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ میں ان کی بہن اور مہمان ہوں“۔
طالبان کی قیدی اس
برطانوی خاتون کی باتوں کا موازنہ جب ہم ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ہونے والے مظالم سے کرتے ہیں تو ہمیں حقائق بہت آشکار نظر آتے ہیں۔ ”بگرام ائیر بیس میں اور پھر امریکی جیل میں امت کی اس مظلوم بیٹی پر کون سا ظلم ہے جو روا نہ رکھا گیا، ذہنی و جسمانی تشدد کی ایسی بد ترین مثالیں قائم کی گئیں کہ کائنات کے ظالم و جابر بھی تھرا جائیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی تکلیف و دکھ اور درد کا معمولی سا اندازہ اس وقت ہوا جب اس نے پاکستانی وفد کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی بپتا سناتے ہوئے کہا کہ ”نیو یارک جیل میں چھ نقاب پوش آئے اور میرے ہاتھ پشت سے باندھ دئیے۔ پھر مجھے برہنہ کر کے میری ویڈیو بنائی اور مجھے وہیل چیئر پر واپس میرے سیل میں لے جایا گیا۔ ایک خاتون نے مجھ پر کمبل ڈالا اور ان نقاب پوشوں سے درخواست کی کہ مجھ سے غیر انسانی سلوک نہ کریں اور یہ میرے ساتھ ایک مرتبہ نہیں ہوا۔ سکیورٹی چیک کے نام پر مجھے کئی مرتبہ برہنہ کیا گیا۔ بہن عافیہ نے یہ بھی بتایا کہ بگرام ائیر بیس پر جن لوگوں نے تفتیش کی ان میں ایک بھارتی بھی تھا اور افغانستان میں مجھ سے تحقیقات کرنے والے انگریزی و ہندی بولتے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ کو جب پہلی مرتبہ امریکی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس کی حالت انتہائی بری تھی۔ زخم رس رہے تھے جن میں پیپ بھری ہوئی تھی اور اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا“۔
یہ صرف ڈاکٹر عافیہ کا قضیہ نہیں بلکہ کچھ عرصہ قبل امریکی
فوج نے عراقی قید خانے ابو غریب میں عراق کی مسلمان قیدی خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔ دنیا کا بد نا ترین ”ایکسرے کیمپ“ ہے جس میں امریکی قانون، بین الاقوامی قوانین، اخلاقی اور سماجی ضابطوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ایک ماہر نے اس کیمپ کے بار میں بڑے خوبصورت الفاظ کہے۔ اس نے کہا ” یوں محسوس ہوتا ہے گوانتا ناموبے کے جزیرے پر پہنچ کر دنیا کے تمام قوانین، ضابطے اور روایات دم توڑ جاتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے 4.17 میل کے اس احاطے میں انسانیت 10 ہزار سال پیچھے چلی گئی ہے“۔ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پاسداری کرنے والوں کی جیل میں ابو غریب و گوانٹا ناموبے میں جو قیدیوں کی تصاویر جاری ہوئیں وہ کچھ یوں منظر پیش کرتی تھیں کہ قیدی تنگ لباس میں یا بالکل بے لباد ہوتا، اس کے جسم کو کوئی کتا بھنبھوڑ رہا ہوتا یا کوئی انسانی درندہ ضربیں لگا رہا ہوتا، ارد گرد کئی لوگ اس کی حالت پر قہقہے لگا رہے ہوتے، کوئی اس کے سر پر مکے برسا کر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا رہا ہوتا، اس کے برہنہ جسم پر کئی لوگ سوار ہوتے، اسے تاروں سے کرنٹ دیا جا رہا ہوتا یا جسم پر نجاست اور گندگی مل دی گئی ہوتی، اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر گھیسٹا جا رہا ہوتا، اس کے نازک اعضا کھینچے جا رہے ہوتے۔ ابو غریب جیل سے ایک مسلمان لڑکی ”نور“ کا خط جو دنیا بھر کی اخباروں میں چھپا، اس خط میں نور لکھتی ہے کہ :
”ہمارے پاکیزہ دامن
آلودہ اور سر ڈھانپنے والے آنچل دریدہ ہو چکے ہیں.... امریکی درندے ہم پر ایسے ستم ڈھاتے ہیں جو جسم پر ہی نہیں، روح پر بھی آبلے ڈال دیتے ہیں۔ ان کی ہوس اور شینطیت ہم کمزوروں پر اپنے پنچے گاڑھ دیتی ہے تو ہم میں احتجاج کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ ہم گوہر عصمت لٹا چکی ہیں اور اب آنکھیں بند کیے موت کی منتظر ہیں کہ جینے کو کچھ بچا ہی نہیں“۔
ایون ریڈلی دو تہذیبوں کے اصل فرق کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے
:
طالبان
کی طرف سے انتہائی احترام اور پُر شفقت برتا سے ہونے والی میری خوشی اس وقت غارت ہو کر رہ گئی جب میں لندن میں ایک سیاہ کیب میں سوار ہوئی۔ اس کے ڈرئیوار نے جو ”ایسٹ اینڈ“ کا رہنے و الا تھا، اخبارات میں چھپنے والی تصاویر کی وجہ سے مجھے پہچان لیا۔ اور بولا....” کیا تم وہی چڑیا ہو جسے طالبان نے اپنے پنچرے میں بند کر دیا تھا؟ میں نے ”ہاں“ میں سر ہلایا تو اس نے کہا، تو کیا انہوں نے تجھ سے جنسی فعل کیا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ بولا، مجھے بالکل یقین نہیں آتا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تجھے بھنبھوڑ کر رکھ دیتا“۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، میرے خیال میں وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ میرے حسن کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ مہذیب دنیا میں واپسی خوش آمدید، یو آنے.... میں سوچتی رہ گئی۔ یہ تھا فرق دونوں تہذیبوں میں۔
قارئین
! اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ دنیا کی ” غیر مہذب ترین“ تہذیب کونسی ہے؟ وہ جس نے ایون ریڈلی جو غیر قانونی طور پر عین اس وقت افغانستان میں داخل ہوئی جب جنگ کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ریڈلی کو گرفتار کر لیا گیا اور دوران جیل اس کے جو سلوک ہوا اس سے متاثر ہو کر وہ ایون ریڈلی سے مریم بن گئی۔ مگر دوسری طرف ایک ڈاکٹر عافیہ ہے جس پر امریکہ کوئی جرم ثابت نہیں کر سکا۔ انسانیت کے تذلیل کے تمام حربے اس نازک صنف پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیا انسانیت کے احترام سے عاری، اجڈ، وحشی اور غیر مہذب” طالبان “ ہیں یا ”امریکہ“۔ عدل و انصاف کا ترازو اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔

 

Wednesday, September 8, 2010

is it our war?


is it our war?



کیا یہ ہماری جنگ ہے؟



جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ سابق چیف آف سٹاف

افغانستان کے خلاف جب 2001میں امریکہ کی جنگ کا پاکستان نے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جنرل مشرف نے سیاسی قائدین، سول اور عسکری بیوروکریٹس اور کچھ دانشوروں کو اپنے فیصلہ کی منطق سمجھانے کیلئے دعوت دی. ایک گروپ کے ساتھ مجھے بھی بلایا گیا. تقریب تین گھنٹے کی طویل تقریر کے بعد مجھ سے بھی رائے مانگی گئی. میں نے کہا ''یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، اس جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے کیونکہ افغان قوم سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے. طالبان شکست نہیں کھائیں گے بلکہ پیچھے ہٹ جائیں گے. وہ دوبارہ اٹھیں گے اوراس وقت تک جنگ کریں گے جب تک کہ ان کا ملک غیر ملکی تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا. اس جنگ کے دائرے وسیع ہوں گے اور ہمارے سرحدی علاقے بھی جنگ کی لپیٹ میں آ جائیں گے. جنگ ہماری طرف پلٹ آئے گی، ہماری جنگ بن جائے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں شامل ہو کر ہم اپنے شہیدوں کے خون کا سودا کریں گے جو اتنا بڑا گناہ ہو گا کہ اللہ تعالی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا.'' پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی. مشرف کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ثابت ہوئی. کیا واقعی آج یہ جنگ ہماری جنگ بن چکی ہے؟اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے ایک مختصر سا تجزیہ پیش کرنا چاہوں گا.
پچھلے پچیس سالوںمیںعالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والے واقعات نے افغانستان کی جنگ آزادی اور ہمارے سرحدی علاقوں پر گہرے اثرت مرتب کئے ہیں جس کے نتیجے میں اب ایک فیصلہ کن معرکہ کی بساط بچھائی جا چکی ہے جہاں دنیا کی تین بڑی قطبی طاقتیں یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی، روس اور چین اور 'دنیائے اسلام کی مدافعتی قوت' کے درمیان فیصلہ ہونے والا ہے.
سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد امریکہ نے ساری دنیا پر بالادستی کا خواب دیکھا یعنی ایک ایسا نظام جس سے دنیا بھرمیں صرف امریکہ کی بالادستی قائم ہو لیکن یہ خواب صرف پندرہ سال کے عرصے میں پاش پاش ہو گیا. جس طرح پچھلی صدی میں ہٹلر نے Lebensraumکاتصور پیش کیا تھا، کہ جرمن قوم سب سے ارفع واعلی قوم ہے اس لیئے اسے ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ تصور بھی پندرہ سال کے اندر اندرٹوٹ گیاتھا. فرق صرف یہ ہے کہ جرمن تصور کو ختم کرنے کیلئے ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو گئی تھیںاور ہٹلر کی جارحیت کا تصور ختم ہوا. اسی طرح سے امریکہ کی ہٹلر شاہی کا تصور جس طاقت نے توڑا ہے وہ ' عالم اسلام کی مدافعتی قوت'ہے جس کا کسی ایک ملک یا کسی ایک علاقے سے تعلق نہیں ہے. وہ ایک ناقابل تسخیر لامکان حقیقت ہے.اسی طاقت نے٨٠ء کی دہائی میں سوویت یونین کو شکست دی، اسی مدافعتی قوت نے عظیم تر اسرائیل کا خواب چکنا چور کیا، اسی قوت نے عظیم تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ خاک میں ملایا، اسی طاقت نے لبنان کی جنگ میں اسرائیل کا غرور خاک میں ملایا اوراب عراق میں امریکہ کواور افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کو شکست سے دوچار کر دیا ہے.اور تمام جارحیت پسند قوتوں کے ہاتھ باندھ دیے ہیں.لہذا یہ کہنا درست ہو گا کہ آج دنیا کا عالمی نظام یک مرکزی نہیںر ہا بلکہ سہہ جہتی نظام (Tri-polar)بن چکا ہے جس میں تین طاقتیں شامل ہیں ایک امریکہ ہے جس کے ساتھ اسکے اتحادی ہیں، یورپ، بھارت اور جاپان، دوسری جانب چین اور روس ہیں اور تیسری طاقت عالم اسلام کی مدافعتی قوت ہے. یہ تین بڑی قوتیں عالمی نظام مرتب کر رہی ہیں. روس اور چین تصادم کی کیفیت میں نہیں ہیں لیکن بالواسطہ وہ بھی افغانستان کی جنگ میں شامل ہیں جہاں پر امریکہ، یورپ اور بھارت مل کر فیصلہ کن رائونڈ کیلئے تیاری کر چکے ہیں. اگلے سال کے آخر تک بھارت کے ڈیڑھ لاکھ فوجی بھی وہاں پہنچ جائیں گے. یہی وہ حالات ہیں جو افغانستان میں مستقبل کی جنگ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں جس میں امریکہ،یورپ، بھارت، اسرائیل ، چین اور روس اور اسلامی مدافعتی قوت شریک ہوں گے. بڑے گھمسان کا رن ہوگا اور اسی آنے والے طوفان کی سرسراہٹ اب پاکستان میں سنائی دینے لگی ہے.
یہ طوفان جس کا رخ اب پاکستان کی طرف ہوچکا ہے اور پاکستان کے عمائدین بھی کہنے لگے ہیں کہ اب یہ ہماری جنگ ہے تو یہ بات درست ہے اس لیئے کہ جب ہم نے ٢٠٠١ء میں افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیاتھا تو وہ ہماری جنگ نہیں تھی لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خصوص افغان حکومت نے اس کا رخ ہماری طرف موڑدیا ہے. افغانستان کے وزیر خارجہ رنگین دارفر جو ١٤ سال بھارت میں رہے اور را (RAW) کیلئے کام کرتے رہے ان کا یہ تصور تھا کہ اس جنگ کو پاکستان کی طرف پلٹ دیا جائے تاکہ پاکستانی فوج آپس ہی میں الجھ کر رہ جائے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں.اس جنگ کا رخ پاکستان کی طرف اس لئے پلٹا کہ جنرل مشرف نے امریکہ کو کھلی اجازت دے رکھی تھی کہ سوات سے لے کر وزیرستان اور وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک ہمارے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے ، ایف بی آئی اور امریکن اسپیشل فورسز آزادی کے ساتھ آپریٹ کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتی تھیں. ان کو وہاں اپنی سرگرمی دکھانے کا پورا اختیار دیا گیا. امریکیوں کو کچھ سہولتیں بھی دی گئیں، مثل تربیلا میں امریکن سی آئی اے اور ایف بی آئی کا بہت بڑا اڈا بنا. اسی طرح بلوچستان کے علاقے میں سی آئی اے کا سیٹ اپ ہے اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کا کنٹرولنگ ہیڈ کوارٹر تھا. جنرل مشرف نے امریکیوں کو کھلی آزادی دی اور اپنی انٹیلی جنس کو پیچھے کر دیا. آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کو کہا کہ ان علاقوں سے دور ہٹ جائیں اور صرف گسٹاپو (Gestapo) کا کام کریں یعنی یہ کہ 'اپنے ہی لوگوں کو پکڑو اور ان کی شناخت کرکے دشمنوں کے حوالے کر دو' تو نتیجہ یہ ہوا کہ جب مشرف نے وردی اتاری ، نئی حکومت آئی اور نیا آرمی چیف آیا جو اس حقیقت کو جانتے تھے توانہوںنے اپنی انٹیلی جنس کو کہاکہ اب تم اپنے علاقوں میں پہنچو اور صحیح صورت حال معلوم کرو تو یہیں سے مفادات کا ٹکرائوہوااور نئی حکومت سے امریکہ نے پوچھاکہ یہ اجازت کس نے دی؟ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس ان علاقوں میںکیوں آگئی ہے؟ حکومت پر دبائو ڈالا تو پریشان ہو کرآئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لے آئے لیکن پھر اسی دن حکومت نے یہ حکم نامہ واپس لے لیا. امریکہ اور حکومت پاکستان کے درمیان یہی ٹکرائو ہے .
امریکہ نے پچھلے چار سالوں میں یہ سارا کام ایک بڑی سازش کے تحت کیا ہے جس میں امریکہ، اسرائیل، بھارت،برطانیہ، جرمن اور فرانسیسی انٹیلی جنس شامل ہیں. انہوں نے پاک افغان سرحد کے پورے علاقے میں سوات سے لے کر وزیرستان، اور بلوچستان تک اپنا نیٹ ورک قائم کیاہے اور اپنے حمایتی گروپ بنالئے ہیں. ڈالروں کی ریل پیل، اسلحہ، ہتھیار اور ہر چیز ان کو دی گئی ہے. اس نیٹ ورک کے ذریعے امریکیوں نے قبائلیوں کی وفاداری تبدیل کی. اس سلسلے میں ان کو سب سے زیادہ کامیابی سوات اور بلوچستان میں ہوئی. وزیرستان اور باجوڑ کے علاقے میں انہیں کامیابی تو ملی لیکن بہت کم. یہی وجہ ہے کہ امریکی میزائل اور جاسوس طیاروں کے حملے صرف باجوڑ اوروزیرستان پر ہو رہے ہیں
کیونکہ وہاں ان کے خلاف مزاحمت موجود ہے. اب یہ منظر ہے کہ امریکہ نے سوات سے لے کر بلوچستان تک افغانستان . پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ایک بفر زون بنا دیا ہے تاکہ امریکیوں کو افغانستان میںتحفظ ملے . امریکیوں نے کنڑ کے علاقے میں ایک بہت بڑا فوجی اڈا بنانا شروع کر دیا ہے جو دریائے کابل کے ساتھ ہے. اور اس کی حفاظت کیلئے ضروری تھا کہ جنوب میں پاکستان کے علاقے میں سکیورٹی زون بنایا جائے. اس لئے بطورخاص سوات اوردیر کے علاقے پر توجہ دی گئی. ان علاقوں میں بھارت اور امریکہ نے کئی مزاحمتی گروپ بنائے جن میںسے اکثر کو ختم کیا جا چکا ہے.چند گروپ اب بھی جنگ میں مصروف ہیں اور ایسے وقت جبکہ یہ جنگ جاری ہے تو امریکہ کے حملے اگر ہماری مدد کیلئے ہوتے تو وہ سوات اور باجوڑمیں ہوتے لیکن حملے وزیرستان میں ہو رہے ہیں. اسلئے کہ وزیرستان اور باجوڑ کے قبائل امریکہ کے ہاتھوں بکنے کیلئے تیار نہیں ہیں.
آج ہم جنگ کی حالت میں ہیں اور ہماری فوج اور ائر فورس ان عناصر کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں جنہیں امریکہ اور بھارت کی سازش کے تحت پاکستان کے علاقوں میں داخل کیا گیاہے. اپنے ہی علاقے میں ہم دشمن کے پیدہ کردہ عناصر کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں.جب یہ ہماری جنگ بن چکی ہے تو اس کی ترجیحات بھی الگ ہونی چاہئیں اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے طریقہ کار بھی بدلنا ضروری ہے. یعنی بیرونی عناصر کی سرکوبی اور اپنوں سے مذاکرات کریں اور ان مذاکرات میں ان علاقوں کے منتخب نمائندے شامل کریںتاکہ بغیر جنگ کئے دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کر سکیں. یہ پورا علاقہ پس ماندہ اور محرومیت کا شکار ہے، یہاں پر مضبوط منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی کام کرنے کی ضرورت ہے.
اس سال کے آخر تک جب امریکہ میں حکومت تبدیل ہو گی تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوں گی.اگر نئی امریکی حکومت کو حالات کا صحیح ادراک ہے تو ان کے لیئے بہتر ہوگا کہ وہ اور ان کے اتحادی افغانستان سے نکل جائیںاور یہ بھارت کی بدبختی ہوگی کہ وہ افغانستان میں ذمہ داریاں سنبھال لے. شاید اسی کام کیلئے وہ اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان بھیج رہا ہے.پھر وہ دیکھنے والا منظرہوگاکہ افغانی اورہمارے قبائیلی بھارت کاکیا حشر کرتے ہیں.ا سے بھاگنے کا رستہ بھی نہیں ملے گا. چین اورروس بالواسطہ طورپر پہلے ہی اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں. جہادی بھی اس جنگ میں شدت کے ساتھ شریک ہیں. روس کیلئے افغانستان میں امریکہ سے اپنی شکست کا انتقام لینے کیلئے یہ بہترین موقع ہے. روس کے تعاون سے چیچنیا ، کرغزستان ، قازقستان اور ازبکستان کے جہادی بھی بڑی تعداد میں افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں. اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے وقتوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے افغانستان میں استقبال کی زبردست تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں. اس حقیقت کو اگر ہم نگاہ میں رکھیں توپاکستانی قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے. اللہ نے ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ایک بہت مضبوط فصیل کھڑی کر دی ہے اور تاریخ ایک نیا رخ لینے والی ہے. ہمیں امریکہ کے ساتھ اور خصوص بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی ترجیحات کی بنیاد پر قائم کرنا پڑے گا. اور ہماری پوری توجہ مسئلہ کشمیر کے منطقی انجام کی طرف ہونی چاہئیے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملے کیونکہ اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو چکا ہے. جس طرح کہ اسرائیل کی شکست کے بعد فلسطین کا فیصلہ ناگزیر ہو چکا ہے.


امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونی ہے . امریکہ اور یورپ کے دانشور بھی اب مشورہ دے رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان سے نکل جائو.، ایران کے ساتھ دوستی کر لو، ایران ایٹمی صلاحیت والی طاقت بنتا ہے تو اسے بننے دو. ان دانشوروں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی.بلکہ بھارت ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن جس طرح بھارت ان سازشوں کا حصہ بن کر افغانستان میں داخل ہو چکا ہے اس کے نتیجے میں ہم بھی وہ منظر دیکھیں گے کہ کل بھارت کا وہاں کیا حشر بنے گا.کیونکہ اس کا مقابلہ دنیا کی تیسری بڑی قوت سے ہو گاجو عالم اسلام کی ناقابل شکست مدافعتی قوت ہے. یہ مدافعتی قوت کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے، یہ ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے، ایک خداوندی قوت ہے کہ جس کے ہاتھوں عالمی نظام کے خدوخال مرتب ہو رہے ہیںاور جن سے ٹکرا کر دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اور ان کے اتحادیوں کا غرور خا ک میں مل چکا ہے. پھر بھی اس طاقت کو مغربی دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ ہر قدم پر اسی طاقت کے ہاتھوں شکست در شکست کھا رہی ہے جنہیں دہشت گرد کہہ کر خودفریبی میں مبتلا ہیں. یہ تیسری طاقت ایک حقیقت ہے، ایک معجزہ ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے. جس نے سمجھ لیا وہ کامیاب ہوگا. جس نے نہ سمجھا وہ ہار جائے گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہماری سرحدوں پر اتنی مضبوط حفاظتی دیوار مہیا کر دی ہے جسے توڑنے کی دنیا کی کسی طاقت کے پاس صلاحیت نہیں ہے.پھر کیا ڈر ہے افغانستان کو، کیا خوف ہے پاکستان کو، اللہ کے سپاہی ہمارے محافظ ہیں.


اللہ کی یہی رضاہے کہ ساری دنیا میں طاقت کا توازن قائم رہے ورنہ طاقتور قومیں نہ جانے کب کی کمزور اور غریب قوموں کو ہڑپ کرچکی ہوتیں. امریکہ کا ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا خواب ٹوٹ چکا ہے ، اور کن کے ہاتھوں ؟وہی ،جوننگے بھوکے اور سوکھی روٹی کھانے والے ہیں، جن کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل ہے اور ہاتھوں میں ہلکے ہتھیارہیں. لیکن پھر بھی سامراجی طاقتیں انہیں دہشت گرد کہتی ہیں.اور اب انہیں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور افغانستان کے حکمران بھی ملا عمر سے مدد کے طلبگار ہیں.
پاکستانی قوم کو خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، ملک دشمنوں سے محفوظ ہے لیکن اصل خطرہ خود اپنوں سے ہے جو سیاسی مصلحتوں کے تحت کاسہ لیسی اختیار کئے ہوئے ہیں. اللہ انہیں ہدایت دے.آمین!




who will give justise?

who will give justise?



بلند بانگ دعوے ایک طرف، بیماری وہیں کی وہیں موجود ہے۔ پہلے کہا گیا کہ سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ کردیاگیا اور ہزاروں شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو مار دیاگیا۔ اس ”کامیابی“ کے باوجود نہ صرف مسئلہ وہیں کا وہیں رہا بلکہ دہشت گردی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ پھر کہاجانے لگا کہ اصل مسئلہ بیت اللہ محسود اور وزیرستان میں موجود دہشت گرد اور شدت پسند ہیں جن کے خلاف ملٹری آپریشن کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ بیت اللہ محسود کو ایک میزائل حملے میں مار دیا گیا اور اس کے جانشین حکیم اللہ محسود کو بھی بعدازاں مارنے کے دعوے کئے گئے۔ وزیرستان ملٹری آپریشن کو بھی سوات آپریشن کی طرح کامیابی سے مکمل کرنے کے اعلانات کئے گئے اور سیکڑوں شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو مارنے کے دعوے کئے گئے مگر اس کے باوجود مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے، اگرچہ اکادکا دہشت گردی کے واقعات تو پہلے ہی ہورہے تھے مگر گزشتہ ہفتے لاہور کو دہشت گردی نے ہلا کررکھ دیا۔ صرف جمعہ کے روز دہشت گردی کے پے درپے سات واقعات ہوئے جن میں 9فوجیوں سمیت57 معصوم افراد شہید ہوئے۔ اسی ہفتے سوات مینگورہ کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور کئی افراد کو شہید کردیاگیا۔
تازہ اعدادوشمار کے مطابق 2009ء کے ابتدائی70 دنوں میں خودکش بمباروں کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں2010ء کے پہلے 70دنوں میں کافی اضافہ ہوا۔ ان اعدادوشمار کے مطابق 2010ء کے پہلے 70دنوں میں پاکستان بھر میں15خودکش حملے ہوئے جس کی وجہ سے 321 معصوم جاں بحق ہوئے۔ اس کے مقابلے میں2009ء کے پہلے 70دنوں میں 11خودکش دھماکے کئے گئے جس کے نتیجے میں 105 افراد شہید ہوئے۔ 2009ء کے واقعات سوات اور وزیرستان آپریشن سے پہلے کے ہیں جبکہ 2010ء کے خودکش حملے ان دونوں ”کامیاب“ ملٹری آپریشن کے بعد کی کہانی ہے۔مرض بڑھ گیا باوجود اس کے کہ ملٹری آپریشن سوات اور وزیرستان میں کامیاب ہونے کے دعوے کئے جاتے رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کیا کیا جاتا ہے اور ملٹری آپریشن کیلئے کس علاقے کو چنا جاتا ہے کیونکہ خودکش بمبار ، دہشت گردی اور معصوم عوام کا مرنا ابھی تک نہیں رکا کیونکہ9/11 کے بعد سے یہی کچھ کیا جارہا ہے اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں۔ مرض بڑھتا جارہا ہے مگر اس کی تشخیص کی بجائے ظاہری علامات پر توجہ ہے۔ جسم پر ظاہر ہونے والے پھوڑوں کو کاٹنے سے مرض نہیں جاتا۔ ایک جگہ سے پھوڑا کاٹیں گے تو یہ دوسری جگہ نکل آئے گا۔ آپ پورا جسم کاٹ دیں‘ علاج اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا‘ جب تک کہ آپ مرض کی جڑتک پہنچ کر اس کی تشخیص کرکے اسے دور کرنے کی تدبیرنہ کریں۔ افسوس کہ ہماری موجودہ پالیسی دہشت گردی کے مرض کاعلاج کرنے کی بجائے اس مرض کومزید پھیلانے کاسبب بن رہی ہے۔ بغیرسوچے سمجھے کہ فوج اور پولیس پر کیوں اور کب سے حملے شروع ہوئے۔ خودکش بمبارکہاں سے پیدا ہوگئے۔ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں اور یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا۔ ہمارا سارا زورفوجی آپریشن پر کیوں ہے۔ مرض وہیں کاوہیں۔ شدت پسندی کی وجوہات وہیں کی وہیں۔ ڈرون حملے وہیں کے وہیں۔ امریکہ کی نوکری چاکری ویسی کی ویسی۔ اپنے ہی لوگوں کیخلاف آرمی آپریشن ویسے کے ویسے۔ اب حد تویہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے اندرونی اختلاف کے نتیجے میں بننے والی تحریک اسلامی اور کچھ دوسری اسلامی تنظیمیں جس میں جماعت الدعوة اور حزب التحریر کو اور ان کے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ایک طرف سابق ممبرقومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید پر یہ الزام لگایا گیا کہ ان کادہشت گردوں سے تعلق ہے تو دوسری طرف تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے بزرگ مذہبی اسکالراور سابق ایم این اے عامرہ احسان اور ان کے اسکالرشوہرپروفیسرراجہ احسان پر اندرون ملک ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات کاشبہ کیاجارہا ہے۔ پروفیسرراجہ احسان اور تحریک اسلامی کی ایک اور بزرگ نجمہ خاتون کوایجنسیوں نے اٹھایا اور سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس لینے پر چھوڑا۔ اس خاتون پر اس حد تک تشدد کیا گیا کہ اس کا ایک دانت توڑدیاگیا۔ حزب التحریر کے پڑھے لکھے کئی نوجوانوں کو دہشتگرد کہہ کر پکڑا گیا مگر پولیس اور ایجنسیاں ان کے خلاف عدالت میں کوئی ذرہ برابر بھی ثبوت پیش نہ کر سکے اور سب کے سب کو رہا کر دیا گیا۔ امریکہ ایسے دینی لوگوں کو اگردہشت گردکہے تو سمجھ میں آنیوالی بات ہے مگر اگر ہمارے اپنے ہی جماعت اسلامی ، تحریک اسلامی، حزب التحریر جیسی جماعتوں سے متعلق اس قسم کی باتیں منسوب کریں تو یہ قابل افسوس ہے۔ اپنے حالیہ کالم میں جماعت اسلامی کے سابق امیرقاضی حسین احمد نے بڑے دکھ سے لکھا کہ ہارون الرشید صاحب کے معاملہ میں جب جماعت اسلامی کے کچھ لوگ فوج کے کچھ سینئرافسران سے ملے تو ان کوکہا گیا کہ ہم (یعنی فوج) تم سب کودشمن سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست سے ہزار اختلاف ہوسکتا ہے مگروہ پاکستان کے دشمن نہیں ہوسکتے۔ان میں سے کوئی جماعت پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی ایسے گھناؤنے عمل کو جہاد سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مگراسلامی ذہن رکھنے والوں اور افغانستان میں جاری جہاد کی حمایت کرنیوالوں کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جانے لگی ہیں۔
دوسری طرف اب تو یہ حال ہے کہ برقعہ اوردوسرے اسلامی شعائر کی کھلے عام اسٹیج ڈراموں کے ذریعے توہین کی جارہی ہے مگر اس کوکوئی روکنے والا نہیں۔ افغانستان اور کشمیر میں جاری جہاد کوجہاد کہنے والوں کو طالبان اور دہشت گردی کے طعنے دیئے جارہے ہیں۔ پاکستان کی اسلامی اساس کو تارتار کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ فحاشی‘ عریانی اور مغرب پسندی کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں جو دوسرے عوامل کی طرح معاشرے میں شدت پسندی کا باعث بننے کی وجہ ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کیلئے ہمیں مجموعی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سیاسی حل کو تلاش کرنا ہوگا،ورنہ ہندوستان، امریکہ اور دوسری پاکستان دشمن طاقتیں ہمارے لوگوں کو ہمارے ہی خلاف استعمال کرتی رہیں گی۔ جرنیل اور فوج یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ یہ کام سیاستدانوں کو ادا کرنا ہے جو بدقسمتی سے وہ ادا نہیں کر رہے۔ انہوں نے توخودسارا معاملہ فوج کے حوالے کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم آج اپنے آپ کو امریکہ کی مسلمان کش نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اپنے آپ کو دور کرلیں تو نہ تو ہماری فوج پر حملے ہوں گے اور نہ ہی خودکش بمبار پیدا ہوں گے۔ اپنی اندرونی خرابیوں کو حکمت اور تدبر کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے دشمن ہمارے ہی لوگوں کو ہمارے ہی خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں امریکہ کی نہیں بلکہ اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت سے رہنمائی چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ 


وحدت کی طرف لوٹیئے

عامرہ احسان

ہم تو ساری حرمتیں پامال کر بیٹھے۔ ایک کتا بردار کمانڈو کے پیچھے ناقابلِمعافی خاموشی سے ہم نے کفر کے کندھے سے کندھا ملا کر اہل ایمان کا شکارکھیلا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم پلٹ آئیں۔ پاکستان کی قوت اس میں مضمر تھی کہاللہ نے بے شمار رنگ ونسل کے اوصاف کی بو قلمونی سے ہمیں نوازا تھا۔ یعنی گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن۔ جہاں پٹھانوں میں عربوں کی صفات کا عکس ملتا ہے اور روسی سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا کر قبرستان آباد کرنے میں غیور سرحدی پٹھانوں (سیکولر نہیں، صاحبِ ایمان) کا بھی پورا پورا حصہ تھا اور ہم حسرت آمیز فخر سے ان کیلئے کہتے تھے…؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
اسکے بعد ایمان، اسلام اور اسی بنیاد پر پاکستان سے گہری وابستگی رکھنے
والے ہزارہ وال ہیں۔ یہ پورا علاقہ ایمان اسلام، علماء اور مدارس کے اعتبار سے ہماری شناخت کی اگلی ڈیفنس لائن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراسکے حواریوں کی نگاہ میں یہ علاقہ بھی خار بن کر کھٹکتا ہے۔ تربیلا میں وہ تمام تر حفاظتی قلعوں میں بھی خود کو ان غیور لوگوں کی موجودگی میں محفوظ نہیں جانتا۔ لہٰذا ان کے احتجاج پر معقول رویہ اختیار کرنے اور افہام و تفہیم سے سلجھانے کی بجائے گولیوں کی بوچھاڑ بلا سبب تو نہیں۔
اس حسین اور خوبصورت ملک کی قوت اس میں بسنے والی ہر قومیت کی جدا جدا
صلاحیتیں اور اوصاف ہیں۔ پنجابیوں کی کشادہ دلی، وسیع الظرفی، سبھی کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کا وصف رکھتی ہے۔ یہی کیفیت اردو ، سندھی، بلوچی، سرائیکی، بروہی، ہر زبان رنگ نسل والوں کی ہے۔ ہم اسلام کی مالا میں پروئے ہوئے دیدہ زیب موتیوں کی مانند ہیں۔ یہ تقسیم سوائے تعارف کا ذریعہ ہونے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تاریخ گواہ ہے مسلمان جب اوس، خزرج، انصاری، مہاجر کی تقسیم سے ماوراء ہو کر اس اصول کو لے کر اٹھے۔
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے،(الحجرات۔13
)
تو مسلمان تین براعظموں پر حکمران ہوگیا اور جب یہ سبق بھولا تو جمعیت کے
ساتھ ملت بھی پارہ پارہ ہوگئی۔ یہ فارمولا ہمارے دشمن کا ہمیں توڑنے کیلئے ہے۔ ذرا سوچئے تو ہمارے ہر دوسرے گھر میں جو بچوں کے نام ہیں وہ کن ناموں پر ہیں؟۔ صہیبؓ رومی، سلمانؓ فارسی، بلال حبشی، فہیم صدیقی، فاروقی، علوی، عثمانی کیوں ہیں؟ نبیﷺ پر ماں باپ آل اولاد قربان کرنے کا حوصلہ ہم، آپ میں کیوں ہے؟ کیا اسلئے کہ آپؐ پنجابی تھے۔؟ ہر گزنہیں! آپؐ پٹھان، سندھی، بلوچی، سرائیکی تھے؟ یہ نسل آلودہ گھٹی گھٹی تنگ نظر کنویں کے مینڈک والی سوچ ایک مسلمان کی نہیں ہوسکتی۔ ہماری وسعتِ نظر کا تو یہ عالم ہے کہ میری محبت، غم اور فکر کا محور، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر بلکہ پوراگلوب اور اس پر رہتا بستا ہر مسلمان ہے۔ میرے خاندان کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ مجھے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی وراثت اور امام الانبیائﷺ کا امتی ہونا میسر ہے۔ میرے فکر و نظر کی کشادگی کا یہ عالم ہے کہ اگر بش مسلم کش ایمان لے آئے تو مجھے (بس ایک کڑوے گھونٹ کے بعد) اسے امت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ دل سے نفرت کو دھونا پڑے گا! میری وسعتِ نظر کا یہ عالم ہے کہ مجھے صرف اس چند روزہ زندگی کا حقیر کیڑا اورخواہشات نفس کا حیوانی وجود بن کر نہیں جینا۔ بلکہ وہ امانت جو اشرف المخلوقات ہونے کے اعتبار سے، اپنی روح میں سے کچھ پھونک، کر اللہ نے میرے وجود میں ڈالی ہے اسکی قرآن و سنت سے آبیاری کرنی، حفاظت کرنی ہے کہ وہ اس عظیم کارواں کا حصہ بن سکے جو حضرت آدمؑ کے وقت سے لیکر آخری دن تک کے انسانوں میں سے جنت کیلئے منتخب کیا جائے گا۔ مسئلہ اس وقت صرف یہ ہے کہ گلوبل ویلج ہانکے پکارے نئی اجلی ستھری قیادت کیلئے العطش، العطش (پیاس، پیاس) پکار رہا ہے۔ کمیونزم دم توڑ چکا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر معاشی سیاسی سماجی معاشرتی فریب کاریوں کے ساتھ جان بلب ہے۔ استحصال (پاکستان کی طرح دنیا کے ہر ملک میں) اپنی ساری حدیں توڑ چکا ہے۔ انسانیت سسک رہی ہے۔ اسلام کا سویرا طلوع ہو کر رہے گا۔ یہ وقت کی پکار ہے۔ یہ دنیا کی ضرورت ہے۔ چمگادڑوں، الوئوں کی چیخ وپکار طلوع ہوتی صبح کا راستہ نہیں روک سکتی۔ عراق نے فیصلہ دے دیا۔ کوئی بریکنگ نیوز نہ سنی۔ افغانستان کا فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ ورلڈ میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ جس طرح اچانک برف پوش آئس لینڈ کے پہاڑ لاوا اگل رہے ہیں۔ برسہا برس، صدیوں سے قوموں کی عقلوں پر پڑی برف بھی پگھلنے کو ہے(اس کا معاشی نقصان بھی چشم کشا ہے!) ظلم اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ایک کروڑ مسلمان ان خون آشام صلیبیوںکی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دنیا بھر کے عقوبت خانے صلیبیوں کی خوشنودی کی خاطر ٹھونسے گئے مسلمان نوجوانوں سے لبالب بھرے پڑے ہیں۔ ناقابل بیان مظالم دنیا بھر میں آمروں کے ہاتھوں نت نئی اصطلاحوں اور خوبصورت فلسفوں کی آڑ میں توڑے جا چکے ہیں۔ پیالہ لبالب بھر چکا ہے۔ روسی ریچھ کی طرح امریکی ہاتھی دم توڑ رہا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ۔ دبے پائوں صبح طلوع ہونے کو ہے۔ ہمیں تقسیم در تقسیم ہونے کی بجائے اس عظیم الشان وحدت کی طرف لوٹنا ہے، جسکا خوف امریکہ کی نیندیں اڑائے دے رہا ہے۔ امت اور خلافت۔ یہ دو تصورات کفر کیلئے جان لیوا ہیں۔ جن سے ہمیں بیگانہ رکھنے ہی کے سارے اہتمام ہیں۔ کفر نے پانی کی طرح اپنا پیسہ اور ہمارا خون اس وحدت کے خوف سے بہایا ہے۔ لیکن اب وہ سحر ہونے کو ہے۔
آیئے اس صبح کی تیاری کریں۔ رب المشرقین کے، خالقِ ارض سماء حی و صمد کے ماننے والے
:
یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لویں سلامت
!
جب تک ان کی آگ فروزاں
درد کی آخری حد پر بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے



ہم پر پے درپے آفات کیوں ٹوٹ رہی ہیں
 
پاکستان کی تاریخ کی مجموعی آفات کو دیکھیں اور پچھلے دس سال میں ہونے والے نقصان کو دیکھیں تو یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ 2001 ء سے لے کر اب تک ہونے والا نقصان اس سے پہلے کے 53 سالہ نقصانات پر بھاری ہے۔ اس میں کیا بھید ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے لیکن بادی النظر میں یہ وہ عرصہ بنتا ہے جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں اس کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور ایک بزدل جرنیل پرویز مشرف نے اپنے بھونپوئوں کے ذریعے قوم کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ ہمارا تورا بورا بنا ڈالتا۔
افغانستان کے دشت لیلیٰ ' شبرخان جیل اور دیگر مقامات پر امریکیوں نے سفاکی کے جو راستے اختیار کیے وہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں اور شائد امریکہ ظلم ' بربریت اور سفاکی کے یہ ہتھیار نہ آزما پاتا اگر ہم امریکہ کے دست و بازو بننے پر تیار نہ ہوتے۔
اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا؟ ہم پر اقتصادی پابندیاں لگ جاتیں ' ہمارے قرضے اور امدادیں رک جاتیں اور ہمیں بہت سے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا اور اگر ہم ان مشکلات میں سرخرو ہوگئے ہوتے تو مشکلات کی تپتی بھٹی میں سے کندن کی طرح ایک مضبوط قوم بنکر باہر نکلتے۔ اور اگر ہم ایک قوم بن جاتے تو ہمارے اندر قومی اوصاف پیدا ہو جاتے اور جب کسی قوم میں قومی اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ اس حد تک خوددار بن جاتی ہے کہ روکھی سوکھی قبول کرلیتی ہے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔
اگر ہم اس بات پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہوتے کہ سب سے طاقتور اللہ کی ذات ہے اور تمام دنیاوی طاقتیں اس کی طاقت کے سامنے ہیچ ہیں تو ہم امریکہ اور مغرب سے ہرگز ہرگز مرعوب نہ ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ایمان انتہائی کمزور ہے اور ہم قوم نہیں افراد کا ہجوم ہیں۔
ہمارے ایمان و ایقان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ہم روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہر وہ کام کرتے ہیں جو ہمیں جہنم میں دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دین کے معاملات میں بدترین ریاکاری کرتے ہیں اور دنیاوی معاملات میں ہمارا بگاڑ اور فساد دنیا کی دیگر تمام اقوام سے بڑ ھ کر ہے۔
ہم اس ہٹ دھرم اور ڈھیٹ بچے کی مانند ہیں جو بڑوں کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسولۖ نے منع کیا ہے۔ سودی کاروبار کو اللہ کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا جبکہ ہمارا تمام لین دین سودی ہے۔ گویا ہم یہ کام کرکے اللہ کو للکار رہے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ ہم اس حوالے سے اتنے متکبر واقع ہوئے ہیں کہ نعوذ باللہ ہمارے پاس پیسہ ' اختیار اور طاقت آجائے تو اپنے جیسے انسانوں کوحقیر کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اتنی کثر ت سے جھوٹ بولتے ہیں کہ شائد ہی دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنا جھوٹ بولتی ہو۔ اللہ نے ہم کو تفرقہ بازی سے منع کیا اور ہم نے یہ کام اتنی شدت کے ساتھ کیا کہ نفرتوں کے انبارلگ گئے۔
ہم میں سے جس کا دائو چلتا ہے وہ ملاوٹ کرتا ہے 'جس کو موقع ملتا ہے وہ ناپ تول میں کمی کرتا ہے۔ اسلام میں منافع کی ایک حد ہے لیکن ہمارے لئے منافع کی کوئی حد نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ہم ایک بددیانت ' خائن 'ریاکار ' جھوٹی ' متکبر ' جھگڑالو اور اسراف کرنے والی قوم ہیں۔
رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے کو جہنم کا ایندھن بتایا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں کھلے عام دن رات رشوت چلتی ہے مجموعی طور پر ایک ایسی لاپرواہ قوم ہیں کہ جب حکمران ہمارے سمیت اس ملک کا سودا کر رہے تھے اس وقت بھی ہم محض تماشہ دیکھنے والا ایک ہجوم تھے۔
جنرل (ر) مشرف بھی ظاہر ہے ہم میں سے ہی تھے لہٰذا جب امریکیوں نے ان پر دبائو ڈالا تو کمزور ایمان کے حامل جرنیل نے بدترین بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکیوں کے سامنے سر جھکا دیا اور یوں انہوں نے ہماری مدد سے افغانستان میں ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کیں۔
مشرف کے اس جرم میں ہم بھی برابر کے شریک تھے کیونکہ ہم نے افغانستان پر یوٹرن کو ایک عام سی بات سمجھا اور یقین کرلیا کہ ہمارے حکمرانوں نے ایک درست فیصلہ کرکے ہمیں ایک بڑے امتحان سے بچالیا ہے اس فیصلے کے بعد بے برکتی کا ایک ایسا دو ر شروع ہوا کہ جس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مشرف نے کہا ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنی معیشت کو بچالیا ہے۔ خدا نے ہماری معیشت کا وہ حال کر دیا کہ آج دو کروڑ پاکستانی خیموں یا سڑکوں پر پڑے ہیں۔
مشرف نے کہا تھا کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر کشمیر کاز کو بچالیا ہے آج حالت یہ ہے کہ کشمیری بھارت کے خلاف ایک تاریخی تحریک چلا رہے ہیں اور ہمارے پاس کشمیر کی طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں۔ درحقیقت امریکہ سے ڈرنے کی بجائے اگر ہم خدا سے ڈرتے اور اس کے بندوں پر ظلم میں شریک نہ ہوتے تو آج اپنے گھروں میں عزت کے ساتھ بیٹھ کر روکھی سوکھی ضرور کھا رہے ہوتے۔ نہ ہم پر 2005 ء کا تباہ کن زلزلہ مسلط کیا جاتا اور نہ ہم 2010 ء میں اس سیلاب عظیم کا سامنا کر رہے ہوتے۔ یہ ہماری بداعمالیوں کی سزا ہے۔ خدا ہمیں زلزلوں اور سیلابوںکے ذریعے مسلسل جھنجھوڑ رہا ہے لیکن ہم سدھرنے کی بجائے اور بگڑتے جارہے ہیں۔ 2005 ء کے زلزلے میں اچھے خاصے کھاتے پیتےلوگوں نے بھی امداد کو مفت کا مال سمجھ کر خوب خوب ہڑپ کیا اور آج جو امداد سیلاب زدگان کے لئے آرہی ہے اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کا ایک دھیلے کا نقصان بھی نہیں ہوا۔ ہم بالکل نہیں سدھر رہے اس لئے ہم پر خدا کی پکڑ رہے گی۔ اس وقت تک رہے گی جب تک ہم اجتماعی توبہ کرکے اپنے دینی و دنیاوی اعمال درست نہیں کرلیتے۔




پاکستان کا دلدل
معمر قذافی (صدر لیبیا)

مغرب خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو۔ لیکن 28مئی1998 کو ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب انہیں پتہ چل گیا کہ پاکستان ایٹمی ریاست بن گیا ہے اور انہوں نے اپنی انٹیلی ایجنسیوں کو موردالزام ٹھہرا دیا کہ وہ ایٹمی تجربات کا اندازہ لگانے میں ناکام رہیں۔ لاتعداد کتابوں، آرٹیکلز اور تقریروں میں پاکستان کے ایٹم بم کو ''اسلامی بم'' قرار دیا گیا کیونکہ بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ بم ان کے مفادات کی موت ثابت ہو گا۔
پاکستان کو ایٹم بم کی ملکیت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری اے کسنجر نے ایک بار پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یہاں تک کہہ دیا کہ ''آپ نے بم بنایا تو ہم آپ کو ایک مثال بنا دیں گے''۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھٹو کو واقعی پھانسی دے دی گئی۔
جنرل ضیاء الحق جنہوں نے پاکستان کو اسلامی رنگ دیا اور اس کے ایٹمی پروگرام کو ٹھوس شکل دی، کو بھی قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اور نامعلوم کتنے لوگوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہوں یا اسرائیلی وہ آخر کیوں نہیں چاہتے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو؟

پاکستان ایک مسلم ملک ہے۔ درحقیقت اسلام ہی پاکستان کے وجود کی بنیاد
ہے۔ مذہب کے سوا ایسا کوئی عامل نہیں جو پاکستانیوں کو متحد کرتا ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی مذہب کے بارے میں اس قدر سخت سوچ کیوں رکھتے ہیں۔ یہی ان کی قومیت کی اساس ہے۔ پاکستانیوں کے لئے اسلام اسی طرح ہے جس طرح اسرائیلیوں کے لئے یہودیت یعنی ان کی علت وجود۔ دوسرے ملکوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چین، مذہب کے بغیر بھی چین رہے گا۔ اسی طرح ایران بھی مذہب کے بغیر ایران ہی رہے گا۔ یہی معاملہ ترکی کا ہے۔ پاکستان منفرد ہے۔ اسلام کے بغیر پاکستان نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد بھی اسلام تھا اور یہی بطور ریاست اس کی علت وجود ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم صحیح معنوں میں مسلم بم ہے۔ اسلام پاکستانیوں کے لئے عقیدے کا سوال نہیں بلکہ شناخت کا سوال ہے۔
پاکستان اپنے پیچیدہ آبادیاتی ڈھانچے کے باعث ڈرامائی تبدیلیوں سے
گزر رہا ہے۔ سماجی طور پر یہ مختلف نسلوں اور افغانستان کی سرحد پر مقیم قبائل پر مشتمل ہے جن کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے نہ افغانستان کے ساتھ۔ اس کا ڈھانچہ کثیررنگی ہے جس میں ایسے لوگ شامل ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں جو انہیں یکجا کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔
پاکستان کو اپنے خطے کے اندر بھی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ ہر طرف سے
کشیدہ ماحول میں گھرا ہے جو اس کی مسلم اساس کو اکساتی ہے، اسے بدھ مت اورہندو مت کے علاوہ کٹڑپسند نظریات اور عدم برداشت کا بھی سامنا ہے۔
یہی وہ سبب ہے جس کی بناء پر تشدد پسند مسلم گروپ وجود میں آئے جو
افغانستان میں موجود قبائل کے علاوہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے بھی وابستگیاں رکھتے ہیں۔ یہ گروپ مثلاً جامع اسلامیہ، ایسوسی ایشن آف مسلم سکالرز،تحریک اسلامی اور دیگر درحقیقت اسامہ بن لادن اور اس کی تحریک کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ تعداد میں بے شمار ہیں جو واشگاف انداز میں اسلام کے کٹڑپسندانہ تصور کا پرچار کرتے ہیں۔
اسرائیلیوں اور امریکیوں کو ایسے کٹڑپسند گروپوں سے خطرہ یہ ہے کہ یہ
اگر اس بات پر تل جائیں تو اقتدار پر بھی قابض ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ریاست کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں جو ممکن بھی ہے، تو یہ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لئے بڑی خطرناک بات ہو گی۔ دوسری جانب اگر سیاسی جماعتیں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی یا خواہ فوج بھی برسراقتدار ہوں تو حالات قدرے محفوظ رہیں گے کیونکہ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ذمہ دار ادارے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ کوئی پائیدار حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
اگر ان انتہاپسند گروپوں میں سے کوئی برسراقتدار آ جاتا ہے تو ایٹم
بم کی چابی ان کے ہاتھ آجائے گی۔ یوں پاکستان، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لئے دلدل بن گیا ہے۔ اس متوقع طور پر خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہ لوگ پاکستان اور پڑوسی بھارت کے درمیان کشیدگی کو زیادہ شدید کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں۔
پاکستانیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا دشمن ہندو ہے یہودی یا عیسائی
نہیں۔ یوں ان کے بم کا رخ اسی کی طرف یعنی پاکستان کے اولین دشمن کی طرف ہے کسی اور کی طرف نہیں۔ اسی طرح بھارتیوں کو اس یقین میں مبتلا کر دیاگیا ہے کہ ان کا اصل دشمن پاکستان ہے اور پاکستانی بم کا رخ اسرائیلیوں یاامریکیوں کی طرف نہیں بلکہ ان کی طرف ہے۔
اس پالیسی کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے ذہن پر بھارت سوار رہے اور
بھارت کے ذہن پر پاکستان۔ شاید اسی لئے امریکی تنازعہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے جبکہ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ یہ آگ اسی طرح ہمیشہ جلتی رہے۔
کشیدگی اور تنائو کا سلسلہ جاری رہے اور اسی طرح ایٹمی پاکستان ایک خطرہ بنا رہے گا۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کی طرف سے کسی بھی طریقے سے خود
کو اس دلدل سے نکالنے کی کوششیں بھی کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ کچھ بھی ہو اس کھیل کا انجام خطے اور دنیا دونوںکے لئے  خطرناک ہو گا۔
بشکریہ واشنگٹن ٹائمز