رہنما نہیں مگر رہنمائی ؟ جنرل(ر)حمید گل
ہر چیز آشکار ہوتی جا رہی ہے، ہر بت ٹوٹ چکا ہے۔ فوج نے بڑی مشکل سے ایک دہائی کی رسوائی کے بعد خود کو استوار کیا تھا لیکن اب اسے بھی پاش پاش کرنے کی سازش نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ یقینا حالات بہت خراب ہیں۔ تاریخی سیلاب بہت کچھ بہا کر لے گیا لیکن اس کے بعد جو انسانی سیلاب امڈ آنے کو ہے اس کے سامنے کوئی بند، کوئی برج ، کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہر سکے گی۔ عالمی طاقتیں اپنی جگہ مضطرب ہیں کہ کہیں ایٹمی پاکستان ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ابھرتے ہوئے اس طوفان کا غضب ان کے لاڈلے بھارت کو بھی نہ لے ڈوبے۔ یہی وجہ ہے کہ آزمودہ حربہ کے طور پر فوج کو آواز پڑنا شروع ہو گئی ہے۔ بلاشبہ فوج نے گزشتہ دو برس میں بڑی عزت اور نیک نامی کمائی ہے مگر اس بار حالات کی شدت اور حدت کے سامنے اس کا ٹھہرنا بھی محال ہو گا بلکہ ناممکن۔کیونکہ ماضی میں جب بھی فوج میدان میں آئی تو اسے دائیں بازو نے سہارا دیا، جواب پوری طرح اسکے ساتھ نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ مسلح مزاحمت پر کار بند ہے۔ چند پرانے حمایتی اور امریکہ کے پروردہ گروہوں کی حمایت اس سلسلے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔
"The Question is to be or not to be -"
پاکستان میں صرف اندرونی حالت ہی دلخراش اور دگرگوں منظر پیش نہیں کر رہے بلکہ بیرونی طور پر بھی چاروں طرف تاریخی تبدیلیوں کا نیا سماں بندھتا دکھائی دے رہا ہے۔ مغربی سرحد پر تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہونے کو ہے ؟ امریکی افغانستان میں شکست کھا چکے اور اگلے برس ان کی واپسی شروع ہو جائے گی ۔ اس کے اثرات پاکستان پر کیا ہوں گے ؟ اور انہیں کتنے عرصے میں ،کس طرح سنبھالا جا سکتا ہے، یہ الگ بحث ہے۔ دوسری طرف کشمیر تحریک آزادی زوروں پر ہے اور بھارت کی سانسیں اکھڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ خود بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے اپنی حکومت سے التجا کی ہے کہ کشمیر کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔
بھارت کو ایک اور طوفان کا سامنا ہے۔ ایک ایسی سیاسی صورتحال جس میں قریباً 20فیصد بھارت نیکسلائٹ اور ماؤ نواز باغیوں کے قبضہ میں ہے۔ ہم اپنے قبائلی علاقوں کا رونا روتے ہیں مگر بھارت میں ریڈ کارویڈر“ (Red Corridor)کے نام سے ایک وسیع علاقہ اتر کھنڈ سے اڑسہ اور نکسل باڑی سے کیرالہ تک باغیوں کے قبضے میں ہے۔ گزشتہ برس ”ریڈ کاریڈور“(Red Corridor)میں12سو سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ خود بھارتی میڈیا تسلیم کرتا ہے کہ بھارتی یونین کے 608/اضلاع میں سے167باغیوں کے قبضے میں ہیں اور بعض رپورٹس کے مطابق اس سے بھی زیادہ کل14ہزار تھانوں میں سے2ہزار سے زائد پر باغیوں کا کنٹرول ہے اور وہاں ان کا حکم چلتا ہے۔ اس لئے شائن (Shinning)انڈیا اور فیل گڈ (feel Good)انڈیا کے نعروں سے متاثرہ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہاں بھی کیسے کیسے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ بظاہر مستحکم دکھائی دیتا بھارت تاریخ کے گرداب کی لپیٹ میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ تیسری جانب امریکہ اور اسرائیل ایران پر نظر جمائے اور دانت گاڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایران کے خلاف مہم جوئی کے اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا
تاریخ ایک بہت بڑی کروٹ لے رہی ہے۔ ان لمحات میں ہمیں موقع مل رہا ہے کہ خدشات کو امکانات میں بدل ڈالیں اور اندھیروں سے نکل کر روشنیوں کی طرف سفر شروع کریں۔پاکستان کے چہار طرف جو صورتحال جاری ہے یہ دراصل نظاموں کی کشمکش ہے ۔ایک نظام ڈوب رہا ہے دوسرے کو ابھرنا ہے خوش قسمتی سے پاکستان کی تخلیق کے جوہر میں اس نئے نظام کی نوید پنہاں ہے بشرطیکہ ہمیں کوئی قیادت میسر ہو اور ہم حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی انقلابی منزل کی جانب قدم بڑھا سکیں۔
حالات کا تقاضا ہے کہ گزشتہ 63برس سے جس فرسودہ نظام کا بوجھ اٹھائے ہم اپنا قومی سفر جاری رکھنے پر مجبور ہیں اس متعفن لاش کو اب دفن کر ہی دیا جائے۔ میں عرصہ دراز سے ”نرم انقلاب“ کا داعی رہا ہوں اور باوجود معروضی حالات کے، آج بھی کہتا ہوں کہ ایک ایسا انقلاب بپا کرنا نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ ضروری ہو چکا ہے اس کیلئے عوامی فکر بیدار ہے۔
"No body is wiser the victim"پھر ہمارے عوام تو اس قدر متاثر شدہ ہے کہ شاید و بائد ۔ البتہ وہ خونریزی جس کا خوف آہستہ آہستہ دماغوں پر غبار بن کر چھا رہا ہے اس سے اجتناب بہت ضروری ہے کیونکہ ایسے انقلاب کی صورت میں غریب عوام ہی سب سے زیادہ شکار ہوا کرتے ہیں اور معاشرہ طویل عرصہ تک سنبھل نہیں پاتا جبکہ صاحب ثروت لوگ جنہوں نے اپنے ٹھکانے اور آشیانے پہلے ہی بیرون ملک بنا رکھے ہیں وہ قوم کو بلبلاتا چھوڑ کر اپنے آقاؤں کے سایہ عاطفت میں چلے جائیں گے۔انقلاب کیا ہوتا ہے ؟ ایک معاشرہ یا قوم کا حالات سے محض اظہار ناراضی ؟ نہیں ،بلکہ اس کیلئے نشان منزل کا ہونا بھی لازم ہے۔ وگرنہ بروئے کار آتی ہوئی حرارت خود اپنے ہی وجود کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے۔ خانہ جنگی اور انقلاب میں یہی ایک فرق ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انقلاب اپنی قیادت خود پیدا کرتے ہیں۔شکوک و شبہات کی فضا اس قدر دبیز ہے کہ انتہائی دگرگوں حالت میں بھی قوم کا کسی ایک فرد پر متفق ہو جانا ممکن نہیں رہا۔ تو کیا رہنما کے انتظار میں ہماری آنکھیں پتھرا جائیں گی ؟ اور ہم ایسے شہ سوار کا انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے جو گردو غبار میں سے اچانک نمودار ہو اور قوم کا محبوب قائد بن جائے؟یہ ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں کیوں نہ رہنمائی کیلئے کوئی اور انتظام یا طریقہ اختیار کیا جائے ؟ کہ فی الحال رہنما نہ سہی ، مگر راہنمائی تو میسر آ جائے۔
سوال یہ ہے کہ فوری طور پر رہنمائی کیوں لازم ہے ؟ اس لئے کہ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ہمالیہ پہاڑ جیسی بڑی تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں ۔اگر ہم نے سنبھال کر حالات کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تو ترقی اور روشن مستقبل ہمارا منتظر ہو گا بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
موجودہ قیادتوں کا معاملہ بہت واضح ہے کہ انہیں کوئی ادارک ہی نہیں۔ یہ اپنے مفاد سے آگ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ بھیڑیا اپنی کھال بدل سکتا ہے مگر یہ اپنے اطوار نہیں بدل سکتے لہٰذا فیصلہ قوم کو کرنا ہے، زندگی اور موت کا سوال قوم کو درپیش ہے۔موجودہ قیادت کا یہ ایشو ہی نہیں۔ اگر قوم بیدار ہے اور اس حالت سے نکلنے کی خواہش رکھتی ہے تو اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا امریکی اتحادی ہونے کے ناتے اس کی شکست ہماری بھی شکست ہو گی ؟
"The Question is to be or not to be -"
پاکستان میں صرف اندرونی حالت ہی دلخراش اور دگرگوں منظر پیش نہیں کر رہے بلکہ بیرونی طور پر بھی چاروں طرف تاریخی تبدیلیوں کا نیا سماں بندھتا دکھائی دے رہا ہے۔ مغربی سرحد پر تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہونے کو ہے ؟ امریکی افغانستان میں شکست کھا چکے اور اگلے برس ان کی واپسی شروع ہو جائے گی ۔ اس کے اثرات پاکستان پر کیا ہوں گے ؟ اور انہیں کتنے عرصے میں ،کس طرح سنبھالا جا سکتا ہے، یہ الگ بحث ہے۔ دوسری طرف کشمیر تحریک آزادی زوروں پر ہے اور بھارت کی سانسیں اکھڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ خود بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے اپنی حکومت سے التجا کی ہے کہ کشمیر کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔
بھارت کو ایک اور طوفان کا سامنا ہے۔ ایک ایسی سیاسی صورتحال جس میں قریباً 20فیصد بھارت نیکسلائٹ اور ماؤ نواز باغیوں کے قبضہ میں ہے۔ ہم اپنے قبائلی علاقوں کا رونا روتے ہیں مگر بھارت میں ریڈ کارویڈر“ (Red Corridor)کے نام سے ایک وسیع علاقہ اتر کھنڈ سے اڑسہ اور نکسل باڑی سے کیرالہ تک باغیوں کے قبضے میں ہے۔ گزشتہ برس ”ریڈ کاریڈور“(Red Corridor)میں12سو سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ خود بھارتی میڈیا تسلیم کرتا ہے کہ بھارتی یونین کے 608/اضلاع میں سے167باغیوں کے قبضے میں ہیں اور بعض رپورٹس کے مطابق اس سے بھی زیادہ کل14ہزار تھانوں میں سے2ہزار سے زائد پر باغیوں کا کنٹرول ہے اور وہاں ان کا حکم چلتا ہے۔ اس لئے شائن (Shinning)انڈیا اور فیل گڈ (feel Good)انڈیا کے نعروں سے متاثرہ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہاں بھی کیسے کیسے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ بظاہر مستحکم دکھائی دیتا بھارت تاریخ کے گرداب کی لپیٹ میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ تیسری جانب امریکہ اور اسرائیل ایران پر نظر جمائے اور دانت گاڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایران کے خلاف مہم جوئی کے اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا
تاریخ ایک بہت بڑی کروٹ لے رہی ہے۔ ان لمحات میں ہمیں موقع مل رہا ہے کہ خدشات کو امکانات میں بدل ڈالیں اور اندھیروں سے نکل کر روشنیوں کی طرف سفر شروع کریں۔پاکستان کے چہار طرف جو صورتحال جاری ہے یہ دراصل نظاموں کی کشمکش ہے ۔ایک نظام ڈوب رہا ہے دوسرے کو ابھرنا ہے خوش قسمتی سے پاکستان کی تخلیق کے جوہر میں اس نئے نظام کی نوید پنہاں ہے بشرطیکہ ہمیں کوئی قیادت میسر ہو اور ہم حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی انقلابی منزل کی جانب قدم بڑھا سکیں۔
حالات کا تقاضا ہے کہ گزشتہ 63برس سے جس فرسودہ نظام کا بوجھ اٹھائے ہم اپنا قومی سفر جاری رکھنے پر مجبور ہیں اس متعفن لاش کو اب دفن کر ہی دیا جائے۔ میں عرصہ دراز سے ”نرم انقلاب“ کا داعی رہا ہوں اور باوجود معروضی حالات کے، آج بھی کہتا ہوں کہ ایک ایسا انقلاب بپا کرنا نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ ضروری ہو چکا ہے اس کیلئے عوامی فکر بیدار ہے۔
"No body is wiser the victim"پھر ہمارے عوام تو اس قدر متاثر شدہ ہے کہ شاید و بائد ۔ البتہ وہ خونریزی جس کا خوف آہستہ آہستہ دماغوں پر غبار بن کر چھا رہا ہے اس سے اجتناب بہت ضروری ہے کیونکہ ایسے انقلاب کی صورت میں غریب عوام ہی سب سے زیادہ شکار ہوا کرتے ہیں اور معاشرہ طویل عرصہ تک سنبھل نہیں پاتا جبکہ صاحب ثروت لوگ جنہوں نے اپنے ٹھکانے اور آشیانے پہلے ہی بیرون ملک بنا رکھے ہیں وہ قوم کو بلبلاتا چھوڑ کر اپنے آقاؤں کے سایہ عاطفت میں چلے جائیں گے۔انقلاب کیا ہوتا ہے ؟ ایک معاشرہ یا قوم کا حالات سے محض اظہار ناراضی ؟ نہیں ،بلکہ اس کیلئے نشان منزل کا ہونا بھی لازم ہے۔ وگرنہ بروئے کار آتی ہوئی حرارت خود اپنے ہی وجود کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے۔ خانہ جنگی اور انقلاب میں یہی ایک فرق ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انقلاب اپنی قیادت خود پیدا کرتے ہیں۔شکوک و شبہات کی فضا اس قدر دبیز ہے کہ انتہائی دگرگوں حالت میں بھی قوم کا کسی ایک فرد پر متفق ہو جانا ممکن نہیں رہا۔ تو کیا رہنما کے انتظار میں ہماری آنکھیں پتھرا جائیں گی ؟ اور ہم ایسے شہ سوار کا انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے جو گردو غبار میں سے اچانک نمودار ہو اور قوم کا محبوب قائد بن جائے؟یہ ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں کیوں نہ رہنمائی کیلئے کوئی اور انتظام یا طریقہ اختیار کیا جائے ؟ کہ فی الحال رہنما نہ سہی ، مگر راہنمائی تو میسر آ جائے۔
سوال یہ ہے کہ فوری طور پر رہنمائی کیوں لازم ہے ؟ اس لئے کہ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ہمالیہ پہاڑ جیسی بڑی تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں ۔اگر ہم نے سنبھال کر حالات کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تو ترقی اور روشن مستقبل ہمارا منتظر ہو گا بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
موجودہ قیادتوں کا معاملہ بہت واضح ہے کہ انہیں کوئی ادارک ہی نہیں۔ یہ اپنے مفاد سے آگ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ بھیڑیا اپنی کھال بدل سکتا ہے مگر یہ اپنے اطوار نہیں بدل سکتے لہٰذا فیصلہ قوم کو کرنا ہے، زندگی اور موت کا سوال قوم کو درپیش ہے۔موجودہ قیادت کا یہ ایشو ہی نہیں۔ اگر قوم بیدار ہے اور اس حالت سے نکلنے کی خواہش رکھتی ہے تو اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا امریکی اتحادی ہونے کے ناتے اس کی شکست ہماری بھی شکست ہو گی ؟
"Come out into the street and vote with your feet"قوم کی یہ اجتماعی گلدستہ قیادت جب اپنا ہوم ورک مکمل کر لے گی تو انشاء اللہ رب کریم قیادت بھی عطا کر دیں گے۔ کیونکہ قیادت تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتی ہے۔ اور اللہ انعام اسی وقت عطا کرتا ہے جب وہ سکی قوم پر مہربان ہو۔ قوم جب آزادی کیلئے تیار ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کی قیادت عطا کر دی۔ ایرانی قوم انقلاب پر آمادہ ہوئی تو انہیں خمینی کی قیادت مل گئی ۔آج ترک قوم تبدیلی پر آمادہ ہوئی تو اسے طیب اردگان جیسا لیڈر مل گیا جس نے صدیوں کا سفرمہینوں میں طے کیا اور قوم کونرم انقلاب کی جانب رواں کر دیا ۔ اس طرح اگر ہم ایک راستہ کا تعین کر لیں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں بھی قیادت سے نواز دے گا ۔حالات اتنی سرعت سے بدل رہے ہیں کہ عالمی استعمار کے پاس بھی کوئی روڈ میپ موجود نہیں جس سے وہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکے تو دوسری طرف وہ اس بات سے بھی خائف ہے کہ پاکستان میں انقلاب آنے کو ہے۔ وہ انقلاب اسلامی بھی ہو گا اور اینٹی امریکی بھی۔ یوں حقیقت موجود اور حقیقت منتظر کے امتزاج سے ایسا چیلنج سامنے آ رہا ہے جس سے ہماری قیادتیں عہدہ برآہ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔اس لئے ضروری ہے کہ قوم اس کیلئے سبیل نکالے۔ ورنہ استعماری قوتیں ہمیں دوبارہ جال میں پھنسا کر Status Quoکو برقرار رکھنے کے لئے تگ ودو کریں گی اقبال نے شاید ایسے ہی لمحہ کے بارے میں کہا تھا۔
نیند سے بیدار ہوتا ہے کبھی محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
البتہ ان کا یہ سحر اس بار استعمال نہیں ہو سکتا۔ فوج کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ اگر خدانخواستہ فوج اور عوام میں آمنا سامنا ہو گیا تو بہت نقصان ہو گا کیونکہ فوج کے Rank and fileکا تعلق بھی انہی متاثرہ اور محروم طبقات سے ہوتا ہے جن کو دبانے کے لئے استعمار فوج کوTrapکر رہا ہے۔ یاد رہنا چاہئے کہ فوج اور عوام کا آخری بار آمنا سامنا جولائی1977میں لاہور میں ہوا تھا۔ جب فوج نے 556گولیاں چلائیں اور صرف پانچ افراد زخمی ہوئے، یعنی فوج نے عملاً حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ فوج کو شوٹ ٹوکل کاحکم ہوتا ہے۔ اسی دن چار بریگیڈیر حضرات نے استعفیٰ پیش کر دیئے تھے۔ اسلئے فوج کو آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ وہ لوگ جو چور دروازوں سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہونا چاہتے ہیں اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی باتیں کی جا رہی ہیں، ان سے سوال ہے کہ کیا یہ فیصلہ ہو چکا کہ قوم کو ووٹ کی طاقت سے محروم (Disenfranchise)کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اور یہ فیصلہ کس نےکیا؟
بشکریہ روزنامہ نواۓ وقت شمارہ 1ستمبر 2 ستمبر
2010
متاع ِ دین و دانش لٹ گئی : عامرہ احسان
ویڈیو سوات کی تحقیق، سوات اجاڑنے کے بعد سامنے آگئی ہے تو ذرائع ابلاغ نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر بتاتی ہے کہ ایمان کا یہ سودا اسلام آباد کی ایک این جی او نے چکایا۔ پانچ لاکھ روپے کے عوض یہ ویڈیو تیار ہوئی۔ بیچنے اور سودا کرنیوالے مسلمان ہی ہیں۔ اب پیچھے پلٹ کر ذرا دیکھئے۔ اگر قرآن پڑھا ہوتا تو یہ تاکید بھی سامنے آئی ہوتی۔ ’’تھوڑی قیمت پر میری آیات کو بیچ نہ ڈالو‘‘(البقرہ 41) یہ بھی جانا ہوتا۔ ’’انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سدِراہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت بُرے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے‘‘ (توبہ۔9) اور یہ بھی کہ ’’تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (التوبہ۔28)
وہ 5 لاکھ میں جس نے سوات کا سودا چکایا وہ یقینا پیسہ اب تک ختم ہو چکا ہوگا۔ لڑکی نے اداکاری کے عوض ایک لاکھ لیا وہ بھی خرچ ہوگیا ہوگا۔ طالبان بن کر کوڑے مارنے کے پچاس، پچاس ہزار بھی کتنے دن چل سکتے ہیں۔ گناہ کی لذت ختم ہو جاتی ہے عذاب باقی رہتا ہے۔ نیکی کی تکلیف بھی بہت جلد دور ہوجاتی ہے اجرغیرممنون باقی رہتا ہے۔ لیکن آج کا پاکستان صلیبی جنگ لڑرہا ہے اسلئے گناہ ثواب، عذاب، حساب کتاب کے پیرائے میں بات کرنا صحافتی، ابلاغی (NORMS) چلن کیخلاف ہے۔ چلئے دنیاوی اخلاقی پیمانوں پر بھی پرکھ کر دیکھیں تو اتنے بڑے جھوٹ پر طوفان کھڑے کرنیوالوںکو اب کم از کم سیکولر اخلاق کے تحت بھی قوم سے معافی تو مانگنی چاہئے۔ وہ جو اینکر پرسنز چلا چلا کر علمائ، شریعت، حدود اللہ پر (عباذاً باللہ) گرجتی برستی رہیں وہ دنیا داری کے تقاضے ہی پر سہی…معذرت تو کریں۔ عنداللہ تو یہ پورا رویہ نواقض اسلام میں سے ہے۔ لیکن جس قوم کا ایک بہت بڑا حصہ نواقض وضو اور نواقض صلوٰۃ بھی نہ جانتا ہو۔ تمام ارکان دین کے بغیر بھی مسلمان ہی ہوتو ایسی اندھیر نگری اور ’’دستی‘‘ علم کے ساتھ کسی سے کیا توقع رکھنی!
صلیبی جنگ کے ہاتھوں اسلام دشمنی کے تحت جو کچھ پوری دنیا میں امریکہ یورپ نے غدر مچا رکھا ہے دیکھ لیجئے کہ کس بے حیا تسلسل کیساتھ وہ ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت شعائر اسلامی کو ایک ایک کرکے ہدف بنائے ہوئے ہیں۔توہین قرآن و رسالت کا لامنتہاہی سلسلہ پوری دنیا میں جاری و ساری ہے اور یہ اس صلیبی جنگ ہی کا حتمی حصہ ہے۔ یہ جنگ عسکری اور نظریاتی سطح پر مسلسل جاری ہے۔ عسکری ناکامیوں پر جھلا کر وہ نظریاتی سطح پر خبث باطن کے اظہار میں بد سے بدترین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ برطانیہ میںدہشت گردی کے جھوٹے الزام کے تحت زیر حراست رکھے جانیوالے نوجوان کا حالیہ انٹرویو کتوں کے ذریعے سیل کی تلاشی لئے جانے کے واقعے پر روشنی ڈالتا ہے۔ فاٹا کے ان نوجوانوں کے ایمان اور حیا کو کس طرح کچوکے دیئے گئے۔ قید کی حالت میں دن میں دومرتبہ برہنہ تلاشی کا کیا جواز تھا سوائے مسلمان کی تذلیل اور اسکی حیا کو کچوکے دینے کے؟ کتوں کے ذریعے سیل میں قرآن پاک اور جائے نماز تک کی تلاشی لینے کی کیا توجیہ تھی سوائے مسلمانوں کی قرآن دوستی کڑی آزمائش میں ڈالنے کے؟ کون سا اخلاق، کون سے انسانی حقوق قرآن پاک کے تقدس کی پامالی کو روا قرار دے سکتے ہیں؟ مغرب غنڈہ گردی کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ ہر مسلمان کے اندر ایمان کی رمق تلاش کرکے اسے سزا دینے کے یہ سارے سامان ہیں۔ اللہ بھی امتحان لے رہا ہے اور دنیائے کفر بھی۔ دونوں ہی کو اپنے مطلب کے بندے چھانٹنے ہیں تآنکہ ملحمۃ الکبریٰ کیلئے ایمان کا وہ لشکر تیار ہو جس میں کفر کا شائبہ تک نہ ہو اور کفر کا وہ دجالی لشکر تیار ہو جس میں ایمان کی رمق باقی نہ رہے…کیونکہ ’’یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے‘‘ (الحج۔19)
اور یہ کہ ’’بعض لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر گردن اکڑائے ہوئے، خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں‘‘ (الحج۔7)۔ اس جنگ کو سمجھئے۔ یہ سیاسی جنگ نہیں ہے۔ ورنہ اسکے مباحث اور حوادث میں قرآن، رسول اللہ، حجاب، داڑھی، مساجد کے مینار جزو لاینفک نہ ہوتے۔ شعائر اسلامی، حدود اللہ کو یوں تختۂ مشق نہ بنایاجاتا۔ اس صلیبی جنگ سے پاکستان کا ناطہ توڑنا اس ملک کے ہر فرد کیلئے کوئی معاشی یا سیاسی مصلحتوں کا تقاضا نہیں ہے۔ یہ ہماری دنیا و آخرت کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے دین و ایمان کا سوال ہے۔ یہ ہمارے کلمے کا تقاضا ہے۔ یہ ٹھیٹھ دو قومی نظریے کا سوال ہے جس کی خاطر ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ عصمتیں لٹوائیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر کفر کے اخبارات توہین رسالت سے اپنے صفحات اور نامۂ اعمال سیاہ کرسکتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اخبارات۔ فداک ابی وامیکہہ کر نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں کی گئی گستاخی کا بدلہ کم از کم زبان و قلم سے تو دیں۔ بہ نسبت 5 لاکھ روپے میں حدود اللہ سے کھیل کر ایمان تباہ کرنیوالوں کی مہم کا حصہ بننے کے۔کراچی میں ہونیوالے حالیہ واقعہ پر بھی کماحقہ ’’احتجاج‘‘ اعتراض نہیں کیا گیا۔ جلیٹ بلیڈ کی طرف سے ایک دن میں 2500 داڑھیاں صاف کرکے ورلڈ ریکارڈ بنانے کی جسارت اسی مذموم کھیل کا ایک حصہ ہے۔ داڑھی ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی سنت ہے۔ شعائر اسلام میں سے ہے۔ توہین قرآن و رسالت حجاب کے بعد اب اسکی باری تھی۔ سندھ حکومت نے اسکی اجازت دینے میں لاپرواہی کا ثبوت دیا۔ بحمدللہ اہل ایمان کے بھرپور احتجاج نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا لیکن کمپنی کی دیدہ دلیری دیدنی ہے۔ اس واقعہ کو یونہی کھیل تماشا سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ان سے کہو تمہاری ہستی دل لگی اللہ اور اسکی آیات اور اسکے رسول ہی کیساتھ تھی‘‘(التوبہ 65-66)ایسی ہنسی دل لگی کو اللہ نے اس آیت میں کفر سے تعبیر کیا ہے۔ داڑھی کیساتھ اس کھیل پر ہی بس نہیں ہے۔ حجاب، ملکِ خداداد پاکستان میں بھی زد پر ہے۔ عالمی کفر یہ ایجنڈوں کے تحت سکولوں، کالجوں و دیگر مقامات پراسے مسلسل تضحیک، اہانت کا ہدف بنایاجارہا ہے۔ یوں تو سکارف آنکھ میں خار بن کر کھٹکتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن پرمسلسل ’’آل ویز‘‘ کے بے حیا اشتہار میں سکارف اوڑھی لڑکیاں دکھا کر احکامِ قرآنی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے؟ مسلمان چینلز حیاسوز، ایمان سوز اشتہارات سے پیسہ بنانے میں تکلیف محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کا واضح حکم ہے شعائراللہ کے حوالے سے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو۔‘‘ (المائدہ۔2) اور یہ کہ:’’جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقوے سے ہے‘‘ (الحج۔32)
کفر کی ملٹی نیشنلز کا مذاق ہم مسلمانوں ہی سے ہے؟ یہ آل ویز کے اشتہار کا مذاق عیسائی راہبہ سے تو نہیں کرینگے۔ یہ داڑھی مونڈنے کا ریکارڈ سکھوں سے تو نہیں کروائیںگے۔ لاکر دکھائیں 2500 سکھ جو ایک دن میں اپنے دھرم کے شعائر سے دست بردار ہو نے کو تیار ہوں! بس واضح ہے کہ یہ صلیبی جنگ ہی کے اجزاء ہیں جس پر ہم نے بند نہ باندھے، راستہ نہ روکا تو دائو پر صرف ایمان نہیں پاکستان بھی لگے گا۔ پاکستان گورے کی عطا یا انعام نہیں تھا۔ رمضان کی ستائیسویں شب وجود میں آنیوالا وہ معجزہ تھا جس پر یہود و ہنود دانت پیستے رہ گئے۔
ضمناً یہ بھی عرض ہے کہ حیلے بہانے سے ’’پختون خواہ‘‘ نام کی منظوری ہوگئی! اب پختونوں سے محبت کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے ان کیخلاف جاری جنگ روک دی جائے گی؟ یا محبت بھرے میزائل اور گولے برستے ہی رہینگے؟ خانہ جنگی میں مبتلا ’’پانی کا پیاسا‘‘ بجلی کا ترسایا، گیس پٹرول کی قیمتوں کے ڈسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہوگیا! یہ نام بدلنا یوں بھی ضروری تھا کہ وہ جو ہماری ایمان سے مالا مال (الاماشاء اللہ) سرحد تھی جو ہمارا بازوئے شمشیر زن تھا جو کفر کے سینے پر ایمانی غیرت سے لبریز مونگ دلنے والی آبادی تھی اسے عصبیت کے گھونٹ پلا کر شاید ایمان سے باز رکھا جاسکے!ملک و قوم کیلئے ہماری ترجیحات بھی اس طویل جھگڑے سے واضح ہوتی ہیں۔ تریسٹھ سال کی عمر میں پاکستان کے جس علاقے کا اولین مسئلہ امن کی بحالی، گھروں کی آبادی اور امریکہ کے حملہ آور ڈرون طیاروں سے خلاصی ہے کیا اسے ہم نیا نام دیکر اسکے مسئلے حل کر رہے ہیں؟ اب پختون خواہ میزائل ہونگے ان سے محبتوں کے پھول نچھاور ہونگے۔ ذرا انتظار فرمایئے! یہ نام پاکستان کی نظریاتی شناخت پر ایک دھبہ ہے۔ اے این پی نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بنائے رکھا۔ آبادیاں آپریشن در آپریشن تباہ حال کرکے نام پر جشن منانے سے انکی پختون خواہی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ عصبیت کا پنڈورہ بکس کھول کر اس پر بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کو کمزور کرنے ہی کی یہ سازش تھی جس میں بدنصیبی سے مسلم لیگ (ن) نے اپنا حصہ ڈالا
ویڈیو سوات کی تحقیق، سوات اجاڑنے کے بعد سامنے آگئی ہے تو ذرائع ابلاغ نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر بتاتی ہے کہ ایمان کا یہ سودا اسلام آباد کی ایک این جی او نے چکایا۔ پانچ لاکھ روپے کے عوض یہ ویڈیو تیار ہوئی۔ بیچنے اور سودا کرنیوالے مسلمان ہی ہیں۔ اب پیچھے پلٹ کر ذرا دیکھئے۔ اگر قرآن پڑھا ہوتا تو یہ تاکید بھی سامنے آئی ہوتی۔ ’’تھوڑی قیمت پر میری آیات کو بیچ نہ ڈالو‘‘(البقرہ 41) یہ بھی جانا ہوتا۔ ’’انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سدِراہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت بُرے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے‘‘ (توبہ۔9) اور یہ بھی کہ ’’تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (التوبہ۔28)وہ 5 لاکھ میں جس نے سوات کا سودا چکایا وہ یقینا پیسہ اب تک ختم ہو چکا ہوگا۔ لڑکی نے اداکاری کے عوض ایک لاکھ لیا وہ بھی خرچ ہوگیا ہوگا۔ طالبان بن کر کوڑے مارنے کے پچاس، پچاس ہزار بھی کتنے دن چل سکتے ہیں۔ گناہ کی لذت ختم ہو جاتی ہے عذاب باقی رہتا ہے۔ نیکی کی تکلیف بھی بہت جلد دور ہوجاتی ہے اجرغیرممنون باقی رہتا ہے۔ لیکن آج کا پاکستان صلیبی جنگ لڑرہا ہے اسلئے گناہ ثواب، عذاب، حساب کتاب کے پیرائے میں بات کرنا صحافتی، ابلاغی (NORMS) چلن کیخلاف ہے۔ چلئے دنیاوی اخلاقی پیمانوں پر بھی پرکھ کر دیکھیں تو اتنے بڑے جھوٹ پر طوفان کھڑے کرنیوالوںکو اب کم از کم سیکولر اخلاق کے تحت بھی قوم سے معافی تو مانگنی چاہئے۔ وہ جو اینکر پرسنز چلا چلا کر علمائ، شریعت، حدود اللہ پر (عباذاً باللہ) گرجتی برستی رہیں وہ دنیا داری کے تقاضے ہی پر سہی…معذرت تو کریں۔ عنداللہ تو یہ پورا رویہ نواقض اسلام میں سے ہے۔ لیکن جس قوم کا ایک بہت بڑا حصہ نواقض وضو اور نواقض صلوٰۃ بھی نہ جانتا ہو۔ تمام ارکان دین کے بغیر بھی مسلمان ہی ہوتو ایسی اندھیر نگری اور ’’دستی‘‘ علم کے ساتھ کسی سے کیا توقع رکھنی!صلیبی جنگ کے ہاتھوں اسلام دشمنی کے تحت جو کچھ پوری دنیا میں امریکہ یورپ نے غدر مچا رکھا ہے دیکھ لیجئے کہ کس بے حیا تسلسل کیساتھ وہ ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت شعائر اسلامی کو ایک ایک کرکے ہدف بنائے ہوئے ہیں۔توہین قرآن و رسالت کا لامنتہاہی سلسلہ پوری دنیا میں جاری و ساری ہے اور یہ اس صلیبی جنگ ہی کا حتمی حصہ ہے۔ یہ جنگ عسکری اور نظریاتی سطح پر مسلسل جاری ہے۔ عسکری ناکامیوں پر جھلا کر وہ نظریاتی سطح پر خبث باطن کے اظہار میں بد سے بدترین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ برطانیہ میںدہشت گردی کے جھوٹے الزام کے تحت زیر حراست رکھے جانیوالے نوجوان کا حالیہ انٹرویو کتوں کے ذریعے سیل کی تلاشی لئے جانے کے واقعے پر روشنی ڈالتا ہے۔ فاٹا کے ان نوجوانوں کے ایمان اور حیا کو کس طرح کچوکے دیئے گئے۔ قید کی حالت میں دن میں دومرتبہ برہنہ تلاشی کا کیا جواز تھا سوائے مسلمان کی تذلیل اور اسکی حیا کو کچوکے دینے کے؟ کتوں کے ذریعے سیل میں قرآن پاک اور جائے نماز تک کی تلاشی لینے کی کیا توجیہ تھی سوائے مسلمانوں کی قرآن دوستی کڑی آزمائش میں ڈالنے کے؟ کون سا اخلاق، کون سے انسانی حقوق قرآن پاک کے تقدس کی پامالی کو روا قرار دے سکتے ہیں؟ مغرب غنڈہ گردی کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ ہر مسلمان کے اندر ایمان کی رمق تلاش کرکے اسے سزا دینے کے یہ سارے سامان ہیں۔ اللہ بھی امتحان لے رہا ہے اور دنیائے کفر بھی۔ دونوں ہی کو اپنے مطلب کے بندے چھانٹنے ہیں تآنکہ ملحمۃ الکبریٰ کیلئے ایمان کا وہ لشکر تیار ہو جس میں کفر کا شائبہ تک نہ ہو اور کفر کا وہ دجالی لشکر تیار ہو جس میں ایمان کی رمق باقی نہ رہے…کیونکہ ’’یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے‘‘ (الحج۔19) اور یہ کہ ’’بعض لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر گردن اکڑائے ہوئے، خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں‘‘ (الحج۔7)۔ اس جنگ کو سمجھئے۔ یہ سیاسی جنگ نہیں ہے۔ ورنہ اسکے مباحث اور حوادث میں قرآن، رسول اللہ، حجاب، داڑھی، مساجد کے مینار جزو لاینفک نہ ہوتے۔ شعائر اسلامی، حدود اللہ کو یوں تختۂ مشق نہ بنایاجاتا۔ اس صلیبی جنگ سے پاکستان کا ناطہ توڑنا اس ملک کے ہر فرد کیلئے کوئی معاشی یا سیاسی مصلحتوں کا تقاضا نہیں ہے۔ یہ ہماری دنیا و آخرت کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے دین و ایمان کا سوال ہے۔ یہ ہمارے کلمے کا تقاضا ہے۔ یہ ٹھیٹھ دو قومی نظریے کا سوال ہے جس کی خاطر ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ عصمتیں لٹوائیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر کفر کے اخبارات توہین رسالت سے اپنے صفحات اور نامۂ اعمال سیاہ کرسکتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اخبارات۔ فداک ابی وامیکہہ کر نبیﷺ کی شانِ اقدس میں کی گئی گستاخی کا بدلہ کم از کم زبان و قلم سے تو دیں۔ بہ نسبت 5 لاکھ روپے میں حدود اللہ سے کھیل کر ایمان تباہ کرنیوالوں کی مہم کا حصہ بننے کے۔کراچی میں ہونیوالے حالیہ واقعہ پر بھی کماحقہ ’’احتجاج‘‘ اعتراض نہیں کیا گیا۔ جلیٹ بلیڈ کی طرف سے ایک دن میں 2500 داڑھیاں صاف کرکے ورلڈ ریکارڈ بنانے کی جسارت اسی مذموم کھیل کا ایک حصہ ہے۔ داڑھی ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی سنت ہے۔ شعائر اسلام میں سے ہے۔ توہین قرآن و رسالت حجاب کے بعد اب اسکی باری تھی۔ سندھ حکومت نے اسکی اجازت دینے میں لاپرواہی کا ثبوت دیا۔ بحمدللہ اہل ایمان کے بھرپور احتجاج نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا لیکن کمپنی کی دیدہ دلیری دیدنی ہے۔ اس واقعہ کو یونہی کھیل تماشا سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ان سے کہو تمہاری ہستی دل لگی اللہ اور اسکی آیات اور اسکے رسول ہی کیساتھ تھی‘‘(التوبہ 65-66)ایسی ہنسی دل لگی کو اللہ نے اس آیت میں کفر سے تعبیر کیا ہے۔ داڑھی کیساتھ اس کھیل پر ہی بس نہیں ہے۔ حجاب، ملکِ خداداد پاکستان میں بھی زد پر ہے۔ عالمی کفر یہ ایجنڈوں کے تحت سکولوں، کالجوں و دیگر مقامات پراسے مسلسل تضحیک، اہانت کا ہدف بنایاجارہا ہے۔ یوں تو سکارف آنکھ میں خار بن کر کھٹکتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن پرمسلسل ’’آل ویز‘‘ کے بے حیا اشتہار میں سکارف اوڑھی لڑکیاں دکھا کر احکامِ قرآنی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے؟ مسلمان چینلز حیاسوز، ایمان سوز اشتہارات سے پیسہ بنانے میں تکلیف محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کا واضح حکم ہے شعائراللہ کے حوالے سے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو۔‘‘ (المائدہ۔2) اور یہ کہ:’’جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقوے سے ہے‘‘ (الحج۔32)کفر کی ملٹی نیشنلز کا مذاق ہم مسلمانوں ہی سے ہے؟ یہ آل ویز کے اشتہار کا مذاق عیسائی راہبہ سے تو نہیں کرینگے۔ یہ داڑھی مونڈنے کا ریکارڈ سکھوں سے تو نہیں کروائیںگے۔ لاکر دکھائیں 2500 سکھ جو ایک دن میں اپنے دھرم کے شعائر سے دست بردار ہو نے کو تیار ہوں! بس واضح ہے کہ یہ صلیبی جنگ ہی کے اجزاء ہیں جس پر ہم نے بند نہ باندھے، راستہ نہ روکا تو دائو پر صرف ایمان نہیں پاکستان بھی لگے گا۔ پاکستان گورے کی عطا یا انعام نہیں تھا۔ رمضان کی ستائیسویں شب وجود میں آنیوالا وہ معجزہ تھا جس پر یہود و ہنود دانت پیستے رہ گئے۔ضمناً یہ بھی عرض ہے کہ حیلے بہانے سے ’’پختون خواہ‘‘ نام کی منظوری ہوگئی! اب پختونوں سے محبت کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے ان کیخلاف جاری جنگ روک دی جائے گی؟ یا محبت بھرے میزائل اور گولے برستے ہی رہینگے؟ خانہ جنگی میں مبتلا ’’پانی کا پیاسا‘‘ بجلی کا ترسایا، گیس پٹرول کی قیمتوں کے ڈسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہوگیا! یہ نام بدلنا یوں بھی ضروری تھا کہ وہ جو ہماری ایمان سے مالا مال (الاماشاء اللہ) سرحد تھی جو ہمارا بازوئے شمشیر زن تھا جو کفر کے سینے پر ایمانی غیرت سے لبریز مونگ دلنے والی آبادی تھی اسے عصبیت کے گھونٹ پلا کر شاید ایمان سے باز رکھا جاسکے!ملک و قوم کیلئے ہماری ترجیحات بھی اس طویل جھگڑے سے واضح ہوتی ہیں۔ تریسٹھ سال کی عمر میں پاکستان کے جس علاقے کا اولین مسئلہ امن کی بحالی، گھروں کی آبادی اور امریکہ کے حملہ آور ڈرون طیاروں سے خلاصی ہے کیا اسے ہم نیا نام دیکر اسکے مسئلے حل کر رہے ہیں؟ اب پختون خواہ میزائل ہونگے ان سے محبتوں کے پھول نچھاور ہونگے۔ ذرا انتظار فرمایئے! یہ نام پاکستان کی نظریاتی شناخت پر ایک دھبہ ہے۔ اے این پی نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بنائے رکھا۔ آبادیاں آپریشن در آپریشن تباہ حال کرکے نام پر جشن منانے سے انکی پختون خواہی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ عصبیت کا پنڈورہ بکس کھول کر اس پر بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کو کمزور کرنے ہی کی یہ سازش تھی جس میں بدنصیبی سے مسلم لیگ (ن) نے اپنا حصہ ڈالا۔
بشکریہ نواۓ وقت
دہشت گرد کون؟ محمود ایاز
اگر ہم تاریخ کا عمیق نظر سے مطالعہ کریں تو یہ بات ہم پرروزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ قومیں ہمشہ اپنی تاریخ سے پہچانی جاتی ہیں۔ تاریخ نے ہمیشہ قوموں کی شناخت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عالمی دہشت گردی کی اس جنگ میں ہمیں پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گرد ہے کون؟ پاکستان، افغانستان، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، یمن، عراق اور دیگر ممالک میں بھڑکتے ہوئے آگ کے شعلوں سے کون واقف نہیں ہے؟ ان ممالک پر ہونے والے مظالم، درد انگیز داستانیں اور نت نئے ہنگامے، انسان تو انسان، سماء و فلک، جبال و جبل کو بھی لرذا دینے والے ہیں۔ آخر ان شعلوں کو بھڑکانے والا ہے کون؟
جمہوریت اور عالمی آمن کے ٹھیکدار، امریکا کا ماضی دہشت گردی کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے۔ دہشت گردی کی تاریخ بھی انسان کی طرح قدیم ہے، اس کے مناظرمیں تاریخ کے مختلف ادوار دکھائی دیتے ہیں۔ زبردستوں نے زیردستوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کے وسائل پر قبضہ کرکے اپنی سامراجی زہنیت کا مظاہرہ کیا۔ دورِ حاضر میں بھی انہی قوتوں نے دہشت گردی کو ہتھار بنا لیا ہے۔
امریکا نے نام نہاد آمن کی آڑ میں دنیا میں فساد برپا کر رکھا ہے، دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے جوہری بم استعمال کرکے لاکھوں معصوم انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ 6 اگست 1945 کی صبح اینولا گے نامی جی 29 بمبار طیارہ جاپان کی فضاوں میں داخل ہوا اور 2 ہزار فٹ کی بلندی سے لٹل بوا ئے نامی یورنیم گرا کر اپنے نزدیک واپسی اختیار کی۔ 8 بج کر 15 منٹ پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں پر ڈھا ئی جانے والی قیامت کے بارے میں اینولاگے کا پا ئلٹ پاول کہتا ہے ً جب میں نے پیچھے مڑ کر ہیروشیما کی طرف دیکھا تو سارا شہر دھو ئیں کی لپیٹ میں تھا۔ چند لمحوں کے لیے ہم خاموش ہوگئے زہن خالی ہوگئے پھر ساتھی پا ئلٹ چلانے لگا وہ دیکھو وہ دیکھو اوہ میرے خدایا ہم نے کیا کردیا ً
اس سانحہ میں 2 لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ صرف 3 روز گزرنے کے بعد 9 اگست 1945 کو امریکا نے ناگاساکی کے مکینوں کو fat man نامی بم کا شکار بنایا۔ ان دونوں واقعات میں امریکا نے لاکھوں انسانوں کی زندگی چھین لی۔
اس وقت امریکا کے پاس 10 ہزار سے زیادہ ایٹم بم موجود ہیں اور وہ آمن کا علمبردار بن کر ملکوں کو دھمکاتا رہتا ہے اور ان کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے حالانکہ آمریکی تاریخ صرف دہشت گردی کی تاریخ ہے۔ عراق پر اقتصادی پابندیوں کے باعث بچوں کو دودھ اور ادویات کی عدم دستیابی سے 5 لاکھ اموات اور ہزاروں میل دور ویت نام، لاوٴس اور کمبوڈیا میں 32 سال تک بمباری کرنا۔ CIA کے زریعے ایک سازش کے تحت 1962 میں انڈونیشا میں 20 لاکھ انسانوں کا قتل عام ، فلسطیں اور افغانستان میں بمباری کرکے ظلم و ستم کی بھیانک داستانیں رقم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے سویت یونین سمیت دوسرے ممالک کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جو کہ 28 فروری 1946 سے لیکر 25 دسمبر 1991 تک جاری رہا۔ 26 جون 1948 سے 30 ستمبر 1949 تک امریکی فوجیوں نے برلن میں ظلم کا بازار گرم کیا۔ کوریا سے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو امریکی نے 27 جون 1950 سے 27 جولا ئی 1953 تک جارجیت کی پالیسی اپنا ئے رکھی۔
11 اگست 1954 کو تا ئیوان پر حملوں کی ابتدا کی اوریہ سلسلہ 1955 تک جاری رہا۔ نہر سوئیز کے مسلئے پر 26 جولا ئی سے 15 نومبر تک مصر پر حملے کیے۔ 23 اگست 1958 کو تا ئیوان پر پھر حملہ کیا گیا جو یکم جنوری 1959 تک جاری رہا۔ 14 جولا ئی 1960 کو امریکا نے کانگو پر لشکر کشی کی اور یہ سلسلہ یکم اکتوبر 1962 تک جاری رہا۔ جرمنی کے شہر برلن پر امریکا نے دوبارہ حملہ 14 اگست 1961 کو کیا۔ جنوری 1962 میں امریکا نے رینچ ہینڈ آپریشن کے نام سے ویت نام پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ 24 فروری 1965 سے آپریشن رولنگ تھنڈر کے نام سے امریکا نے دلدلی علاقوں میں جنگ لڑی۔ 18 جون 1965 سے اپریل 1970 تک آپریشن آرک لا ئٹ کے زریعے ویت نام کو آمریکی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 6 اپریل 1972 سے 27 جولا ئی 1973 تک امریکا نے آپریشن فریڈم اور آپریشن لا ئن بیکر کے نام سے شمالی ویت پر متعدد حملے کیے۔ ویت نام سے جنگ کے دوران امریکا نے دنیا میں دیگر محاذ بھی کھولے۔ 24 اکتوبر 1962 سے یکم جون 1963 تک کیوبا پر میزائلوں سے حملے کیے گیا۔
اکتوبر 1964 میں چین کی ایٹمی تنصیابات کو نشانہ بنایا گیا۔ ریڈ ڈریگن آپریشن کے نام سے 23 نومبر 1964 سے 27 نومبر 1964 تک کانگو پر حملے کیے گئے۔ 28 اپریل 1965 سے 21 ستمبر 1966 تک پاور پیک آپریشن کے زریعے امریکا نے ڈومینکین ری پبلک پر حملے کیے۔ امریکا نے سکس وار آپریشن کے زریعے 13 مئی سے 10 جون 1967 تک مشرق وسطٰی پر حملے کیے۔ امریکا نے 11 اپریل سے 15 اپریل 1975 تک کمبوڈیا پر ایگل پل کے نام سے آپریشن کیا، ٹری انسیڈنٹ آپریشن کے زریعے کوریا پر 18 سے 21 اگست 1976 تک حملے ہوئے۔ 1978 میں کولوراڈو پر مزاحمت کی گئی، فروری سے 23 مارچ 1978 تک صومالیہ اور ایتھوپیا میں فوجیں اتاری گئیں۔ 6 دسمبر 1978 سے 6 جنوری 1979 تک امریکی فوجیں ایران، یمن اور بحر ہند کے ساحلوں پر گردش کرتی رہیں۔ ڈیزرٹ ون کے نام سے 25 اپریل 1980 کو امریکی فوجیوں نے ایران پر حملہ کیا۔ یکم جنوری 1981 سے یکم فروری 1992 تک امریکا نے ایل سلویڈور اور نکارا گوا پر لشکر کشی کی۔ گلف آف سدرہ آپریشن کے زریعے 18 اگست 1981 کو لیبیا پر فضائی حملے کیے۔
6 اکتوبر 1981 کو آپریشن برائٹ اسٹار کے زریعے مصر پر حملہ ہوا۔ امریکی ملٹی نیشنل فورسز نے لبنان پر 25 اگست 1982 سے یکم دسمبر 1987 تک حملے کیے۔ 18 مارچ 1983 کو اری کال آپریشن کے سوڈان پر حملہ کیا۔ جنٹ فیوری آپریشن کے نام سے 23 اکتوبر سے 21 نومبر 1983 تک گریناڈا پر حملہ ہوئے۔ 26 جنوری 1986 کو لیبیا پر دوبارہ حملہ ہوا اور یہ مارچ تک جاری رہا۔ جولائی 1986 میں بلاسٹ فرینس کے زریعے بولیویا پر حملے کیے گئے۔ 17 اپریل 1988 کو خلیچ فارس پر حملہ ہوا، امریکی فوجوں نے پروموٹ برٹی آپریشن کے نام سے 31 دسمبر 1990 کوپانامہ پر حملہ کیا۔ مئی 1990 کو امریکا نے لائبریا پر حملہ کیا، ڈیزرٹ اسٹارم آپریشن کے زریعے یکم فروری سے 28 فروری 1991 تک عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بے شمار حملے کیے۔ جن میں بڑی تعداد میں عراقی مارے گئے۔ 2 جنوری 1991 کو صومالیہ پر حملہ ہوا، اقوام متحدہ کے زریعے اس پر پابندیاں لگائی گئی، جس کے باعث وہاں کے لوگ بھوکے مرنے لگے، اشیائے ضرورت کی وہاں اس قدر قلت ہوئی کہ صومالیہ غربت کا استعارہ بن گیا۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد تو امریکی خوبصورت چہرے کا نقاب اترگیا۔ ان مشکوک حملوں کے زریعے اس نے افغانستان کے نہتے عوام پر جنگ مسلط کی اور لاکھوں افغانیوں کو جرم بے گناہی کی سزا میں موت کے گھات اتار دیا۔ 20 مارچ 2003 کو عراق کو ایٹمی ہتھیار سے پاک کرنے اور عوام کو صدام حسین کی ٰ آمریت ٰ سے چھٹکارا دلانے کا عزم لیے وہاں آیا اور اب تک وہ 10 لاکھ سے زیادہ عراقیوں کی جانیں لے چکا ہے اور زندہ بچ جانے والوں کو بھوک، افلاس اور مہنگائی کا تحفہ دے چکا ہے۔ اب امریکا کے خونی پنجے پاکستان اور ایران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے ذریعے وہ ایک حد تک اپنا مقصد حاصل کر رہا ہے اور دوسری طرف یہ شوشا چھوڑا جا رہا ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے یا کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ نائن الیون حملوں کے زمہ دار پاکستان میں ہیں۔ یہ سب وہ سفید جھوٹ ہیں جو دوسرے ممالک پر حملوں کے وقت بھی تراشے گئے اور انہیں پھر استعمال کیا جارہا ہے۔
امریکی دہشت گردی کی تاریخ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کو اصل دہشت گرد کون ہے اور کس نے امن کا علمبردار بن کر دنیا کو جنگوں، مسائل اور دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔
امریکا نے نام نہاد آمن کی آڑ میں دنیا میں فساد برپا کر رکھا ہے، دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے جوہری بم استعمال کرکے لاکھوں معصوم انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ 6 اگست 1945 کی صبح اینولا گے نامی جی 29 بمبار طیارہ جاپان کی فضاوں میں داخل ہوا اور 2 ہزار فٹ کی بلندی سے لٹل بوا ئے نامی یورنیم گرا کر اپنے نزدیک واپسی اختیار کی۔ 8 بج کر 15 منٹ پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں پر ڈھا ئی جانے والی قیامت کے بارے میں اینولاگے کا پا ئلٹ پاول کہتا ہے ً جب میں نے پیچھے مڑ کر ہیروشیما کی طرف دیکھا تو سارا شہر دھو ئیں کی لپیٹ میں تھا۔ چند لمحوں کے لیے ہم خاموش ہوگئے زہن خالی ہوگئے پھر ساتھی پا ئلٹ چلانے لگا وہ دیکھو وہ دیکھو اوہ میرے خدایا ہم نے کیا کردیا ً
اس سانحہ میں 2 لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ صرف 3 روز گزرنے کے بعد 9 اگست 1945 کو امریکا نے ناگاساکی کے مکینوں کو fat man نامی بم کا شکار بنایا۔ ان دونوں واقعات میں امریکا نے لاکھوں انسانوں کی زندگی چھین لی۔
اس وقت امریکا کے پاس 10 ہزار سے زیادہ ایٹم بم موجود ہیں اور وہ آمن کا علمبردار بن کر ملکوں کو دھمکاتا رہتا ہے اور ان کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے حالانکہ آمریکی تاریخ صرف دہشت گردی کی تاریخ ہے۔ عراق پر اقتصادی پابندیوں کے باعث بچوں کو دودھ اور ادویات کی عدم دستیابی سے 5 لاکھ اموات اور ہزاروں میل دور ویت نام، لاوٴس اور کمبوڈیا میں 32 سال تک بمباری کرنا۔ CIA کے زریعے ایک سازش کے تحت 1962 میں انڈونیشا میں 20 لاکھ انسانوں کا قتل عام ، فلسطیں اور افغانستان میں بمباری کرکے ظلم و ستم کی بھیانک داستانیں رقم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے سویت یونین سمیت دوسرے ممالک کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جو کہ 28 فروری 1946 سے لیکر 25 دسمبر 1991 تک جاری رہا۔ 26 جون 1948 سے 30 ستمبر 1949 تک امریکی فوجیوں نے برلن میں ظلم کا بازار گرم کیا۔ کوریا سے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو امریکی نے 27 جون 1950 سے 27 جولا ئی 1953 تک جارجیت کی پالیسی اپنا ئے رکھی۔
11 اگست 1954 کو تا ئیوان پر حملوں کی ابتدا کی اوریہ سلسلہ 1955 تک جاری رہا۔ نہر سوئیز کے مسلئے پر 26 جولا ئی سے 15 نومبر تک مصر پر حملے کیے۔ 23 اگست 1958 کو تا ئیوان پر پھر حملہ کیا گیا جو یکم جنوری 1959 تک جاری رہا۔ 14 جولا ئی 1960 کو امریکا نے کانگو پر لشکر کشی کی اور یہ سلسلہ یکم اکتوبر 1962 تک جاری رہا۔ جرمنی کے شہر برلن پر امریکا نے دوبارہ حملہ 14 اگست 1961 کو کیا۔ جنوری 1962 میں امریکا نے رینچ ہینڈ آپریشن کے نام سے ویت نام پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ 24 فروری 1965 سے آپریشن رولنگ تھنڈر کے نام سے امریکا نے دلدلی علاقوں میں جنگ لڑی۔ 18 جون 1965 سے اپریل 1970 تک آپریشن آرک لا ئٹ کے زریعے ویت نام کو آمریکی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 6 اپریل 1972 سے 27 جولا ئی 1973 تک امریکا نے آپریشن فریڈم اور آپریشن لا ئن بیکر کے نام سے شمالی ویت پر متعدد حملے کیے۔ ویت نام سے جنگ کے دوران امریکا نے دنیا میں دیگر محاذ بھی کھولے۔ 24 اکتوبر 1962 سے یکم جون 1963 تک کیوبا پر میزائلوں سے حملے کیے گیا۔
اکتوبر 1964 میں چین کی ایٹمی تنصیابات کو نشانہ بنایا گیا۔ ریڈ ڈریگن آپریشن کے نام سے 23 نومبر 1964 سے 27 نومبر 1964 تک کانگو پر حملے کیے گئے۔ 28 اپریل 1965 سے 21 ستمبر 1966 تک پاور پیک آپریشن کے زریعے امریکا نے ڈومینکین ری پبلک پر حملے کیے۔ امریکا نے سکس وار آپریشن کے زریعے 13 مئی سے 10 جون 1967 تک مشرق وسطٰی پر حملے کیے۔ امریکا نے 11 اپریل سے 15 اپریل 1975 تک کمبوڈیا پر ایگل پل کے نام سے آپریشن کیا، ٹری انسیڈنٹ آپریشن کے زریعے کوریا پر 18 سے 21 اگست 1976 تک حملے ہوئے۔ 1978 میں کولوراڈو پر مزاحمت کی گئی، فروری سے 23 مارچ 1978 تک صومالیہ اور ایتھوپیا میں فوجیں اتاری گئیں۔ 6 دسمبر 1978 سے 6 جنوری 1979 تک امریکی فوجیں ایران، یمن اور بحر ہند کے ساحلوں پر گردش کرتی رہیں۔ ڈیزرٹ ون کے نام سے 25 اپریل 1980 کو امریکی فوجیوں نے ایران پر حملہ کیا۔ یکم جنوری 1981 سے یکم فروری 1992 تک امریکا نے ایل سلویڈور اور نکارا گوا پر لشکر کشی کی۔ گلف آف سدرہ آپریشن کے زریعے 18 اگست 1981 کو لیبیا پر فضائی حملے کیے۔
6 اکتوبر 1981 کو آپریشن برائٹ اسٹار کے زریعے مصر پر حملہ ہوا۔ امریکی ملٹی نیشنل فورسز نے لبنان پر 25 اگست 1982 سے یکم دسمبر 1987 تک حملے کیے۔ 18 مارچ 1983 کو اری کال آپریشن کے سوڈان پر حملہ کیا۔ جنٹ فیوری آپریشن کے نام سے 23 اکتوبر سے 21 نومبر 1983 تک گریناڈا پر حملہ ہوئے۔ 26 جنوری 1986 کو لیبیا پر دوبارہ حملہ ہوا اور یہ مارچ تک جاری رہا۔ جولائی 1986 میں بلاسٹ فرینس کے زریعے بولیویا پر حملے کیے گئے۔ 17 اپریل 1988 کو خلیچ فارس پر حملہ ہوا، امریکی فوجوں نے پروموٹ برٹی آپریشن کے نام سے 31 دسمبر 1990 کوپانامہ پر حملہ کیا۔ مئی 1990 کو امریکا نے لائبریا پر حملہ کیا، ڈیزرٹ اسٹارم آپریشن کے زریعے یکم فروری سے 28 فروری 1991 تک عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بے شمار حملے کیے۔ جن میں بڑی تعداد میں عراقی مارے گئے۔ 2 جنوری 1991 کو صومالیہ پر حملہ ہوا، اقوام متحدہ کے زریعے اس پر پابندیاں لگائی گئی، جس کے باعث وہاں کے لوگ بھوکے مرنے لگے، اشیائے ضرورت کی وہاں اس قدر قلت ہوئی کہ صومالیہ غربت کا استعارہ بن گیا۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد تو امریکی خوبصورت چہرے کا نقاب اترگیا۔ ان مشکوک حملوں کے زریعے اس نے افغانستان کے نہتے عوام پر جنگ مسلط کی اور لاکھوں افغانیوں کو جرم بے گناہی کی سزا میں موت کے گھات اتار دیا۔ 20 مارچ 2003 کو عراق کو ایٹمی ہتھیار سے پاک کرنے اور عوام کو صدام حسین کی ٰ آمریت ٰ سے چھٹکارا دلانے کا عزم لیے وہاں آیا اور اب تک وہ 10 لاکھ سے زیادہ عراقیوں کی جانیں لے چکا ہے اور زندہ بچ جانے والوں کو بھوک، افلاس اور مہنگائی کا تحفہ دے چکا ہے۔ اب امریکا کے خونی پنجے پاکستان اور ایران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے ذریعے وہ ایک حد تک اپنا مقصد حاصل کر رہا ہے اور دوسری طرف یہ شوشا چھوڑا جا رہا ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے یا کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ نائن الیون حملوں کے زمہ دار پاکستان میں ہیں۔ یہ سب وہ سفید جھوٹ ہیں جو دوسرے ممالک پر حملوں کے وقت بھی تراشے گئے اور انہیں پھر استعمال کیا جارہا ہے۔
امریکی دہشت گردی کی تاریخ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کو اصل دہشت گرد کون ہے اور کس نے امن کا علمبردار بن کر دنیا کو جنگوں، مسائل اور دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔
No comments:
Post a Comment