who will give justise?
بلند بانگ دعوے ایک طرف، بیماری وہیں کی وہیں موجود ہے۔ پہلے کہا گیا کہ سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ کردیاگیا اور ہزاروں شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو مار دیاگیا۔ اس ”کامیابی“ کے باوجود نہ صرف مسئلہ وہیں کا وہیں رہا بلکہ دہشت گردی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ پھر کہاجانے لگا کہ اصل مسئلہ بیت اللہ محسود اور وزیرستان میں موجود دہشت گرد اور شدت پسند ہیں جن کے خلاف ملٹری آپریشن کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ بیت اللہ محسود کو ایک میزائل حملے میں مار دیا گیا اور اس کے جانشین حکیم اللہ محسود کو بھی بعدازاں مارنے کے دعوے کئے گئے۔ وزیرستان ملٹری آپریشن کو بھی سوات آپریشن کی طرح کامیابی سے مکمل کرنے کے اعلانات کئے گئے اور سیکڑوں شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو مارنے کے دعوے کئے گئے مگر اس کے باوجود مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے، اگرچہ اکادکا دہشت گردی کے واقعات تو پہلے ہی ہورہے تھے مگر گزشتہ ہفتے لاہور کو دہشت گردی نے ہلا کررکھ دیا۔ صرف جمعہ کے روز دہشت گردی کے پے درپے سات واقعات ہوئے جن میں 9فوجیوں سمیت57 معصوم افراد شہید ہوئے۔ اسی ہفتے سوات مینگورہ کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور کئی افراد کو شہید کردیاگیا۔
تازہ اعدادوشمار کے مطابق 2009ء کے ابتدائی70 دنوں میں خودکش بمباروں کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں2010ء کے پہلے 70دنوں میں کافی اضافہ ہوا۔ ان اعدادوشمار کے مطابق 2010ء کے پہلے 70دنوں میں پاکستان بھر میں15خودکش حملے ہوئے جس کی وجہ سے 321 معصوم جاں بحق ہوئے۔ اس کے مقابلے میں2009ء کے پہلے 70دنوں میں 11خودکش دھماکے کئے گئے جس کے نتیجے میں 105 افراد شہید ہوئے۔ 2009ء کے واقعات سوات اور وزیرستان آپریشن سے پہلے کے ہیں جبکہ 2010ء کے خودکش حملے ان دونوں ”کامیاب“ ملٹری آپریشن کے بعد کی کہانی ہے۔مرض بڑھ گیا باوجود اس کے کہ ملٹری آپریشن سوات اور وزیرستان میں کامیاب ہونے کے دعوے کئے جاتے رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کیا کیا جاتا ہے اور ملٹری آپریشن کیلئے کس علاقے کو چنا جاتا ہے کیونکہ خودکش بمبار ، دہشت گردی اور معصوم عوام کا مرنا ابھی تک نہیں رکا کیونکہ9/11 کے بعد سے یہی کچھ کیا جارہا ہے اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں۔ مرض بڑھتا جارہا ہے مگر اس کی تشخیص کی بجائے ظاہری علامات پر توجہ ہے۔ جسم پر ظاہر ہونے والے پھوڑوں کو کاٹنے سے مرض نہیں جاتا۔ ایک جگہ سے پھوڑا کاٹیں گے تو یہ دوسری جگہ نکل آئے گا۔ آپ پورا جسم کاٹ دیں‘ علاج اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا‘ جب تک کہ آپ مرض کی جڑتک پہنچ کر اس کی تشخیص کرکے اسے دور کرنے کی تدبیرنہ کریں۔ افسوس کہ ہماری موجودہ پالیسی دہشت گردی کے مرض کاعلاج کرنے کی بجائے اس مرض کومزید پھیلانے کاسبب بن رہی ہے۔ بغیرسوچے سمجھے کہ فوج اور پولیس پر کیوں اور کب سے حملے شروع ہوئے۔ خودکش بمبارکہاں سے پیدا ہوگئے۔ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں اور یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا۔ ہمارا سارا زورفوجی آپریشن پر کیوں ہے۔ مرض وہیں کاوہیں۔ شدت پسندی کی وجوہات وہیں کی وہیں۔ ڈرون حملے وہیں کے وہیں۔ امریکہ کی نوکری چاکری ویسی کی ویسی۔ اپنے ہی لوگوں کیخلاف آرمی آپریشن ویسے کے ویسے۔ اب حد تویہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے اندرونی اختلاف کے نتیجے میں بننے والی تحریک اسلامی اور کچھ دوسری اسلامی تنظیمیں جس میں جماعت الدعوة اور حزب التحریر کو اور ان کے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ایک طرف سابق ممبرقومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید پر یہ الزام لگایا گیا کہ ان کادہشت گردوں سے تعلق ہے تو دوسری طرف تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے بزرگ مذہبی اسکالراور سابق ایم این اے عامرہ احسان اور ان کے اسکالرشوہرپروفیسرراجہ احسان پر اندرون ملک ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات کاشبہ کیاجارہا ہے۔ پروفیسرراجہ احسان اور تحریک اسلامی کی ایک اور بزرگ نجمہ خاتون کوایجنسیوں نے اٹھایا اور سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس لینے پر چھوڑا۔ اس خاتون پر اس حد تک تشدد کیا گیا کہ اس کا ایک دانت توڑدیاگیا۔ حزب التحریر کے پڑھے لکھے کئی نوجوانوں کو دہشتگرد کہہ کر پکڑا گیا مگر پولیس اور ایجنسیاں ان کے خلاف عدالت میں کوئی ذرہ برابر بھی ثبوت پیش نہ کر سکے اور سب کے سب کو رہا کر دیا گیا۔ امریکہ ایسے دینی لوگوں کو اگردہشت گردکہے تو سمجھ میں آنیوالی بات ہے مگر اگر ہمارے اپنے ہی جماعت اسلامی ، تحریک اسلامی، حزب التحریر جیسی جماعتوں سے متعلق اس قسم کی باتیں منسوب کریں تو یہ قابل افسوس ہے۔ اپنے حالیہ کالم میں جماعت اسلامی کے سابق امیرقاضی حسین احمد نے بڑے دکھ سے لکھا کہ ہارون الرشید صاحب کے معاملہ میں جب جماعت اسلامی کے کچھ لوگ فوج کے کچھ سینئرافسران سے ملے تو ان کوکہا گیا کہ ہم (یعنی فوج) تم سب کودشمن سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست سے ہزار اختلاف ہوسکتا ہے مگروہ پاکستان کے دشمن نہیں ہوسکتے۔ان میں سے کوئی جماعت پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی ایسے گھناؤنے عمل کو جہاد سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مگراسلامی ذہن رکھنے والوں اور افغانستان میں جاری جہاد کی حمایت کرنیوالوں کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جانے لگی ہیں۔
دوسری طرف اب تو یہ حال ہے کہ برقعہ اوردوسرے اسلامی شعائر کی کھلے عام اسٹیج ڈراموں کے ذریعے توہین کی جارہی ہے مگر اس کوکوئی روکنے والا نہیں۔ افغانستان اور کشمیر میں جاری جہاد کوجہاد کہنے والوں کو طالبان اور دہشت گردی کے طعنے دیئے جارہے ہیں۔ پاکستان کی اسلامی اساس کو تارتار کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ فحاشی‘ عریانی اور مغرب پسندی کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں جو دوسرے عوامل کی طرح معاشرے میں شدت پسندی کا باعث بننے کی وجہ ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کیلئے ہمیں مجموعی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سیاسی حل کو تلاش کرنا ہوگا،ورنہ ہندوستان، امریکہ اور دوسری پاکستان دشمن طاقتیں ہمارے لوگوں کو ہمارے ہی خلاف استعمال کرتی رہیں گی۔ جرنیل اور فوج یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ یہ کام سیاستدانوں کو ادا کرنا ہے جو بدقسمتی سے وہ ادا نہیں کر رہے۔ انہوں نے توخودسارا معاملہ فوج کے حوالے کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم آج اپنے آپ کو امریکہ کی مسلمان کش نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اپنے آپ کو دور کرلیں تو نہ تو ہماری فوج پر حملے ہوں گے اور نہ ہی خودکش بمبار پیدا ہوں گے۔ اپنی اندرونی خرابیوں کو حکمت اور تدبر کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے دشمن ہمارے ہی لوگوں کو ہمارے ہی خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں امریکہ کی نہیں بلکہ اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت سے رہنمائی چاہئے۔
تازہ اعدادوشمار کے مطابق 2009ء کے ابتدائی70 دنوں میں خودکش بمباروں کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں2010ء کے پہلے 70دنوں میں کافی اضافہ ہوا۔ ان اعدادوشمار کے مطابق 2010ء کے پہلے 70دنوں میں پاکستان بھر میں15خودکش حملے ہوئے جس کی وجہ سے 321 معصوم جاں بحق ہوئے۔ اس کے مقابلے میں2009ء کے پہلے 70دنوں میں 11خودکش دھماکے کئے گئے جس کے نتیجے میں 105 افراد شہید ہوئے۔ 2009ء کے واقعات سوات اور وزیرستان آپریشن سے پہلے کے ہیں جبکہ 2010ء کے خودکش حملے ان دونوں ”کامیاب“ ملٹری آپریشن کے بعد کی کہانی ہے۔مرض بڑھ گیا باوجود اس کے کہ ملٹری آپریشن سوات اور وزیرستان میں کامیاب ہونے کے دعوے کئے جاتے رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کیا کیا جاتا ہے اور ملٹری آپریشن کیلئے کس علاقے کو چنا جاتا ہے کیونکہ خودکش بمبار ، دہشت گردی اور معصوم عوام کا مرنا ابھی تک نہیں رکا کیونکہ9/11 کے بعد سے یہی کچھ کیا جارہا ہے اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں۔ مرض بڑھتا جارہا ہے مگر اس کی تشخیص کی بجائے ظاہری علامات پر توجہ ہے۔ جسم پر ظاہر ہونے والے پھوڑوں کو کاٹنے سے مرض نہیں جاتا۔ ایک جگہ سے پھوڑا کاٹیں گے تو یہ دوسری جگہ نکل آئے گا۔ آپ پورا جسم کاٹ دیں‘ علاج اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا‘ جب تک کہ آپ مرض کی جڑتک پہنچ کر اس کی تشخیص کرکے اسے دور کرنے کی تدبیرنہ کریں۔ افسوس کہ ہماری موجودہ پالیسی دہشت گردی کے مرض کاعلاج کرنے کی بجائے اس مرض کومزید پھیلانے کاسبب بن رہی ہے۔ بغیرسوچے سمجھے کہ فوج اور پولیس پر کیوں اور کب سے حملے شروع ہوئے۔ خودکش بمبارکہاں سے پیدا ہوگئے۔ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں اور یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا۔ ہمارا سارا زورفوجی آپریشن پر کیوں ہے۔ مرض وہیں کاوہیں۔ شدت پسندی کی وجوہات وہیں کی وہیں۔ ڈرون حملے وہیں کے وہیں۔ امریکہ کی نوکری چاکری ویسی کی ویسی۔ اپنے ہی لوگوں کیخلاف آرمی آپریشن ویسے کے ویسے۔ اب حد تویہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے اندرونی اختلاف کے نتیجے میں بننے والی تحریک اسلامی اور کچھ دوسری اسلامی تنظیمیں جس میں جماعت الدعوة اور حزب التحریر کو اور ان کے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ایک طرف سابق ممبرقومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید پر یہ الزام لگایا گیا کہ ان کادہشت گردوں سے تعلق ہے تو دوسری طرف تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے بزرگ مذہبی اسکالراور سابق ایم این اے عامرہ احسان اور ان کے اسکالرشوہرپروفیسرراجہ احسان پر اندرون ملک ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات کاشبہ کیاجارہا ہے۔ پروفیسرراجہ احسان اور تحریک اسلامی کی ایک اور بزرگ نجمہ خاتون کوایجنسیوں نے اٹھایا اور سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس لینے پر چھوڑا۔ اس خاتون پر اس حد تک تشدد کیا گیا کہ اس کا ایک دانت توڑدیاگیا۔ حزب التحریر کے پڑھے لکھے کئی نوجوانوں کو دہشتگرد کہہ کر پکڑا گیا مگر پولیس اور ایجنسیاں ان کے خلاف عدالت میں کوئی ذرہ برابر بھی ثبوت پیش نہ کر سکے اور سب کے سب کو رہا کر دیا گیا۔ امریکہ ایسے دینی لوگوں کو اگردہشت گردکہے تو سمجھ میں آنیوالی بات ہے مگر اگر ہمارے اپنے ہی جماعت اسلامی ، تحریک اسلامی، حزب التحریر جیسی جماعتوں سے متعلق اس قسم کی باتیں منسوب کریں تو یہ قابل افسوس ہے۔ اپنے حالیہ کالم میں جماعت اسلامی کے سابق امیرقاضی حسین احمد نے بڑے دکھ سے لکھا کہ ہارون الرشید صاحب کے معاملہ میں جب جماعت اسلامی کے کچھ لوگ فوج کے کچھ سینئرافسران سے ملے تو ان کوکہا گیا کہ ہم (یعنی فوج) تم سب کودشمن سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست سے ہزار اختلاف ہوسکتا ہے مگروہ پاکستان کے دشمن نہیں ہوسکتے۔ان میں سے کوئی جماعت پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی ایسے گھناؤنے عمل کو جہاد سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مگراسلامی ذہن رکھنے والوں اور افغانستان میں جاری جہاد کی حمایت کرنیوالوں کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جانے لگی ہیں۔
دوسری طرف اب تو یہ حال ہے کہ برقعہ اوردوسرے اسلامی شعائر کی کھلے عام اسٹیج ڈراموں کے ذریعے توہین کی جارہی ہے مگر اس کوکوئی روکنے والا نہیں۔ افغانستان اور کشمیر میں جاری جہاد کوجہاد کہنے والوں کو طالبان اور دہشت گردی کے طعنے دیئے جارہے ہیں۔ پاکستان کی اسلامی اساس کو تارتار کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ فحاشی‘ عریانی اور مغرب پسندی کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں جو دوسرے عوامل کی طرح معاشرے میں شدت پسندی کا باعث بننے کی وجہ ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کیلئے ہمیں مجموعی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سیاسی حل کو تلاش کرنا ہوگا،ورنہ ہندوستان، امریکہ اور دوسری پاکستان دشمن طاقتیں ہمارے لوگوں کو ہمارے ہی خلاف استعمال کرتی رہیں گی۔ جرنیل اور فوج یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ یہ کام سیاستدانوں کو ادا کرنا ہے جو بدقسمتی سے وہ ادا نہیں کر رہے۔ انہوں نے توخودسارا معاملہ فوج کے حوالے کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم آج اپنے آپ کو امریکہ کی مسلمان کش نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اپنے آپ کو دور کرلیں تو نہ تو ہماری فوج پر حملے ہوں گے اور نہ ہی خودکش بمبار پیدا ہوں گے۔ اپنی اندرونی خرابیوں کو حکمت اور تدبر کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے دشمن ہمارے ہی لوگوں کو ہمارے ہی خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں امریکہ کی نہیں بلکہ اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت سے رہنمائی چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
وحدت کی طرف لوٹیئے
وحدت کی طرف لوٹیئے
عامرہ احسان
ہم تو ساری حرمتیں پامال کر بیٹھے۔ ایک کتا بردار کمانڈو کے پیچھے ناقابلِمعافی خاموشی سے ہم نے کفر کے کندھے سے کندھا ملا کر اہل ایمان کا شکارکھیلا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم پلٹ آئیں۔ پاکستان کی قوت اس میں مضمر تھی کہاللہ نے بے شمار رنگ ونسل کے اوصاف کی بو قلمونی سے ہمیں نوازا تھا۔ یعنی گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن۔ جہاں پٹھانوں میں عربوں کی صفات کا عکس ملتا ہے اور روسی سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا کر قبرستان آباد کرنے میں غیور سرحدی پٹھانوں (سیکولر نہیں، صاحبِ ایمان) کا بھی پورا پورا حصہ تھا اور ہم حسرت آمیز فخر سے ان کیلئے کہتے تھے…؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
اسکے بعد ایمان، اسلام اور اسی بنیاد پر پاکستان سے گہری وابستگی رکھنے والے ہزارہ وال ہیں۔ یہ پورا علاقہ ایمان اسلام، علماء اور مدارس کے اعتبار سے ہماری شناخت کی اگلی ڈیفنس لائن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراسکے حواریوں کی نگاہ میں یہ علاقہ بھی خار بن کر کھٹکتا ہے۔ تربیلا میں وہ تمام تر حفاظتی قلعوں میں بھی خود کو ان غیور لوگوں کی موجودگی میں محفوظ نہیں جانتا۔ لہٰذا ان کے احتجاج پر معقول رویہ اختیار کرنے اور افہام و تفہیم سے سلجھانے کی بجائے گولیوں کی بوچھاڑ بلا سبب تو نہیں۔
اس حسین اور خوبصورت ملک کی قوت اس میں بسنے والی ہر قومیت کی جدا جدا صلاحیتیں اور اوصاف ہیں۔ پنجابیوں کی کشادہ دلی، وسیع الظرفی، سبھی کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کا وصف رکھتی ہے۔ یہی کیفیت اردو ، سندھی، بلوچی، سرائیکی، بروہی، ہر زبان رنگ نسل والوں کی ہے۔ ہم اسلام کی مالا میں پروئے ہوئے دیدہ زیب موتیوں کی مانند ہیں۔ یہ تقسیم سوائے تعارف کا ذریعہ ہونے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تاریخ گواہ ہے مسلمان جب اوس، خزرج، انصاری، مہاجر کی تقسیم سے ماوراء ہو کر اس اصول کو لے کر اٹھے۔
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے،(الحجرات۔13)
تو مسلمان تین براعظموں پر حکمران ہوگیا اور جب یہ سبق بھولا تو جمعیت کے ساتھ ملت بھی پارہ پارہ ہوگئی۔ یہ فارمولا ہمارے دشمن کا ہمیں توڑنے کیلئے ہے۔ ذرا سوچئے تو ہمارے ہر دوسرے گھر میں جو بچوں کے نام ہیں وہ کن ناموں پر ہیں؟۔ صہیبؓ رومی، سلمانؓ فارسی، بلال حبشی، فہیم صدیقی، فاروقی، علوی، عثمانی کیوں ہیں؟ نبیﷺ پر ماں باپ آل اولاد قربان کرنے کا حوصلہ ہم، آپ میں کیوں ہے؟ کیا اسلئے کہ آپؐ پنجابی تھے۔؟ ہر گزنہیں! آپؐ پٹھان، سندھی، بلوچی، سرائیکی تھے؟ یہ نسل آلودہ گھٹی گھٹی تنگ نظر کنویں کے مینڈک والی سوچ ایک مسلمان کی نہیں ہوسکتی۔ ہماری وسعتِ نظر کا تو یہ عالم ہے کہ میری محبت، غم اور فکر کا محور، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر بلکہ پوراگلوب اور اس پر رہتا بستا ہر مسلمان ہے۔ میرے خاندان کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ مجھے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی وراثت اور امام الانبیائﷺ کا امتی ہونا میسر ہے۔ میرے فکر و نظر کی کشادگی کا یہ عالم ہے کہ اگر بش مسلم کش ایمان لے آئے تو مجھے (بس ایک کڑوے گھونٹ کے بعد) اسے امت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ دل سے نفرت کو دھونا پڑے گا! میری وسعتِ نظر کا یہ عالم ہے کہ مجھے صرف اس چند روزہ زندگی کا حقیر کیڑا اورخواہشات نفس کا حیوانی وجود بن کر نہیں جینا۔ بلکہ وہ امانت جو اشرف المخلوقات ہونے کے اعتبار سے، اپنی روح میں سے کچھ پھونک، کر اللہ نے میرے وجود میں ڈالی ہے اسکی قرآن و سنت سے آبیاری کرنی، حفاظت کرنی ہے کہ وہ اس عظیم کارواں کا حصہ بن سکے جو حضرت آدمؑ کے وقت سے لیکر آخری دن تک کے انسانوں میں سے جنت کیلئے منتخب کیا جائے گا۔ مسئلہ اس وقت صرف یہ ہے کہ گلوبل ویلج ہانکے پکارے نئی اجلی ستھری قیادت کیلئے العطش، العطش (پیاس، پیاس) پکار رہا ہے۔ کمیونزم دم توڑ چکا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر معاشی سیاسی سماجی معاشرتی فریب کاریوں کے ساتھ جان بلب ہے۔ استحصال (پاکستان کی طرح دنیا کے ہر ملک میں) اپنی ساری حدیں توڑ چکا ہے۔ انسانیت سسک رہی ہے۔ اسلام کا سویرا طلوع ہو کر رہے گا۔ یہ وقت کی پکار ہے۔ یہ دنیا کی ضرورت ہے۔ چمگادڑوں، الوئوں کی چیخ وپکار طلوع ہوتی صبح کا راستہ نہیں روک سکتی۔ عراق نے فیصلہ دے دیا۔ کوئی بریکنگ نیوز نہ سنی۔ افغانستان کا فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ ورلڈ میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ جس طرح اچانک برف پوش آئس لینڈ کے پہاڑ لاوا اگل رہے ہیں۔ برسہا برس، صدیوں سے قوموں کی عقلوں پر پڑی برف بھی پگھلنے کو ہے(اس کا معاشی نقصان بھی چشم کشا ہے!) ظلم اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ایک کروڑ مسلمان ان خون آشام صلیبیوںکی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دنیا بھر کے عقوبت خانے صلیبیوں کی خوشنودی کی خاطر ٹھونسے گئے مسلمان نوجوانوں سے لبالب بھرے پڑے ہیں۔ ناقابل بیان مظالم دنیا بھر میں آمروں کے ہاتھوں نت نئی اصطلاحوں اور خوبصورت فلسفوں کی آڑ میں توڑے جا چکے ہیں۔ پیالہ لبالب بھر چکا ہے۔ روسی ریچھ کی طرح امریکی ہاتھی دم توڑ رہا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ۔ دبے پائوں صبح طلوع ہونے کو ہے۔ ہمیں تقسیم در تقسیم ہونے کی بجائے اس عظیم الشان وحدت کی طرف لوٹنا ہے، جسکا خوف امریکہ کی نیندیں اڑائے دے رہا ہے۔ امت اور خلافت۔ یہ دو تصورات کفر کیلئے جان لیوا ہیں۔ جن سے ہمیں بیگانہ رکھنے ہی کے سارے اہتمام ہیں۔ کفر نے پانی کی طرح اپنا پیسہ اور ہمارا خون اس وحدت کے خوف سے بہایا ہے۔ لیکن اب وہ سحر ہونے کو ہے۔
آیئے اس صبح کی تیاری کریں۔ رب المشرقین کے، خالقِ ارض سماء حی و صمد کے ماننے والے:
یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لویں سلامت!
جب تک ان کی آگ فروزاں
درد کی آخری حد پر بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے
ہم تو ساری حرمتیں پامال کر بیٹھے۔ ایک کتا بردار کمانڈو کے پیچھے ناقابلِمعافی خاموشی سے ہم نے کفر کے کندھے سے کندھا ملا کر اہل ایمان کا شکارکھیلا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم پلٹ آئیں۔ پاکستان کی قوت اس میں مضمر تھی کہاللہ نے بے شمار رنگ ونسل کے اوصاف کی بو قلمونی سے ہمیں نوازا تھا۔ یعنی گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن۔ جہاں پٹھانوں میں عربوں کی صفات کا عکس ملتا ہے اور روسی سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا کر قبرستان آباد کرنے میں غیور سرحدی پٹھانوں (سیکولر نہیں، صاحبِ ایمان) کا بھی پورا پورا حصہ تھا اور ہم حسرت آمیز فخر سے ان کیلئے کہتے تھے…؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
اسکے بعد ایمان، اسلام اور اسی بنیاد پر پاکستان سے گہری وابستگی رکھنے والے ہزارہ وال ہیں۔ یہ پورا علاقہ ایمان اسلام، علماء اور مدارس کے اعتبار سے ہماری شناخت کی اگلی ڈیفنس لائن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراسکے حواریوں کی نگاہ میں یہ علاقہ بھی خار بن کر کھٹکتا ہے۔ تربیلا میں وہ تمام تر حفاظتی قلعوں میں بھی خود کو ان غیور لوگوں کی موجودگی میں محفوظ نہیں جانتا۔ لہٰذا ان کے احتجاج پر معقول رویہ اختیار کرنے اور افہام و تفہیم سے سلجھانے کی بجائے گولیوں کی بوچھاڑ بلا سبب تو نہیں۔
اس حسین اور خوبصورت ملک کی قوت اس میں بسنے والی ہر قومیت کی جدا جدا صلاحیتیں اور اوصاف ہیں۔ پنجابیوں کی کشادہ دلی، وسیع الظرفی، سبھی کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کا وصف رکھتی ہے۔ یہی کیفیت اردو ، سندھی، بلوچی، سرائیکی، بروہی، ہر زبان رنگ نسل والوں کی ہے۔ ہم اسلام کی مالا میں پروئے ہوئے دیدہ زیب موتیوں کی مانند ہیں۔ یہ تقسیم سوائے تعارف کا ذریعہ ہونے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تاریخ گواہ ہے مسلمان جب اوس، خزرج، انصاری، مہاجر کی تقسیم سے ماوراء ہو کر اس اصول کو لے کر اٹھے۔
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے،(الحجرات۔13)
تو مسلمان تین براعظموں پر حکمران ہوگیا اور جب یہ سبق بھولا تو جمعیت کے ساتھ ملت بھی پارہ پارہ ہوگئی۔ یہ فارمولا ہمارے دشمن کا ہمیں توڑنے کیلئے ہے۔ ذرا سوچئے تو ہمارے ہر دوسرے گھر میں جو بچوں کے نام ہیں وہ کن ناموں پر ہیں؟۔ صہیبؓ رومی، سلمانؓ فارسی، بلال حبشی، فہیم صدیقی، فاروقی، علوی، عثمانی کیوں ہیں؟ نبیﷺ پر ماں باپ آل اولاد قربان کرنے کا حوصلہ ہم، آپ میں کیوں ہے؟ کیا اسلئے کہ آپؐ پنجابی تھے۔؟ ہر گزنہیں! آپؐ پٹھان، سندھی، بلوچی، سرائیکی تھے؟ یہ نسل آلودہ گھٹی گھٹی تنگ نظر کنویں کے مینڈک والی سوچ ایک مسلمان کی نہیں ہوسکتی۔ ہماری وسعتِ نظر کا تو یہ عالم ہے کہ میری محبت، غم اور فکر کا محور، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر بلکہ پوراگلوب اور اس پر رہتا بستا ہر مسلمان ہے۔ میرے خاندان کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ مجھے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی وراثت اور امام الانبیائﷺ کا امتی ہونا میسر ہے۔ میرے فکر و نظر کی کشادگی کا یہ عالم ہے کہ اگر بش مسلم کش ایمان لے آئے تو مجھے (بس ایک کڑوے گھونٹ کے بعد) اسے امت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ دل سے نفرت کو دھونا پڑے گا! میری وسعتِ نظر کا یہ عالم ہے کہ مجھے صرف اس چند روزہ زندگی کا حقیر کیڑا اورخواہشات نفس کا حیوانی وجود بن کر نہیں جینا۔ بلکہ وہ امانت جو اشرف المخلوقات ہونے کے اعتبار سے، اپنی روح میں سے کچھ پھونک، کر اللہ نے میرے وجود میں ڈالی ہے اسکی قرآن و سنت سے آبیاری کرنی، حفاظت کرنی ہے کہ وہ اس عظیم کارواں کا حصہ بن سکے جو حضرت آدمؑ کے وقت سے لیکر آخری دن تک کے انسانوں میں سے جنت کیلئے منتخب کیا جائے گا۔ مسئلہ اس وقت صرف یہ ہے کہ گلوبل ویلج ہانکے پکارے نئی اجلی ستھری قیادت کیلئے العطش، العطش (پیاس، پیاس) پکار رہا ہے۔ کمیونزم دم توڑ چکا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر معاشی سیاسی سماجی معاشرتی فریب کاریوں کے ساتھ جان بلب ہے۔ استحصال (پاکستان کی طرح دنیا کے ہر ملک میں) اپنی ساری حدیں توڑ چکا ہے۔ انسانیت سسک رہی ہے۔ اسلام کا سویرا طلوع ہو کر رہے گا۔ یہ وقت کی پکار ہے۔ یہ دنیا کی ضرورت ہے۔ چمگادڑوں، الوئوں کی چیخ وپکار طلوع ہوتی صبح کا راستہ نہیں روک سکتی۔ عراق نے فیصلہ دے دیا۔ کوئی بریکنگ نیوز نہ سنی۔ افغانستان کا فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ ورلڈ میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ جس طرح اچانک برف پوش آئس لینڈ کے پہاڑ لاوا اگل رہے ہیں۔ برسہا برس، صدیوں سے قوموں کی عقلوں پر پڑی برف بھی پگھلنے کو ہے(اس کا معاشی نقصان بھی چشم کشا ہے!) ظلم اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ایک کروڑ مسلمان ان خون آشام صلیبیوںکی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دنیا بھر کے عقوبت خانے صلیبیوں کی خوشنودی کی خاطر ٹھونسے گئے مسلمان نوجوانوں سے لبالب بھرے پڑے ہیں۔ ناقابل بیان مظالم دنیا بھر میں آمروں کے ہاتھوں نت نئی اصطلاحوں اور خوبصورت فلسفوں کی آڑ میں توڑے جا چکے ہیں۔ پیالہ لبالب بھر چکا ہے۔ روسی ریچھ کی طرح امریکی ہاتھی دم توڑ رہا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ۔ دبے پائوں صبح طلوع ہونے کو ہے۔ ہمیں تقسیم در تقسیم ہونے کی بجائے اس عظیم الشان وحدت کی طرف لوٹنا ہے، جسکا خوف امریکہ کی نیندیں اڑائے دے رہا ہے۔ امت اور خلافت۔ یہ دو تصورات کفر کیلئے جان لیوا ہیں۔ جن سے ہمیں بیگانہ رکھنے ہی کے سارے اہتمام ہیں۔ کفر نے پانی کی طرح اپنا پیسہ اور ہمارا خون اس وحدت کے خوف سے بہایا ہے۔ لیکن اب وہ سحر ہونے کو ہے۔
آیئے اس صبح کی تیاری کریں۔ رب المشرقین کے، خالقِ ارض سماء حی و صمد کے ماننے والے:
یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لویں سلامت!
جب تک ان کی آگ فروزاں
درد کی آخری حد پر بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے
ہم پر پے درپے آفات کیوں ٹوٹ رہی ہیں
پاکستان کی تاریخ کی مجموعی آفات کو دیکھیں اور پچھلے دس سال میں ہونے والے نقصان کو دیکھیں تو یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ 2001 ء سے لے کر اب تک ہونے والا نقصان اس سے پہلے کے 53 سالہ نقصانات پر بھاری ہے۔ اس میں کیا بھید ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے لیکن بادی النظر میں یہ وہ عرصہ بنتا ہے جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں اس کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور ایک بزدل جرنیل پرویز مشرف نے اپنے بھونپوئوں کے ذریعے قوم کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ ہمارا تورا بورا بنا ڈالتا۔
افغانستان کے دشت لیلیٰ ' شبرخان جیل اور دیگر مقامات پر امریکیوں نے سفاکی کے جو راستے اختیار کیے وہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں اور شائد امریکہ ظلم ' بربریت اور سفاکی کے یہ ہتھیار نہ آزما پاتا اگر ہم امریکہ کے دست و بازو بننے پر تیار نہ ہوتے۔
اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا؟ ہم پر اقتصادی پابندیاں لگ جاتیں ' ہمارے قرضے اور امدادیں رک جاتیں اور ہمیں بہت سے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا اور اگر ہم ان مشکلات میں سرخرو ہوگئے ہوتے تو مشکلات کی تپتی بھٹی میں سے کندن کی طرح ایک مضبوط قوم بنکر باہر نکلتے۔ اور اگر ہم ایک قوم بن جاتے تو ہمارے اندر قومی اوصاف پیدا ہو جاتے اور جب کسی قوم میں قومی اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ اس حد تک خوددار بن جاتی ہے کہ روکھی سوکھی قبول کرلیتی ہے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔
اگر ہم اس بات پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہوتے کہ سب سے طاقتور اللہ کی ذات ہے اور تمام دنیاوی طاقتیں اس کی طاقت کے سامنے ہیچ ہیں تو ہم امریکہ اور مغرب سے ہرگز ہرگز مرعوب نہ ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ایمان انتہائی کمزور ہے اور ہم قوم نہیں افراد کا ہجوم ہیں۔
ہمارے ایمان و ایقان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ہم روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہر وہ کام کرتے ہیں جو ہمیں جہنم میں دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دین کے معاملات میں بدترین ریاکاری کرتے ہیں اور دنیاوی معاملات میں ہمارا بگاڑ اور فساد دنیا کی دیگر تمام اقوام سے بڑ ھ کر ہے۔
ہم اس ہٹ دھرم اور ڈھیٹ بچے کی مانند ہیں جو بڑوں کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسولۖ نے منع کیا ہے۔ سودی کاروبار کو اللہ کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا جبکہ ہمارا تمام لین دین سودی ہے۔ گویا ہم یہ کام کرکے اللہ کو للکار رہے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ ہم اس حوالے سے اتنے متکبر واقع ہوئے ہیں کہ نعوذ باللہ ہمارے پاس پیسہ ' اختیار اور طاقت آجائے تو اپنے جیسے انسانوں کوحقیر کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اتنی کثر ت سے جھوٹ بولتے ہیں کہ شائد ہی دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنا جھوٹ بولتی ہو۔ اللہ نے ہم کو تفرقہ بازی سے منع کیا اور ہم نے یہ کام اتنی شدت کے ساتھ کیا کہ نفرتوں کے انبارلگ گئے۔
ہم میں سے جس کا دائو چلتا ہے وہ ملاوٹ کرتا ہے 'جس کو موقع ملتا ہے وہ ناپ تول میں کمی کرتا ہے۔ اسلام میں منافع کی ایک حد ہے لیکن ہمارے لئے منافع کی کوئی حد نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ہم ایک بددیانت ' خائن 'ریاکار ' جھوٹی ' متکبر ' جھگڑالو اور اسراف کرنے والی قوم ہیں۔
رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے کو جہنم کا ایندھن بتایا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں کھلے عام دن رات رشوت چلتی ہے مجموعی طور پر ایک ایسی لاپرواہ قوم ہیں کہ جب حکمران ہمارے سمیت اس ملک کا سودا کر رہے تھے اس وقت بھی ہم محض تماشہ دیکھنے والا ایک ہجوم تھے۔
جنرل (ر) مشرف بھی ظاہر ہے ہم میں سے ہی تھے لہٰذا جب امریکیوں نے ان پر دبائو ڈالا تو کمزور ایمان کے حامل جرنیل نے بدترین بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکیوں کے سامنے سر جھکا دیا اور یوں انہوں نے ہماری مدد سے افغانستان میں ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کیں۔
مشرف کے اس جرم میں ہم بھی برابر کے شریک تھے کیونکہ ہم نے افغانستان پر یوٹرن کو ایک عام سی بات سمجھا اور یقین کرلیا کہ ہمارے حکمرانوں نے ایک درست فیصلہ کرکے ہمیں ایک بڑے امتحان سے بچالیا ہے اس فیصلے کے بعد بے برکتی کا ایک ایسا دو ر شروع ہوا کہ جس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مشرف نے کہا ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنی معیشت کو بچالیا ہے۔ خدا نے ہماری معیشت کا وہ حال کر دیا کہ آج دو کروڑ پاکستانی خیموں یا سڑکوں پر پڑے ہیں۔
مشرف نے کہا تھا کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر کشمیر کاز کو بچالیا ہے آج حالت یہ ہے کہ کشمیری بھارت کے خلاف ایک تاریخی تحریک چلا رہے ہیں اور ہمارے پاس کشمیر کی طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں۔ درحقیقت امریکہ سے ڈرنے کی بجائے اگر ہم خدا سے ڈرتے اور اس کے بندوں پر ظلم میں شریک نہ ہوتے تو آج اپنے گھروں میں عزت کے ساتھ بیٹھ کر روکھی سوکھی ضرور کھا رہے ہوتے۔ نہ ہم پر 2005 ء کا تباہ کن زلزلہ مسلط کیا جاتا اور نہ ہم 2010 ء میں اس سیلاب عظیم کا سامنا کر رہے ہوتے۔ یہ ہماری بداعمالیوں کی سزا ہے۔ خدا ہمیں زلزلوں اور سیلابوںکے ذریعے مسلسل جھنجھوڑ رہا ہے لیکن ہم سدھرنے کی بجائے اور بگڑتے جارہے ہیں۔ 2005 ء کے زلزلے میں اچھے خاصے کھاتے پیتےلوگوں نے بھی امداد کو مفت کا مال سمجھ کر خوب خوب ہڑپ کیا اور آج جو امداد سیلاب زدگان کے لئے آرہی ہے اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کا ایک دھیلے کا نقصان بھی نہیں ہوا۔ ہم بالکل نہیں سدھر رہے اس لئے ہم پر خدا کی پکڑ رہے گی۔ اس وقت تک رہے گی جب تک ہم اجتماعی توبہ کرکے اپنے دینی و دنیاوی اعمال درست نہیں کرلیتے۔
افغانستان کے دشت لیلیٰ ' شبرخان جیل اور دیگر مقامات پر امریکیوں نے سفاکی کے جو راستے اختیار کیے وہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں اور شائد امریکہ ظلم ' بربریت اور سفاکی کے یہ ہتھیار نہ آزما پاتا اگر ہم امریکہ کے دست و بازو بننے پر تیار نہ ہوتے۔
اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا؟ ہم پر اقتصادی پابندیاں لگ جاتیں ' ہمارے قرضے اور امدادیں رک جاتیں اور ہمیں بہت سے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا اور اگر ہم ان مشکلات میں سرخرو ہوگئے ہوتے تو مشکلات کی تپتی بھٹی میں سے کندن کی طرح ایک مضبوط قوم بنکر باہر نکلتے۔ اور اگر ہم ایک قوم بن جاتے تو ہمارے اندر قومی اوصاف پیدا ہو جاتے اور جب کسی قوم میں قومی اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ اس حد تک خوددار بن جاتی ہے کہ روکھی سوکھی قبول کرلیتی ہے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔
اگر ہم اس بات پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہوتے کہ سب سے طاقتور اللہ کی ذات ہے اور تمام دنیاوی طاقتیں اس کی طاقت کے سامنے ہیچ ہیں تو ہم امریکہ اور مغرب سے ہرگز ہرگز مرعوب نہ ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ایمان انتہائی کمزور ہے اور ہم قوم نہیں افراد کا ہجوم ہیں۔
ہمارے ایمان و ایقان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ہم روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہر وہ کام کرتے ہیں جو ہمیں جہنم میں دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دین کے معاملات میں بدترین ریاکاری کرتے ہیں اور دنیاوی معاملات میں ہمارا بگاڑ اور فساد دنیا کی دیگر تمام اقوام سے بڑ ھ کر ہے۔
ہم اس ہٹ دھرم اور ڈھیٹ بچے کی مانند ہیں جو بڑوں کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسولۖ نے منع کیا ہے۔ سودی کاروبار کو اللہ کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا جبکہ ہمارا تمام لین دین سودی ہے۔ گویا ہم یہ کام کرکے اللہ کو للکار رہے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ ہم اس حوالے سے اتنے متکبر واقع ہوئے ہیں کہ نعوذ باللہ ہمارے پاس پیسہ ' اختیار اور طاقت آجائے تو اپنے جیسے انسانوں کوحقیر کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اتنی کثر ت سے جھوٹ بولتے ہیں کہ شائد ہی دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنا جھوٹ بولتی ہو۔ اللہ نے ہم کو تفرقہ بازی سے منع کیا اور ہم نے یہ کام اتنی شدت کے ساتھ کیا کہ نفرتوں کے انبارلگ گئے۔
ہم میں سے جس کا دائو چلتا ہے وہ ملاوٹ کرتا ہے 'جس کو موقع ملتا ہے وہ ناپ تول میں کمی کرتا ہے۔ اسلام میں منافع کی ایک حد ہے لیکن ہمارے لئے منافع کی کوئی حد نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ہم ایک بددیانت ' خائن 'ریاکار ' جھوٹی ' متکبر ' جھگڑالو اور اسراف کرنے والی قوم ہیں۔
رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے کو جہنم کا ایندھن بتایا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں کھلے عام دن رات رشوت چلتی ہے مجموعی طور پر ایک ایسی لاپرواہ قوم ہیں کہ جب حکمران ہمارے سمیت اس ملک کا سودا کر رہے تھے اس وقت بھی ہم محض تماشہ دیکھنے والا ایک ہجوم تھے۔
جنرل (ر) مشرف بھی ظاہر ہے ہم میں سے ہی تھے لہٰذا جب امریکیوں نے ان پر دبائو ڈالا تو کمزور ایمان کے حامل جرنیل نے بدترین بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکیوں کے سامنے سر جھکا دیا اور یوں انہوں نے ہماری مدد سے افغانستان میں ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کیں۔
مشرف کے اس جرم میں ہم بھی برابر کے شریک تھے کیونکہ ہم نے افغانستان پر یوٹرن کو ایک عام سی بات سمجھا اور یقین کرلیا کہ ہمارے حکمرانوں نے ایک درست فیصلہ کرکے ہمیں ایک بڑے امتحان سے بچالیا ہے اس فیصلے کے بعد بے برکتی کا ایک ایسا دو ر شروع ہوا کہ جس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مشرف نے کہا ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنی معیشت کو بچالیا ہے۔ خدا نے ہماری معیشت کا وہ حال کر دیا کہ آج دو کروڑ پاکستانی خیموں یا سڑکوں پر پڑے ہیں۔
مشرف نے کہا تھا کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر کشمیر کاز کو بچالیا ہے آج حالت یہ ہے کہ کشمیری بھارت کے خلاف ایک تاریخی تحریک چلا رہے ہیں اور ہمارے پاس کشمیر کی طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں۔ درحقیقت امریکہ سے ڈرنے کی بجائے اگر ہم خدا سے ڈرتے اور اس کے بندوں پر ظلم میں شریک نہ ہوتے تو آج اپنے گھروں میں عزت کے ساتھ بیٹھ کر روکھی سوکھی ضرور کھا رہے ہوتے۔ نہ ہم پر 2005 ء کا تباہ کن زلزلہ مسلط کیا جاتا اور نہ ہم 2010 ء میں اس سیلاب عظیم کا سامنا کر رہے ہوتے۔ یہ ہماری بداعمالیوں کی سزا ہے۔ خدا ہمیں زلزلوں اور سیلابوںکے ذریعے مسلسل جھنجھوڑ رہا ہے لیکن ہم سدھرنے کی بجائے اور بگڑتے جارہے ہیں۔ 2005 ء کے زلزلے میں اچھے خاصے کھاتے پیتےلوگوں نے بھی امداد کو مفت کا مال سمجھ کر خوب خوب ہڑپ کیا اور آج جو امداد سیلاب زدگان کے لئے آرہی ہے اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کا ایک دھیلے کا نقصان بھی نہیں ہوا۔ ہم بالکل نہیں سدھر رہے اس لئے ہم پر خدا کی پکڑ رہے گی۔ اس وقت تک رہے گی جب تک ہم اجتماعی توبہ کرکے اپنے دینی و دنیاوی اعمال درست نہیں کرلیتے۔
پاکستان کا دلدل
معمر قذافی (صدر لیبیا)
مغرب خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو۔ لیکن 28مئی1998 کو ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب انہیں پتہ چل گیا کہ پاکستان ایٹمی ریاست بن گیا ہے اور انہوں نے اپنی انٹیلی ایجنسیوں کو موردالزام ٹھہرا دیا کہ وہ ایٹمی تجربات کا اندازہ لگانے میں ناکام رہیں۔ لاتعداد کتابوں، آرٹیکلز اور تقریروں میں پاکستان کے ایٹم بم کو ''اسلامی بم'' قرار دیا گیا کیونکہ بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ بم ان کے مفادات کی موت ثابت ہو گا۔
پاکستان کو ایٹم بم کی ملکیت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری اے کسنجر نے ایک بار پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یہاں تک کہہ دیا کہ ''آپ نے بم بنایا تو ہم آپ کو ایک مثال بنا دیں گے''۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھٹو کو واقعی پھانسی دے دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق جنہوں نے پاکستان کو اسلامی رنگ دیا اور اس کے ایٹمی پروگرام کو ٹھوس شکل دی، کو بھی قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اور نامعلوم کتنے لوگوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہوں یا اسرائیلی وہ آخر کیوں نہیں چاہتے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو؟
پاکستان ایک مسلم ملک ہے۔ درحقیقت اسلام ہی پاکستان کے وجود کی بنیاد ہے۔ مذہب کے سوا ایسا کوئی عامل نہیں جو پاکستانیوں کو متحد کرتا ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی مذہب کے بارے میں اس قدر سخت سوچ کیوں رکھتے ہیں۔ یہی ان کی قومیت کی اساس ہے۔ پاکستانیوں کے لئے اسلام اسی طرح ہے جس طرح اسرائیلیوں کے لئے یہودیت یعنی ان کی علت وجود۔ دوسرے ملکوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چین، مذہب کے بغیر بھی چین رہے گا۔ اسی طرح ایران بھی مذہب کے بغیر ایران ہی رہے گا۔ یہی معاملہ ترکی کا ہے۔ پاکستان منفرد ہے۔ اسلام کے بغیر پاکستان نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد بھی اسلام تھا اور یہی بطور ریاست اس کی علت وجود ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم صحیح معنوں میں مسلم بم ہے۔ اسلام پاکستانیوں کے لئے عقیدے کا سوال نہیں بلکہ شناخت کا سوال ہے۔
پاکستان اپنے پیچیدہ آبادیاتی ڈھانچے کے باعث ڈرامائی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ سماجی طور پر یہ مختلف نسلوں اور افغانستان کی سرحد پر مقیم قبائل پر مشتمل ہے جن کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے نہ افغانستان کے ساتھ۔ اس کا ڈھانچہ کثیررنگی ہے جس میں ایسے لوگ شامل ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں جو انہیں یکجا کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔
پاکستان کو اپنے خطے کے اندر بھی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ ہر طرف سے کشیدہ ماحول میں گھرا ہے جو اس کی مسلم اساس کو اکساتی ہے، اسے بدھ مت اورہندو مت کے علاوہ کٹڑپسند نظریات اور عدم برداشت کا بھی سامنا ہے۔
یہی وہ سبب ہے جس کی بناء پر تشدد پسند مسلم گروپ وجود میں آئے جو افغانستان میں موجود قبائل کے علاوہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے بھی وابستگیاں رکھتے ہیں۔ یہ گروپ مثلاً جامع اسلامیہ، ایسوسی ایشن آف مسلم سکالرز،تحریک اسلامی اور دیگر درحقیقت اسامہ بن لادن اور اس کی تحریک کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ تعداد میں بے شمار ہیں جو واشگاف انداز میں اسلام کے کٹڑپسندانہ تصور کا پرچار کرتے ہیں۔
اسرائیلیوں اور امریکیوں کو ایسے کٹڑپسند گروپوں سے خطرہ یہ ہے کہ یہ اگر اس بات پر تل جائیں تو اقتدار پر بھی قابض ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ریاست کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں جو ممکن بھی ہے، تو یہ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لئے بڑی خطرناک بات ہو گی۔ دوسری جانب اگر سیاسی جماعتیں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی یا خواہ فوج بھی برسراقتدار ہوں تو حالات قدرے محفوظ رہیں گے کیونکہ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ذمہ دار ادارے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ کوئی پائیدار حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
اگر ان انتہاپسند گروپوں میں سے کوئی برسراقتدار آ جاتا ہے تو ایٹم بم کی چابی ان کے ہاتھ آجائے گی۔ یوں پاکستان، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لئے دلدل بن گیا ہے۔ اس متوقع طور پر خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہ لوگ پاکستان اور پڑوسی بھارت کے درمیان کشیدگی کو زیادہ شدید کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں۔
پاکستانیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا دشمن ہندو ہے یہودی یا عیسائی نہیں۔ یوں ان کے بم کا رخ اسی کی طرف یعنی پاکستان کے اولین دشمن کی طرف ہے کسی اور کی طرف نہیں۔ اسی طرح بھارتیوں کو اس یقین میں مبتلا کر دیاگیا ہے کہ ان کا اصل دشمن پاکستان ہے اور پاکستانی بم کا رخ اسرائیلیوں یاامریکیوں کی طرف نہیں بلکہ ان کی طرف ہے۔
اس پالیسی کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے ذہن پر بھارت سوار رہے اور بھارت کے ذہن پر پاکستان۔ شاید اسی لئے امریکی تنازعہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے جبکہ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ یہ آگ اسی طرح ہمیشہ جلتی رہے۔
کشیدگی اور تنائو کا سلسلہ جاری رہے اور اسی طرح ایٹمی پاکستان ایک خطرہ بنا رہے گا۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کی طرف سے کسی بھی طریقے سے خود کو اس دلدل سے نکالنے کی کوششیں بھی کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ کچھ بھی ہو اس کھیل کا انجام خطے اور دنیا دونوںکے لئے خطرناک ہو گا۔
بشکریہ واشنگٹن ٹائمز
پاکستان کو ایٹم بم کی ملکیت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری اے کسنجر نے ایک بار پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یہاں تک کہہ دیا کہ ''آپ نے بم بنایا تو ہم آپ کو ایک مثال بنا دیں گے''۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھٹو کو واقعی پھانسی دے دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق جنہوں نے پاکستان کو اسلامی رنگ دیا اور اس کے ایٹمی پروگرام کو ٹھوس شکل دی، کو بھی قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اور نامعلوم کتنے لوگوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہوں یا اسرائیلی وہ آخر کیوں نہیں چاہتے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو؟
پاکستان ایک مسلم ملک ہے۔ درحقیقت اسلام ہی پاکستان کے وجود کی بنیاد ہے۔ مذہب کے سوا ایسا کوئی عامل نہیں جو پاکستانیوں کو متحد کرتا ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی مذہب کے بارے میں اس قدر سخت سوچ کیوں رکھتے ہیں۔ یہی ان کی قومیت کی اساس ہے۔ پاکستانیوں کے لئے اسلام اسی طرح ہے جس طرح اسرائیلیوں کے لئے یہودیت یعنی ان کی علت وجود۔ دوسرے ملکوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چین، مذہب کے بغیر بھی چین رہے گا۔ اسی طرح ایران بھی مذہب کے بغیر ایران ہی رہے گا۔ یہی معاملہ ترکی کا ہے۔ پاکستان منفرد ہے۔ اسلام کے بغیر پاکستان نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد بھی اسلام تھا اور یہی بطور ریاست اس کی علت وجود ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم صحیح معنوں میں مسلم بم ہے۔ اسلام پاکستانیوں کے لئے عقیدے کا سوال نہیں بلکہ شناخت کا سوال ہے۔
پاکستان اپنے پیچیدہ آبادیاتی ڈھانچے کے باعث ڈرامائی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ سماجی طور پر یہ مختلف نسلوں اور افغانستان کی سرحد پر مقیم قبائل پر مشتمل ہے جن کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے نہ افغانستان کے ساتھ۔ اس کا ڈھانچہ کثیررنگی ہے جس میں ایسے لوگ شامل ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں جو انہیں یکجا کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔
پاکستان کو اپنے خطے کے اندر بھی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ ہر طرف سے کشیدہ ماحول میں گھرا ہے جو اس کی مسلم اساس کو اکساتی ہے، اسے بدھ مت اورہندو مت کے علاوہ کٹڑپسند نظریات اور عدم برداشت کا بھی سامنا ہے۔
یہی وہ سبب ہے جس کی بناء پر تشدد پسند مسلم گروپ وجود میں آئے جو افغانستان میں موجود قبائل کے علاوہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے بھی وابستگیاں رکھتے ہیں۔ یہ گروپ مثلاً جامع اسلامیہ، ایسوسی ایشن آف مسلم سکالرز،تحریک اسلامی اور دیگر درحقیقت اسامہ بن لادن اور اس کی تحریک کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ تعداد میں بے شمار ہیں جو واشگاف انداز میں اسلام کے کٹڑپسندانہ تصور کا پرچار کرتے ہیں۔
اسرائیلیوں اور امریکیوں کو ایسے کٹڑپسند گروپوں سے خطرہ یہ ہے کہ یہ اگر اس بات پر تل جائیں تو اقتدار پر بھی قابض ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ریاست کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں جو ممکن بھی ہے، تو یہ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لئے بڑی خطرناک بات ہو گی۔ دوسری جانب اگر سیاسی جماعتیں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی یا خواہ فوج بھی برسراقتدار ہوں تو حالات قدرے محفوظ رہیں گے کیونکہ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ذمہ دار ادارے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ کوئی پائیدار حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
اگر ان انتہاپسند گروپوں میں سے کوئی برسراقتدار آ جاتا ہے تو ایٹم بم کی چابی ان کے ہاتھ آجائے گی۔ یوں پاکستان، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے لئے دلدل بن گیا ہے۔ اس متوقع طور پر خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہ لوگ پاکستان اور پڑوسی بھارت کے درمیان کشیدگی کو زیادہ شدید کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں۔
پاکستانیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا دشمن ہندو ہے یہودی یا عیسائی نہیں۔ یوں ان کے بم کا رخ اسی کی طرف یعنی پاکستان کے اولین دشمن کی طرف ہے کسی اور کی طرف نہیں۔ اسی طرح بھارتیوں کو اس یقین میں مبتلا کر دیاگیا ہے کہ ان کا اصل دشمن پاکستان ہے اور پاکستانی بم کا رخ اسرائیلیوں یاامریکیوں کی طرف نہیں بلکہ ان کی طرف ہے۔
اس پالیسی کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے ذہن پر بھارت سوار رہے اور بھارت کے ذہن پر پاکستان۔ شاید اسی لئے امریکی تنازعہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے جبکہ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ یہ آگ اسی طرح ہمیشہ جلتی رہے۔
کشیدگی اور تنائو کا سلسلہ جاری رہے اور اسی طرح ایٹمی پاکستان ایک خطرہ بنا رہے گا۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کی طرف سے کسی بھی طریقے سے خود کو اس دلدل سے نکالنے کی کوششیں بھی کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ کچھ بھی ہو اس کھیل کا انجام خطے اور دنیا دونوںکے لئے خطرناک ہو گا۔
بشکریہ واشنگٹن ٹائمز
No comments:
Post a Comment