Friday, September 3, 2010

رمضان اور دو قومی نظریہ


رمضان اور دو قومی نظریہ
  
عامرہ احسان سابق رکن قومی اسمبلی
بشکریہ  نواۓ وقت 4ستمبر

پاکستان کا شمسی یوم آزادی 14 اگست کو آیا اور گزر گیا۔ جسے اب یوم آزادی سے بڑھ کر یوم پیدائش کہنا زیادہ قریں از صواب ہو گا کیونکہ آزادی تو ہم آٹھ سال ہوئے گروی رکھ چکے۔ قوم سے پوچھے بغیر پرویز مشرف نے آزادی امریکہ کے ہاتھ رہن رکھوا دی تھی۔ جو ہر آنیوالے دن کیساتھ خاکم بدہن ضبطی کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے۔ لاکھ صفائیاں پیش کر لیجئے لیکن اسلام آباد سے روات تک کہوٹہ کو سونگھتا‘ جھانکتا امریکی سفارتخانہ بڑھتا پھیلتا آپکی آزادی سلب کرنیوالی عفریت بن چکا ہے۔ ہالبروک صاحب تکلف برطرف کرکے اب یہیں قیام پذیر ہو جائیں تو بہتر ہے۔ ہر وقت کی آنیاں جانیاں پھرنیاں ہمیں زیادہ تکلیف دیتی ہیں اگرچہ اب تو حال یہ ہے کہ…؎
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
قوم نے بھی نیم رضامندی والی خاموشی کے ساتھ مستقل اور مسلسل اس بڑھتی پھیلتی غلامی کو گوارا اور قبول کیا ہے۔ غلامی کی یہ تلخی اب ہمیں کڑواہٹ کا ذائقہ بھی نہیں دیتی۔ ہم تو یوں بھی چینی کی عدم دستیابی کے غم میں اتنے گھلے جا رہے ہیں کہ غلامی کے ذائقے کا غم بھی بھول بیٹھے ہیں۔ بلکہ اب تو غلامی کے اس دارو سے شفا کے فلسفے ہم کشید کر رہے ہیں۔
لہذٰا دنیا دار دانشور فوائد غلامی (امداد ڈالر‘ اسلحہ و غیر ہم) اور فضائل غلامی دیندار دانشور ہمیں لکھ پڑھ بول کر سمجھاتے رہتے ہیں۔ من حیث القوم ہم ایمان لائے بیٹھے ہیں کہ امریکہ جبار ہے قہار ہے۔ رازق ہے مائی باپ ہے۔ سیٹلائٹ نیٹ ورک کی بدولت علیم ہے خبیر ہے لطیف ہے۔ ساری صفات خداوندی لاالہ الا امریکہ کا کلمہ پڑھنے والوں نے امریکہ کو دے ڈالیں۔ البتہ اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ غلامی امریکہ کی اور رحیمی اللہ کی۔ قرآن چونکہ بند پڑا ہے۔ نہ قوم کے نصابوں میں ہے (لارڈ میکالے مردہ باد!) نہ زندگی کے خوابوں میں‘ صرف مُردوں پر پڑھے جانے اور جن بھوت بھگانے کیلئے سنبھال رکھا ہے۔ ادب سے چوم کر اتنی اونچی جگہ رکھو کہ عملی زندگی میں دخیل نہ ہو سکے۔ وہ جو کتاب زندگی تھی۔ لمحہ لمحہ کی رہنمائی تھی جسے لیکر اٹھنے والوں نے رہتی دنیا تک کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔

اونٹوں کے چرانے والوں نے اس شخصؐ کی صحبت میں رہ کر

قیصر کے تبخسر کو روندا کسرٰی کا گریباں چاک کیا
قرآن کی تعلیم اور نبی کریمﷺ کی رہنمائی یکجا ہوئیں تو تیئس سال کے قلیل عرصے میں دنیا میں وہ نظام زندگی استوار ہو گیا جو خوف میں امن اور بھوک میں رزق کا ضامن ہوا۔ جس سے سیرت و اخلاق اور کردار کے ایسے ایسے معجزات رقم ہوئے جو رہتی دنیا تک نگاہوں کو خیرہ کرتے رہیں گے۔ ہمارا حقیقی یوم آزادی تو ستائیس رمضان المبارک ہے کہ جب اللہ نے معجزے کے طور پر انگریز اور ہندو کی دہری غلامی سے ہمیں نجات دلائی۔ ہمارے اس وعدے اور دعوے کی پرکھ کیلئے کہ ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔! آج ہم اس وعدے سے نگاہ ملانے‘ قبول کرنے کو بھی تیار نہیں کہ مقاصد قیام پاکستان میں یہ بھی کہیں تھا۔! پیٹ کی نگاہ سے دنیا کو دیکھنے والے دو قومی نظرئیے کی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ 27 رمضان کا یوم پیدائش یوم آزادی بذات خود ایک علامت ہے‘ اشارہ ہے۔ امریکہ کے اشارہ ابرو پر ملک کے سودے کرنیوالے۔ طبلے کی تھاپ پر رقص کناں قیادتوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ملک کی بیٹیاں بیچ دینے‘ بیٹے بھون ڈالنے والے تو ملک اسلامی کی شناخت کیونکر گوارا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ رمضان یوں بھی دو قومی نظریے کا عالمی مہینہ ہے۔! رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی پوری دنیا دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ کتب علیکم الصیام (البقرہ) تم پر روزے لکھ دئیے گئے۔ کے حکم پر لبیک کہنے والے ایک طرف اور دوسری جانب دنیا کا وہ دوسرا کیمپ جس میں ہمہ نوع کفار یکجا ہیں۔ یا پھر ’عذر شرعی والے ضعیف‘ بیمار‘ مسافر‘ حائضہ‘ حاملہ‘ مرصفہ (شیرخوار کی ماں) اس آئینے میں اپنا مقام دیکھ لیں۔ دو قومی نظریہ عالمی سطح پر کار فرما ہے۔ چھٹ چھٹ کر دنیا کے ہر حصے میں یہی دو لائنیں‘ یہی دو پارٹیاں تشکیل پاتی ہیں۔ رمضان دنیا کی امامت کیلئے چنیدہ مومن کی تربیت کا مہینہ ہے۔ چھ ارب انسانوں میں سے اللہ نے جن سوا ارب مسلمانوں کو منتخب کر کے حامل قرآن بنایا تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا وارث بنایا تھا۔ پوری دنیا کی حیثیت مسجد کی تھی اور اس پر امامت بندہ مومن کو کرنی تھی۔ حیوان اور انسان کے مابین اصل فرق ایمان بانصیب کا ہے جو نہ ہو تو انسان محض دوٹنگا حیوان ناطق بن کر رہ جاتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ آج گلومل مسجد کا امام وہ ہے جو خنزیری بخار میں پھنک رہا ہے اور پوری دنیا میں اس تہذیب کے وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ہے اور مسلمان نہ صرف اس کی پادریانہ امامت پر راضی ہے بلکہ اس کا ادنیٰ غلام بنا بیٹھا ہے۔ دنیا بھر میں دو ہی ممالک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ اسرائیل اور پاکستان‘ اول الذکر ہر آنیوالے دن کیساتھ گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہم ہر آنیوالے دن کیساتھ سمالر پاکستان (Smaller) (خدانخواستہ) کی طرف گامزن ہیں۔ بلوچستان سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ حکمرانوں کے پاس نہ فرصت ہے نہ غم ہمارے حکمران امریکہ کے اردلی بن چکے ہیں۔ قصور ہمارا ہی ہے۔ ’’اعمالکم عمالکم‘‘کیمطابق (تمہارے اعمال تم پر حکمران ہیں) اسے بچانے سنبھالنے کا اور دوسری جانب ہم ایڑی چوٹی کا زور لگا کر قبائلی پٹی کو پاکستان سے مار مار کر نکالنے‘ متنفر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
ماہ مبارک میں بھی ساری دوڑ دھوپ امریکہ کی خوشنودی کیلئے کرتے کرتے ذرا قرآن کے صفحات پر آگے آنیوالے زندگی کے روز و شب بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ آج پورے پاکستان کی جیلیں دہشت گردی کے نام پر ان نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن کے سینوں میں قرآن محفوظ ہے جن کی پیشانی سجدوں پر گواہ ہے۔ جو پاکستان کے دشمن ایک لمحے کو بھی نہ تھے۔ وہ امریکہ کی آنکھ کا خار تھے۔ آج چور اچکے ڈاکو لٹیرے سب آزاد ہیں اور یہ پاکباز دارورسن کی نذر! کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد‘ کسی نوجوان کو دہشت گردی زبردستی اگلواتے مار ڈالا۔ کتنے خاندان دربدر کئے۔ ایک وقت تھا کہ دشمنی میں چرس‘ ہیروئن ڈال کر پرچے کاٹے جاتے تھے۔ پولیس ایجنسیاں ’را‘ کے ایجنٹ تلاش کرتی تھیں۔ آج داڑھیوں‘ ٹوپیوں‘ عماموں والے راکعین‘ ساجدین‘ خاشعین‘ جیکٹ‘ ہینڈ گرنیڈ ڈال کر دھرے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر جسے چاہو دھر لو۔ کسی زمانے میں منہ سونگھتے پھرتے تھے۔ نکاح نامے طلب کرتے تھے۔ آج جہادی لٹریچر (قرآن‘ حدیث) ڈھونڈا پکڑا جاتا ہے۔ لہٰذا چور ڈاکو‘ ذخیرہ اندوز‘ ملاوٹی‘ لٹیروں کی چاندی ہے وہ مجرموں کی فہرست سے خارج ہو چکے۔ پاکستان کی محبت بسلسلہ اسلام دو قومی نظریہ اور ایمان تازہ جرائم ہیں۔ جیلیں‘ عقوبت خانے‘ ہر روز بڑھتی پھیلتی گمشدگان‘ لاپتہ نوجوانوں کی فہرست سب انہی پاکباز نوجوانوں سے متعلق ہے۔ آزادی‘ تحفظ‘ پروٹوکول‘ سیکورٹی اس مملکت خداداد میں حق ہے بلیک‘ واٹر تنظیم کا۔ گوری چمڑی والے کا‘ امریکی سفارتخانے کے باہر ہماری پولیس اور ’آزاد‘ شہری کو دھمکانے والے امریکی اہلکار کا‘ ہم اپنی ہی سرزمین پر گھگھیا گھگھیا کر جئیں؟
یادش بخر ہم آزادی کے اس ذائقے کی خاطر امریکہ سے چھوٹے چھوٹے بچے بغل میں داب کر پاکستان لوٹے تھے۔ وہاں پیدا ہونیوالے بچے کیلئے امریکی شہریت لینے کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے اس کا اندراج اپنے ہاں بحیثیت پاکستانی کے کروایا تھا۔ غیور مسلمان اور غیور پاکستانی ہم بھی تھے اور ہماری اولاد بھی۔ لیکن آج وہ پاکستان پہچانا نہیں جا رہا جس کی محبت اسلام کی بنا پر ہمارے رگ و ریشے میں سمائی تھی!



کس کی خبر پر نظر ہے؟
یہ مضمون جسارت کے سنڈے میگزین میں ابو سعد کی جانب سے شائع ہوا ہے

روز اخبارات کے صفحات پر کئی بڑی باتیں چھوٹی خبروں کی صورت میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ترجیحات کے علاوہ نیوز ایڈیٹرز کی کوتاہ بینی بھی اس کا سبب ہوسکتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے نیوز رومز میں بیٹھے افراد کے ساتھ ایک نشست میں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترجیحات اور کوتاہ بینی میں سے کون سا عنصر غالب ہوگا۔
معروف نیوکونز ڈینیل پائپس کے خیال میں وہ زمانہ گیا جب جنگوں کے فیصلے میدانِ جنگ میں موجود سپہ سالار کیا کرتے تھے۔ اب نیوز رومز میں بیٹھے افراد ہی دراصل شہسوار ہیں جن کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ یہ بات امریکی اخبارات میں بیٹھے خبر سازوں پر تو صادق آتی ہے لیکن پاکستانی نیوز ایڈیٹرز صرف ابلاغی مزدور معلوم ہوتے ہےں جو خبر سازی کے فن کے تو ماہر ہےں لیکن خبر کے اندر کی خبر‘ اور مواد میں خبریت کے ادراک سے عاری۔ وہ دیہاڑی مار ہیں جوکسی کے لکھے ہوئے اسکرپٹ میں خاکے بھرتے ہیں۔ یہ تو اکثریت کا حال ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو ادراک رکھتے ہیں لیکن اس ادراک کی ڈالروں میں قیمت وصول کرلیتے ہیں۔
خبر کے اندر کی خبر کو تلاش کرنے کے دعویداروں اور ہر خبر پر نظر رکھنے والوں سے ابلاغ عامہ کا یہ طالب علم سوال کرتا ہے کہ اندر کی خبر کیا ہے، اور کس کی خبر پر اُن کی نظر ہے؟ اس بات کا جواب صحافت کو انڈسٹری کا درجہ دے کر خبر کا کاروبار کرنے والے تو شاید نہ دے سکیں لیکن کسی ٹی وی چینل کے دن بھر کے نیوز بلیٹن اور اخبارات کا تنقیدی مطالعہ بلاشبہ اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔ خبریت کا پیمانہ‘ اہم اور غیر اہم کی چھان پھٹک‘ سرخی اور مناسب جگہ کا انتخاب…. یہ سب معلومات کو درست خبر میں تبدیل کرنے کے عمل کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ بڑی خبر کا چھوٹا بن جانا اور چھوٹی خبر کو بڑا بناکر پیش کرنا یا تو شعوری طور پرکیا جاتا ہے یا پھر لاشعوری! اس لیے یہ تعین بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ حرکت کسی کی نیت کا فتور ہے یا پھر نااہلی کا نتیجہ! لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں صرف یہی ہوتا ہے؟ صرف بڑی خبریں چھوٹی بن جاتی ہےں؟ جی نہیں! یہاں کچھ مثالیں ایسی موجود ہیں جن کو دیکھتے ہوئے اس بدگمانی کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ یہ نااہلی کا نتیجہ نہیں بلکہ شعوری کوشش ہے۔
اپریل2009ءکو سوات کے علاقے کبل میں ایک نوعمر لڑکی کو سرعام کوڑے مارنے کی ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ طالبان کے حُلیے میں ایک شخص لڑکی کی پشت پر کوڑے برسا رہا ہے جبکہ ایک شخص نے اس کے پیروں اور دوسرے نے جسم کے اوپر کے حصے کو دبوچا ہوا ہے۔ اس موقع پر درجنوں افراد دائرے میں کھڑے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔ لڑکی چیختی چلاّتی پشتو میں فریاد کرتی ہے کہ ”میرے باپ کی توبہ ، میرے دادا کی توبہ آئندہ ایسا نہیں کروں گی‘ خدا کے لیے کچھ رحم کرو“۔

اس ویڈیو کے آتے ہی ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبریں، خبریں نہیں رہیں۔ ان خبروں کی معنویت اور خبریت یکایک ختم ہوگئی۔ اب صرف ایک خبر رہ گئی‘ سوات میں کوڑے مارنے کی ویڈیو۔ دینی نظام کے قیام کی دعویدار ”تحریک طالبان سوات“ نے سوات میں لڑکی پر کوڑے برسائے‘ ظلم کی انتہاءہوگئی۔ مذہب کے نام پر نظام آیا تو درندگی کے یہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ کوڑے مارنے کی وحشیانہ سزا اور وہ بھی کئی مردوں کے سامنے بیچ سڑک پر…. یہ ہے اسلام کا نظام عدل! کیا اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد خواتین کو کوڑے مارے جائیں گے؟ کیا سوات میں اسلامی نظام عدل کے نفاذ کے بعد وحشت و دہشت کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے؟ یہ سوالات اتنی دفعہ کیے گئے کہ جیسے اصل مسائل کی جڑ ہی اسلامی نظام عدل تھا جو ابھی نافذ بھی نہیں ہوا تھا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات ہی کیا…. یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ صرف ایک دن بعد ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس کا ازخود نوٹس لیا۔ اور پھر لندن کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے لے کر رائیونڈ تک اور بلاول ہاس سے ولی باغ تک ہر جگہ سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوز رومز کو فیکس موصول ہونا شروع ہوگئے۔
تاہم ایک سال بعد یہ ویڈیو جعلی نکلی۔ اداکاری کرنے والے گرفتار اور بنانے
والی ثمر من اللہ جو چیف جسٹس کی معزولی کے وقت ان کے ترجمان اطہر من اللہ کی بہن ہے‘ امریکا فرار ہوگئی۔ ایک ویڈیو جس کی تصدیق کرنا مشکل تھا، بڑی خبر بنی۔ لیکن وہ ثبوتوں کے ساتھ جعلی نکلی تو خبر نہیں۔ یہاں پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے میڈیا کی نظر کس کی خبر پر ہے؟ اور خبر کے اندر کی کیا خبر ہے؟ مقام افسوس تو یہ ہے کہ اس کا ’نوٹس‘ بھی نہیں لیا گیا۔ شاید اس لیے کہ میڈیا نے اسے جعلی قرار نہیں دیا؟
عراق کے مضافاتی علاقے میں امریکی اپاچی ہیلی کاپٹروں کی نہتے مسلمان
شہریوں پر فائرنگ کی ویڈیو منظرعام پر آئی تو یہ خبر بھی پاکستانی میڈیا کے لیے خبر نہ بن سکی۔ سوات ویڈیو کے جعلی ثابت ہونے کی خبر نہ چلانے کی طرح یہاں بھی جان بوجھ کر اس کو خبر نہیں بنایا گیا کہ اس سے ان کے خیال میں مسلم دنیا کے بچوں میں”پھول“ تقسیم کرنے والے امریکا کے خلاف منفی جذبات جنم لیں گے۔
انتہا تو یہ کہ امریکا کے بارے میں رائے عامہ کو بہتر بنانے کے لیے
”امریکی آواز“ پاکستانی ٹی وی اور ایف ایم چینلز سے سنوائی جاتی ہے لیکن امریکا پاکستانی آواز کو سننے پر تیار نہیں ہے۔ اس وقت دو نجی مگر موثر ٹی وی چینلز پر امریکی سرکاری نشریاتی ادارے ”وائس آف امریکا“ کا اردو پروگرام نشر کرکے پاکستانیوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ سرکاری ریڈیو پر اس کا پروگرام ڈیوہ احتجاج کے بعد بند کردیا گیا لیکن ہر کسی پر تنقید کو اپنا حق سمجھنے والے نجی چینلز اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو ’کنسپریسی تھیورسٹ‘ قرار دے کر ان کے احتجاج کو نظرانداز کرکے گمراہ کن پروپیگنڈے کے تشہیر کار بند رہے ہیں۔ ایک طرف یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ چل رہا ہے تو دوسری طرف بڑی بڑی خبروں کو ’ڈسٹ بِن‘ کی نذر کیا جارہا ہے اور پھر دعویٰ یہ کہ میڈیا آزاد ہے۔ ہاں آزاد ہے مگر اہلِ پاکستان کو گمراہ کرنے کے لیے‘ یک طرفہ موقف پیش کرنے کے لیے۔ ہر خبر پر نظر رکھنے والوں کو جب ایسی کوئی خبر نظر آتی ہے تو ان کی نظر خبر پر پڑنے کے فوراً بعد ’ڈسٹ بِن‘ پر پڑجاتی ہے۔
دلچسپ خبر یہ آئی ہے کہ پاکستان کے ایک ابلاغی گروپ نے نیو یارک ٹائمز کے
گلوبل ایڈیشن ’انٹرنیشنل ہیرالڈٹریبیون‘ کے اشتراک سے ”دی ایکسپریس ٹریبیون“ کا اجراءکردیا ہے جو اس گروپ کے اخبار کے 13اپریل کے ادارتی نوٹ کے مطابق ”صرف انگریزی زبان کا ایک اخبار نہیں بلکہ ایک مشن ہے۔“ یہ مشن کیاہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اخبار آگے لکھتا ہے: ”یہ روشن خیالی‘ خرد افروزی اور جمہوری اقدار کی حمایت کا مشن ہے۔ ہم قانون کی حکمرانی کے لیے وقف ہیں‘ ہماری ٹیم کا یہ صحافتی عہد ہے کہ ان کے قلم اور صلاحیتیں غربت‘ استحصال‘ انتہا پسندی‘ کٹھ ملائیت‘ عدم رواداری اور دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے وقف ہوں گی۔
اخبار مزید لکھتا ہے ”اس (ایکسپریس ٹریبیون) کی ادارتی ٹیم وسیع النظر
‘ جہاندیدہ‘ تجربہ کار‘ ذہین اور قومی جذبے سے سرشار سینئر صحافیوں پر مشتمل ہے جن کی کوشش ہوگی کہ سیاست‘ معیشت‘ سماج‘ خارجہ پالیسی‘ سرمایہ کاری‘ کھیل اور فنون لطیفہ میں لبرل‘ روشن خیال‘ آزادانہ‘ فکر انگیز اور جامع پریز نٹیشن کے ساتھ رپورٹیں شائع ہوں۔
لبرل ازم کیا ہے اور رپورٹیں لبرل کیسی ہوں گی اس پر بحث آگے…. پہلے یہ
دیکھتے ہیں کہ ادارتی نوٹ مزید کیا بتاتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان میںایک ’اقلیتی مائنڈسیٹ‘ کی کارروائیوں کے باعث منافرت‘ تعصب‘ دہشت گردی‘ مذہبی انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ ملا ہے، اس کے علاوہ بیروزگاری اور مہنگائی کے مسائل ہیں۔ اور ان سب مسائل کا حل وہ یہ بتاتا ہے: ”ایکسپریس ٹریبیون کا اپنے قارئین سے یہ عہد ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خاتمے اور معیشت کو استحکام دینے کے لیے ملک کے70فی صد نوجوانوں کی صلاحیتیوں کو بروئے کار لانے کے لیے آزادانہ اور ترقی پسندانہ خیالات کے فروغ میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔
اخبار کے شذرہ نے ”مذہبی انتہا پسندی“ کو بے روزگاری‘ تعصب اور منافرت
سمیت پاکستان کی ہر بیماری کی جڑ قرار دیا اور اس کی اصلاح کے لیے ”آزادانہ اور ترقی پسندانہ“ خیالات کو تریاق ٹھیرایا جیسے کہ پاکستان کی سب سے بڑی بیماری بدعنوانی‘ اقربا پروری‘ پولیس اور ریاستی اداروں کے تشدد کے ذمہ دار مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ ہوں۔ کسی ذہین اور محب وطن کے لکھے اس ادارتی نوٹ سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر بدعنوان رہنما اور امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز میاں نوازشریف‘ جعلی لائسنس جاری کرنے والے بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران‘ گاڑی کے ٹائروں پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کرنے والی میڈم اسپیکر‘ ریلوے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے والے غلام احمد بلور‘ خون میں لت پت دہشت گردی کے شکار سرحد کے عوام سے ”ایزی لوڈ“ کروانے والے حیدرہوتی‘ بجلی چور‘ اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے بینکوں کے قرض خور سیاستدان سب کے سب جمعہ کو مساجد میں خطبہ دیا کرتے ہیں؟
اداریہ لبرل ازم اورآزادانہ خیالات کی بات کرتا ہے جو یقیناً اس کے شراکت
دار نیویارک ٹائمز کے مقاصد میں بھی شامل ہے۔ یہ نیویارک ٹائمز کی لبرل رپورٹنگ ہی تو تھی کہ ’عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار پائے جاتے ہیں‘۔ اور کیا اس نے غلط کہا تھا؟ بعد میں تلف کیے جانے والے ہتھیار وہ لاکھوں معصوم بچے بڑے ہوکر تباہی تو پھیلا سکتے تھے؟ امریکا مسلمانوں کے بچوں کو ہی تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سمجھتا ہے۔
امریکا دراصل مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراق
‘ فلسطین‘ چیچنیا‘ افغانستان اور پاکستان…. سب جگہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ خون بہانے والا امریکا ہے۔ کہیں وہ خود مار رہا ہے، کہیں مسلمانوں سے مسلمانوں کو مروا رہا ہے۔ مارنے والوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ پاکستانی میڈیا ”لبرل ازم“ اور ”آزادانہ خیالات“ پر مبنی رپورٹنگ کرتا ہے، جہاں اس خبر کی جگہ نہیں بنتی جس کے مطابق ”خیبر ایجنسی کے علاقہ تیراہ میں پاک فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے71 بے گناہ مسلمان تھے۔ ان کا ’دہشت گردوں‘ سے کوئی کام تھا نہ ہی انتہا پسندی سے کوئی تعلق۔ تعلق تھا تو فوج اور ایف سی سے۔ اکثر شہدا کے بچے فوج اور ایف سی کے ملازم ہیں۔
ہفتہ کی صبح خیبر ایجنسی میں پاکستانی جیٹ طیاروں کی اندھادھند بمباری
سے71 افراد کی ہلاکت کے بارے میں تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ پرامن شہری تھے اور ان کا کوئی تعلق مبینہ دہشت گردوں یا انتہا پسندوں سے نہیں تھا۔ حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے شہداءکے ورثاءکو ایک لاکھ 25ہزار ڈالرکے برابر معاوضہ دیا ہے جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ مرنے والے بے گناہ تھے۔ تاہم فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہرعباس نے پیر کو بھی اصرار کیا ہے کہ پاک فضائیہ کے حملے میں کوئی شہری نہیں مارا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے پاس پکی اطلاعات تھیں کہ عسکریت پسند اس مقام پر جمع ہورہے ہیں جہاں حملہ کیا گیا ہے۔ تاہم خیبر ایجنسی اے پی کے مطابق فوج ہمیشہ یہی دعویٰ کرتی ہے کہ حملوں میں کوئی بھی شہری نہیں مارا گیا۔ ہفتہ کی صبح کو اس حملے میں زخمی ہونے والے 2افراد نے پشاور کے اسپتال میں بتایا کہ پہلا حملہ علاقے کے ایک بزرگ کے گھر پر ہوا، اور جب مقامی لوگ مدد کودوڑے تو دوسر احملہ کردیا گیا۔ علاقہ کے شہری گل خان نے بتایا کہ گاں سراوالا کے لوگوں کا کوئی تعلق عسکریت پسندوں سے نہیں ہے اور بیشتر گھروں کے نوجوان سیکورٹی فورسز میں کام کررہے ہیں‘ سب سے پہلے حامد خان کے گھر پر بمباری کی گئی جس کے 2لڑکے پیرا ملٹری فرنٹیر کور میں کام کررہے تھے‘ پولیٹیکل افسر نے تصدیق کی ہے کہ شہید ہونے والے 71افراد کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کردیا گیا ہے۔ ایک زخمی ولی باز خان نے بتایا کہ جب پہلا حملہ ہوا تو ہم مدد کو دوڑے اور ایک زخمی عورت کو سب نکال رہے تھے کہ پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے دوسرا حملہ کردیا۔ اس نے بتایا کہ پیر کو خیبر پولیٹیکل انتظامیہ کے ایک افسر نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس آکر اسے اس کے 4رشتہ داروں کی ہلاکت کا معاوضہ 220 ڈالر پیش کیا ہے۔ افسران نے اس سانحہ پر معذرت بھی کی، ہلاک ہونے والوں میں میرا بھائی بھی تھا۔ اپریل کے مہینے میں اب تک پاک فوج کی طرف سے 273 پاکستانی ہلاک کیے جاچکے ہیں‘اب تک ہزاروں پاکستانیوں کو مارا جاچکا ہے‘ لیکن کہا جاتا ہے اور فوج کے ترجمان بضد ہےں کہ مارے جانے والے انسان نہیں‘ معاف کیجیے بے گناہ نہیں بلکہ سب کے سب دہشت گرد تھے۔ جی ہاں سب دہشت گرد تھے کیوں کہ میڈیا نے کہہ دیا کہ وہ دہشت گرد تھے۔ قتل ہونے والوں کا بے گناہ ثابت ہونا ہمارے میڈیا کے نزدیک خبر نہیں ہے، اور ہر وہ خبر‘ خبر ہے جسے پاکستانی میڈیا خبر کہتا ہے۔ اس کا نوٹس بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن میڈیا کے قاری اور ناظر دونوںکو اب اس بات کا ادراک ہوجانا چاہیے کہہمارے میڈیا کی کس خبر پر نظر ہے۔


اللہ سے تعلق
 
اوریا مقبول جان
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

ابھی نفسیات کا علم اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن پھر بھی چند ایک علامتوں کی بنیاد پر مخصوص امراض کے نام ضرور رکھے جاچکے تھے۔ یوں تو فرائیڈ اور اس کے ساتھیوں ینگ اور ایڈلر کے خیالات اور نظریات نے ذہنی امراض کو سمجھنے کے نئے نئے راستے دریافت کرلیے تھے اور تحلیل نفسی، شعور، لاشعور اور تحت الشعور جیسے تصورات عام ہو چکے تھے مگر پھر بھی ابھی تک معاشرہ پاگل پن کو ایک لایخل مسئلہ ہی سمجھتا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں ایک مرض کا بہت چرچا ہوا جسے ہسٹریا کہتے ہیں۔ اس مرض کے بارے میں آج بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ عورتوں کا مرض ہے بلکہ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ یہ غیر شادی شدہ عورتوں کی دیر تک شادی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس مرض کا شکار مردوں کی تعداد عورتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس مرض میں ہوتا یہ ہے کہ آدمی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنے اوپر ایک خول چڑھا لیتا ہے اور ان حقیقتوں سے شتر مرغ کی طرح دور ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ذہنی حالت جسمانی طور پر بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً عارضی فالج، عارضی اندھا پن یا پھر کوئی ایسی شدید بیماری یا ذہنی حالت جو اس تلخ حقیقت کے سامنے آتے ہی پیدا ہو جائے، جیسے جسم کا انٹھنا، مستقل قے یا متلی وغیرہ۔ نفسیات دان اس وقت بھی اس مرض کی وجوہات جاننے میں لگے ہوئے تھے کہ جنگ عظیم دوم چھڑ گئی اور پھر دونوں جانب کے فوجیوں میں ہسٹریا کا مرض عام ہونے لگا۔ کوئی ڈیوٹی کے وقت اندھا ہو جاتا تو کوئی فالج زدہ۔ جنگ میں لوگوں کی ضرورت تھی اسی لیے ہر ملک کی فوج نے بہت سے دماغی امراض کے ماہرین کو اپنے ہاں ملازم رکھا تاکہ وہ ان کو ٹھیک ٹھاک کر کے جنگ کے قابل بناسکیں۔ یہ سب کچھ تھا، ذہنی امراض تھیں، ہسٹریا تھا لیکن اکا دکا خود کشی کا کیس سامنے آتا۔ اس زمانے میں فوج کے ذہنی مریضوں کو بجلی کا شاک دینے کا رواج عام ہوا۔ وہ اس اذیت سے گھبرا کر ٹھیک ہو جاتا اور پھر اسے جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا۔

لیکن یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ افغانستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں، ریگستانوں اور سرسبز علاقوں میں امریکی فوجی یوں تیتروں اور بٹیروں کی طرح مارے جارہے تھے کہ پوری فوج میں ایک ایسی سراسیمگی پھیلی کہ زندگی کے خوف سے فوجی موت کی آغوش میں اترنے لگے۔ خودکشی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال تک نہیں ملتی۔ آرمی سیکرٹری پیٹے گیرین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو کہا کہ اس وقت ایک لاکھ فوجیوں میں سے 21 فوجی ایسے ہوتے ہیں جو جنگ سے تنگ آکر اس قدر ذہنی افسردگی اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں کہ اپنی جان خود ختم کرلیتے ہیں۔ یہ شرح عام امریکی معاشرے سے کہیں زیادہ جبکہ ہم فوج میں بھرتی کرتے وقت مکمل نفسیاتی جائزہ لیتے ہیں اور ذہنی طور پر فٹ لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔

ابھی گزشتہ سال کے اعداد و شمار منظر عام پر نہیں آئے لیکن 2008ء کے جائزوں کے مطابق ہر روز 18 امریکی فوجی خودکشی کرتے ہیں یعنی ہر سال 6500 امریکی تنومند جوان جن کے خوف سے میرے ملک کے لیڈر خود بھی کانپتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈراتے ہیں، اپنی جان سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ ویٹرین آفیسرز گروپ نے رپورٹ مرتب کی ہے جس میں بتایا کہ 2002ء سے 2008ء تک ایک لاکھ اٹھتر ہزار چار سو تراسی (1,78,483) فوجی جو افغانستان اور عراق میں ڈیوٹی کر کے واپس آئے تھے، پاگل پن یا ذہنی امراض کا شکار ہوئے۔ جن میں 92,998 شدید ذہنی کھچاؤ اور پاگل پن کی حالت میں تھے جبکہ 63,009 پر ایسی ڈپریشن طاری تھی کہ روز مرہ زندگی گزارنے سے معذور ہو چکے تھے۔ 35,939 ایسے تھے جو عمومی ذہنی امراض جنہیں Neurotic کہا جاتا ہے اس کا شکار ہوئے۔ وہ فوجی جنہوں نے ہیروئن اور ایل ایس ڈی جیسے نشے کا سہارا لیا ان کی تعداد 27,246 تھی۔ جبکہ کثرت شراب نوشی کا مرض جسے (Alcholism) کہتے ہیں، 16,217 لوگوں میں پایا جانے لگا۔ یہ سب کے سب امریکا کی بہادر فوج کے وہ سپاہی تھے جو افغانستان یا عراق میں ڈیوٹی کر کے لوٹے اور پھر کسی کام کے قابل نہ رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے تھے جو جنگ کے دوران نوکری چھوڑ گئے لیکن پھر بھی ان کو سکون میسر نہ ہوسکا۔ ان میں سے 144 نے اذیت سے چھٹکارا پانے کے لیے خودکشی کرلی۔

امریکی فوج نے اس نفسیاتی بھونچال سے بچاؤ کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کی جس پر 2007ء کے جون تک 85,000 فوجیوں نے مدد کے لیے پکارا جن میں سے 21,000 ایسے تھے جو چیختے تھے کہ میں خودکشی کرنے والا ہوں، مجھ سے اب مزید زندہ نہیں رہا جاتا۔ ویٹرین آفیسرز کے مطابق 17 لاکھ فوجیوں میں چار لاکھ ایسے تھے جنہوں نے ان جنگوں کے دوران ذہنی امراض کے ہسپتالوں کا رخ کیا۔ رینڈ کارپوریشن کے اندازوں کے مطابق افغانستان اور عراق میں ڈیوٹی دینے والوں میں سے تین لاکھ پچاس ہزار فوجی شدید قسم کی ذہنی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔

ان سب کی کہانیاں جسے نفسیات کی زبان میں کیس ہسٹری کہتے ہیں ان کا مطالعہ دلچسپ ہے۔ یہ سب اپنے معالجین کو ذہنی مرض یا خودکشی کے رجحان کی وجہ امریکی حکام کے وہ ظالم اور غیر انسانی احکامات بتاتے ہیں جن پر انہوں نے عمل کیا۔ انسانوں کی لاشیں دیکھیں، چیخیں سنیں اور پھر ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ ان میں اکثریت بلکہ سب کے سب کہتے ہیں کہ سارا میڈیا لوگوں کے سامنے جھوٹ بولتا ہے۔ افغانستان میں ہمیں فتح تو درکنار اپنی جان بچا کر محفوظ مقام پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے معالجوں کو کئی ایک واقعات ایسے بتائے جن میں میڈیا لوگوں کو فتح اور قابو پانے کی خوشخبری سناتا ہے اور ہم کسی اور کرب اور شکست کو دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ 2002ء کا ہے جسے آپریشن ایناکونڈا کہا جاتا ہے جس میں شاہی کوٹ میں طالبان کمانڈر سیف الرحمن منصور کے مرکز پر حملہ کیا گیا تھا۔ ہم سب کو فتح اور مکمل طور پر تباہ کرنے کے غرور کے ساتھ وہاں لے جایا گیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہماری برتری اتنی ہے کہ یہ سب طالبان گاجر مولی کی طرح کاٹے جائیں گے۔ صرف ایک ہزار طالبان ہیں۔ ہم ان کا قبرستان بنادیں گے۔ لیکن اس آپریشن میں تو ہمارے سولہ ہیلی کاپٹر مار گرائے گئے جن میں اپاچی اور چینوک شامل تھے۔ مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لیکن ہمارے بائیس سپیشل فورسز کے جوان زندہ گرفتار کرلیے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ گوانتا ناموبے کے تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ دنیا کو امریکی میڈیا بتاتا رہا کہ ہم نے طالبان کا مرکز تباہ کردیا ہے جبکہ ہم چار سو سپاہیوں کو واپس گاگرم بلا لیا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ ہم بائیس مغویوں کو برآمد کرنے کے لیے واپس آرہے ہیں۔ مطالبہ نا مانا گیا اور وہ بائیس مغوی بھی قتل کردیئے گئے۔

یہ آج سے آٹھ سال پہلے کا ایک واقعہ ہے جب پورا میڈیا، امریکی حکام اور ہمارے ملک کے حکمران اور کاسہ لیس دانشور امریکی جاہ و جلال کی باتیں کرتے تھے۔ ذلت آمیز شکست کی جانب سفر کرتے آٹھ سال ہوگئے ہیں اور اب تو امریکا کی بس اتنی خواہش باقی رہ گئی ہے کہ عزت سے افغانستان سے نکل جانے کا موقع میسر آجائے۔ ذہنی امراض کے اعداد و شمار بھی ایک سال پرانے ہیں۔ اب کیا حال ہوگا جبکہ جنگ میں شکست بھی نوشتۂ دیوار ہو چکی ہے۔ ابھی بھی میرے ملک کے عظیم دانشور اور دنیا کے ماہر تجزیہ نگار اسے پشتون قوم کی تاریخ اور ان کے نسلی کردار کی فتح قرار دیتے ہیں۔ کوئی اسے قوت ایمانی اور اللہ پر بھروسے سے جنگ جیتنے کی بات نہیں کرتا۔ لیکن انہیں اس بات کی حقیقت کا شائد علم ہی نہیں کہ پشتون قوم میں اسلام اس قدر راسخ ہے کہ وہ اس کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک پشتون کسی کو یہ طعنہ نہیں دیتا کہ تم کیسا مسلمان ہے کہ نماز نہیں پڑھتا بلکہ کہتا ہے تم کیسا پشتون ہے کہ نماز نہیں پڑھتا (تہ سنگ پشتانہ دی منز نہ کیہ)۔ حیثیت نسل ایسا تعلق اللہ سے جڑ جائے تو ایسی قوم کو کون شکست دے سکتا ہے
۔


مظلوموں کا انتقام

 جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ(سابقہ چیف آف سٹاف) دفاعی تجزیہ کار
بشکریہ نواۓ وقت 18 اپریل 2010

 
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر نے یہودی آبادی کا قتل عام کیا۔ لاکھوں افراد مختلف طریقوں سے ہلاک کئے گئے ۔تاریخ نے اس سانحے کو ’ہالوکاسٹ‘ کا نام دیا ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف روس‘ یہود و ہنود و نصاری کا ظلم و بربریت اور قتل عام جو سالہا سال سے جاری ہے وہ بے نام ہے اوراس کی مثال انسانی تاریخ میںنہیں ملتی ہے۔مسلمانوں کے خلاف روسی بربریت اخلاقی درندگی اور انسانی قدروں کی پامالی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے جس کا تذکرہ عالمی شہرت یافتہ دانشور اور معروف امریکی تجزیہ نگار ایرک ایس مارگولیس (Eric S. Margolis) نے اپنے حالیہ مضمون بعنوان Revenge of The Two Black Widows میں کیا ہے۔ یہ مضمون ملکی اور غیر ملکی اخباروں میں شائع ہو چکا ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔ مارگولیس لکھتے ہیں:
’’
گذشتہ ہفتے چیچن مجاہدین نے ماسکو کی ایک شاہراہ پر حملہ کرکے ۹۳ روسیوں کو قتل اور 70 لوگوں کو زخمی کر دیااور داغستان میں چیچن خودکش حملہ آوروں نے بارہ لوگوں کو قتل کیا جن میں اکثریت پولیس ملازمین کی تھیـ۔ ان حملوں کا سبب روسی دانشور کریملن کی غلط پالیسوئوں کو قرار دیتے ہیں جن کے سبب چیچنیا کا مسئلہ نہ صرف الجھا دیا گیا ہے بلکہ چیچن لوگوں کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔روس سے چیچنیا والوں کا انتقام مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ بدنام زمانہ روسی مافیا بھی خوفزدہ ہے۔ ’’دو خواتین‘‘ جو چیچن مجاہدین آزادی کی بیوائیں تھیں‘ انہوں نے گذشتہ ہفتے روسیوں سے انتقام لیا ہے۔
’’
شمالی کاکیشیا کے خطے میں روسی حکمرانی کے باوجود پر تشدد واقعات کا لاوا ابل رہا ہے۔ چیچنیا کے سابق لیڈر‘ دوکو عمر( Doku Umarov )جن کے تمام پیشروئوں کا روس نے صفایا کر دیا ہے‘انہوں نے کاکیشیا کے پہاڑو ں میں واقع اپنی پناہ گاہ سے دعوی کیا ہے کہ یہ حملہ کر کے روسی فورسز کی جانب سے چیچنیا کی سویلین آبادی کے قتل کا انتقام لیا ہے۔ انہوں نے روسی حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’جو کچھ ہم اتنے عرصے سے سہہ رہے ہیں اس کا ذائقہ اب تمہیں بھی چکھائیں گے۔‘‘ چیچن قبائل ‘شمالی کاکیشیا کے وہ سخت گیر لوگ ہیں جن کا تعلق انڈویورپین نسل سے ہے۔ کاکیشیا کے دیگر مسلم قبائل مثلاً داغستانی اور چرکاس یا سرساشین کے ساتھ مل کر چیچنیاکے مجاہدین ‘ روسی ایمپائر کیخلاف ایک سو تیس سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔
’’
ایک سو تیس سال قبل 1877ء میں زارروس نے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد 40 فیصد چیچنیوں کو قتل کر دیا تھا جن کی تعداد دو لاکھ بیس ہزار بنتی ہے اور چار لاکھ چرکاس قبیلے کے لوگوں کو ملک سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ اسٹالن جوکہ جارجیا سے تعلق رکھتا تھا چیچن لوگوں سے سخت نفرت کرتا تھا‘ اس نے چیچنیا کو تقسیم کر کے انگشتیا کی نئی سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے بعد جولائی 1937ء میں اس کی خفیہ پولیس NKVD نے چودہ ہزار چیچنیوں کو ایک ہی وقت میں قتل کر دیا تھاـ۔ 1944ء میںا سٹالن کے حکم پر تمام چیچنیوں کا گھیرائو کر کے انہیں مویشیوں کی گاڑیوں میں بند کر کے سائبیریا کے اذیتی مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا یا پھر برفانی میدانوں میں اکٹھا کر کے مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیاتھا۔ اسی طرح کلموک‘ تاتار‘ کراچئی اور بلقان کے لاکھوں مسلمانوں کواذیتی مراکز میں پہنچا دیاگیا تھاجہاں سردی کی شدت ‘ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے وہ موت سے ہمکنار ہوئے۔ اسی مناسبت سے سٹالن کو ’’قوموں کا قصائی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس نے پچیس لاکھ روسی مسلمانوں کو قتل کیا۔ سٹالن کی موت کے بعد چند مسلمان جو اذیتی مراکز میں زندہ بچ گئے تھے وہ چیچنیا واپس آئے اور 1991ء میں جب سویٹ یونین ٹوٹا تو دوسری سلطنتوں کی طرح چیچنیا والوں نے بھی روس سے آزادی کا مطالبہ کر دیا۔
’’
اس بغاوت کو کچلنے کیلئے روسی صدر بورس یلٹسن نے واشنگٹن میں کلنٹن انتظامیہ کی رضامندی سے چیچنیا پر چڑھائی کر دی اور ایک لاکھ سے زائد چیچن باشندوں کا قتل عام کیا اور چیچنیا کے صدرذاکر دائود بھی قتل کر دئیے گئے۔ اسکے باوجود غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیچن حریت پسندوں نے روسی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1999ء میں پوٹن جو چیچنیاکے سخت ترین مخالف تھے وہ روس کے صدر بن گئے۔دوسال بعد 9/11 کے حملوں نے امریکہ کو دو جنگوں کی کیفیت سے دوچار کردیا تو روسی افواج نے چڑھائی کر کے چیچنیا کی مزاحمت کو کچل دیا اور تمام ترقی پسندچیچن لیڈروں کو قتل کر دیاـ۔ آخری لیڈر’ ذلمی خان اندرابی ‘کو 2004ء میں قطر میں قتل کیا گیا جس کے بعدچیچنیا میں عسکریت پسندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ چیچنیا میں روس نواز پٹھو حکومت نے عوام پر اندھے اور کالے قوانین نافذ کر دئیے جن سے عوام کوطرح طرح کی اذیتیں دی گئیں‘ بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا ‘انہیں وسیع پیمانے پر انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور ایک لاکھ چیچن باشندوں کو قتل کردیا گیا۔ اس طرح اسٹالن کے قتل عام کے بعد 1991ء سے آج تک ایک چوتھائی چیچنیوں کو قتل کیا جا چکا ہے لیکن اسکے باوجود چیچن عوام جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’’
ایک قدیم کہاوت ہے کہ ’’چیچنیوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے مگر انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘ کا کیشیا کے علاقے میں پھیلتی ہوئی بغاوت ماسکو کیلئے خاصی پریشانی کا سبب ہے۔روسی صدر اورپوٹن نے چیچنیا ‘ داغستان اور انگشتیا میں مزاحمت کو مکمل طور پرختم کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ماسکواس دردناک کہانی کو ختم کردے۔ ‘‘
ظلم کی داستان تو بڑی طویل ہے اور پرانی بھی ہے۔ چیچنیا کی آزادی کی جنگ ایک سو تیس سال پہلے اس وقت شروع ہوئی جب روس نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کیا۔ ان پرڈھائے جانیوالے ظلم و بربریت کی جھلک آپ نے مارگولیس کی زبانی سنی۔ اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی سرزمین پر ’یہودی مملکت‘کا فتنہ کھڑا کیا گیا اور اس وقت سے لیکر اب تک مسلمانوں پر ظلم و ستم کے کوہ گراں توڑے جارہے ہیں۔ آج سے تقریبأ ایک سو اسی سال پہلے 1827ء میں ہندو راجہ کو کشمیر کا حکمران بنایا گیا جس کیخلاف مسلمانوں نے وادی منگ کے سرداروں کی قیادت میں جنگ لڑی۔ ہندو راجہ کے آٹھ ہزار سے زائد فوجی قتل ہوئے ‘ وہ بھاگا اور جموں میں جا کر پناہ لی لیکن کچھ دنوں بعد مصالحت کا پیغام دیا جو دھوکہ تھا اور جب کشمیری قیادت جمع ہوئی تو انہیں قید کر لیا گیا۔ سترہ قائدین کی زندہ کھالیں اتاریں اور انکی زندہ لاشوں کو مختلف چوراہوں پر اور وادی منگ کے اس بڑے درخت سے لٹکا دیا گیا جو اب بھی موجود ہے اور ہندو راجہ کی بربریت کی زندہ علامت ہے۔ پھر ہندو راجہ کی فوج نے بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام شروع کیا جو ہفتوں جاری رہا اور سولہ ہزار سے زیادہ مسلمان تہ تیغ کر دیئے گئے۔ غیر مسلم حکمرانوں کیخلاف کشمیری مسلمانوں کی یہ مزاحمتی تحریک ایک سو اسی سال سے جاری ہے۔ خصوصأ 1990ء کے بعد سے اب تک بھارتی فوجی درندگی کے سبب ایک لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں۔زمانہ جدید کا سب سے بہیمانہ مسلمانوں کا قتل عام پچھلے تیس سالوں سے جاری ہے‘ جو مہذب دنیا کے چہرے پر بد نما داغ ہے۔ مسلمان ملکوں کیخلاف غیر ملکی جارحیت کے سبب مسلمان ملکوں کو قتل گاہیں بنا دیا گیا ہے۔ مثلاً روس کا افغانستان پر قبضہ اور اسکے خلاف امریکہ کی مزاحمت؛ ایران عراق جنگ؛ خلیج کی 1991ء کی جنگ؛ 2001ء میںافغانستان پر امریکہ اور اتحادیوں کا قبضہ اور نو سالوں سے جاری خونریزی؛ عراق پر 2003ء میں امریکہ کا قبضہ جہاں اب تک قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ اسرائیل کا حزب اللہ ‘ حماس اور فلسطینیوں کیخلاف بدترین بربریت کا مظاہرہ۔ ان غیر ملکی جارحیتوں کے سبب ساٹھ لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ظالموں نے مظلوم مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے کہا جا رہا ہے کہ ’’ثبوت دو تم دہشت گرد نہیں ہو۔‘‘
ہمارا ایمان ہے کہ جب اللہ کی مخلوق پر ظلم ایک حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو مداخلت ایزدی(Divine Intervention) کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ مداخلت ایزدی دنیائے اسلام کی اس مدافعتی قوت کا نام ہے جو اسی(80) کی دہائی میںروسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی سر زمین سے ابھری اور آہستہ آہستہ چیچنیا سے لے کر فلسطینلبنان‘ عراق‘ افغانستان اور کشمیر تک پھیل چکی ہے۔ اس مدافعتی قوت کے سامنے دنیا کی ہر بڑی طاقت شکست کھا چکی ہے۔ یہ دور حاضر کامعجزہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ظالم طاقتیں… روس‘ یہود و ہنود و نصاری ۔ ظلم و بربریت کی دردناک ریاستی دہشت گردی کو ختم کر دیں کیونکہ’’مسلمانوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے لیکن انکی تحریک آزادی کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔‘‘ لازم ہے کہ مفاہمت اور امن کا راستہ اختیار کریں اورمہذب کہلانے کا شرف حاصل کریں۔



ویتنام سے بھی بد تر شکست کا سامنا
 مرزا اسلم بیگ
افغانستان میں قابض افواج کو 80٠٨ ء کی دہائی میں روس کی نسبت آج کہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا ہے کیونکہ مزاحمتی قوت پہلے سے کہیں زیادہ منظم اوربہترین اسلحہ سے لیس ہے ۔ سی آئی اے کی رپورٹ ''دی لانگ وار جرنل ''کے مطابق یہ تنظیم اب ''شیڈو آرمی'' کے نام سے جانی جاتی ہے جو متعدد ڈویژن پر مشتمل ہے ،ہر ڈویژن میں کئی لشکر ہیں۔شیڈو آرمی میں پرانے مجاہدین بھی شامل ہیں جنہوں نے روس کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں میں حصہ لیا تھا' افغانستان کے طالبان بھی ہیں'جن میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو تیس سال سے جاری جنگ کے سائے میں پیدا ہوئے اور جوان ہوکر ملک کی آزادی کی جنگ میں شامل ہیں اور جن کیلئے جنگ زندگی کا قرینہ بن چکا ہے؛ عراقی مجاہدین بھی ہیں جنہیں جنگ کا تجربہ ہے ؛پوری دنیا کے مختلف ممالک کے جہادی بھی ہیں اور القائدہ کا٠٠٥ بریگیڈ بھی شامل ہے۔یوں یہ ایک ناقابل تسخیر طاقت ہے جس نے کئی بڑے معرکوں میں قابض فوجوں کو شدید جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا ہے اور صرف گذشتہ دوماہ کے دوران قابض فوجوں کے ٠٥٢ سے زیادہ فوجی ہلاک کر دئے ہیں۔آئند چند ماہ بڑے اہم ہیں۔قابض فوجوں کو بڑی مشکل کا سامنا ہے اور وہ شکست سے دوچار ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر مختلف امریکی و بین الاقوامی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی تحریروں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں جو اس بات کا واضح اظہارکرتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں شکست ہو چکی ہے اور اب ان کے نکل جانے کا وقت آ چکا ہے:
''
امریکی فوجیں افغانستان کی جنگ میں تھک چکی ہیں اور عوام بھی تنگ آچکے ہیں۔'' (Robert Gates)۔''افغانستان میں صورت حال بتدریج خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے جہاں طالبان دن بدن طاقتور اور منظم ہورہے ہیں، اس صورت حال سے افغانی عوام اپنے مستقبل کے متعلق بہت زیادہ فکر مند ہیں ۔'' (Admiral M. Mullen)۔''افغانستان کو دوسراویتنام یعنی امریکی ایمپائر کا قبرستان بنایا جا رہا ہے۔'' (Martin & R. Hertzberg)۔ ''صدر اوبامہ کے متعین کردہ جنرل کرسٹل Chrystal) اور جنرل پیٹریاس (Petraeus) دونوںکی افغانستان کے بارے پالیسیاں بنیاد پرستی اور تزویراتی غلطییوں کا مجموعہ ہیں ۔'' (Noam Chomisky)۔ ''ہمیں افغانستان میں بدترین صورت حال کا سامنا ہے' امریکی اور اتحادی فوجیں شکست کھا رہی ہیں اور ہمارے نوجوان موت سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔''(Paddy Ashdown)۔''ایک کام جو ہم نہیں کررہے وہ یہ ہے کہ ہم وہ کام کریں جس کے زمینی حقائق متقاضی ہوں' یعنی قابض فوجیں اپنے سپاہیوں اور بے گناہ افغانیوں کے قتل سے بازآجائیں۔ تاریخ کے اوراق ایسے سپاہیوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیںجنہوں نے فرائض کی بجا آوری کی خاطر اپنی جانیں پیش کیں۔''(Adrian Hamilton)۔'' اوبامہ تقدیر کے لکھے کو نہیں بدل سکتے۔ نوآبادیاتی دور اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اسلیئے افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر امن و امان کا قیام ناممکن ہے۔'' ۔
ان بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے صدر اوبامہ کا اعتراف شکست ہے کہ ''ہم سب افغانستان سے پر امن واپسی چاہتے ہیںاور اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا لہذا عالمی برتری کی کوششیں ترک کرنا ہوں گی۔''
اقتصادی بحران اور عراق و افغانستان میں شرمناک شکست کے بعد امریکہ کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ افغانستان سے پرامن طور پر نکلنے کی سعی کرے اور معروف تجزیہ نگار ولیم پفاف (William Pfaff)کے اس تجزیے پر غورکرے: ''امریکہ جنگ کے نشے کا عادی ہو چکا ہے' یہاں تک کہ جنگی جنون اس کی قومی شناخت بنتا جارہا ہے۔اب یورپ میں یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ 'افغانستان امریکہ کیلئے ایک اور ویتنام ثابت ہوا ہے۔' جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان امریکہ کیلئے ویتنام سے کہیں زیادہ بدتر ثابت ہوگا کیونکہ ویتنام میں امریکہ کے مدمقابل ایک واضح دشمن تھا لیکن اسلامی مدافعتی قوت کے خلاف امریکہ کی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہے اور سایوں کا تعاقب کرتے کرتے تھک چکا ہے۔در اصل یہ نظریات کی جنگ ہے جسے جیتنے کیلئے امریکہ کے پاس کوئی مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔''اسلامی مدافعتی قوت سائے کی مانند ہے جس کا تعاقب کرتے کرتے دشمن تھک چکے ہیں۔ یہ قوت لامکان ہے '' جو حاضر بھی ہے اور غائب بھی' منظر بھی ہے اور ناظر بھی۔'' ایک پھیلتی ہوئی ' بڑھتی ہوئی ناقابل تسخیر قوت ہے' اس صدی کا معجزہ ہے جسے مغربی دنیا سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک چینی دانشور کا قول ہے:''کسی نظریاتی قوت سے مت ٹکرائو جب تک کہ تمہارے اپنے نظریات اس قوت کے نظریات سے اعلی اور ارفع نہ ہوں۔'' اسلامی مدافعتی قوت کے نظریات دین اسلام کے نظریات سے عبارت ہیں اور اللہ تعالی نے دین اسلام کے نظریات سے اعلی و ارفع دوسرا کوئی نظریہ پیدا نہیں کیا۔
امریکہ تاریخ کے دھارے کی الٹی سمت چل رہا ہے جبکہ تاریخ کا رخ ایسے عالمی نظام کی تشکیل کی جانب ہو چکا ہے جو اقوام عالم کے نظریات اور اختلافی سوچ کا احترام کرتے ہوئے جنگ اور بدامنی سے نجات کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں صرف چین ہی ایک ایسا ملک ہے جو پر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے پوری دنیا کے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت اور یورپی یونین نے بدقسمتی سے وہ راستہ منتخب کیا ہے جو امریکہ کا راستہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی قابل عمل حکمت عملی مرتب کریںتاکہ دنیا کو موجودہ بد امنی اور انتشار کی کیفیت سے نجات مل سکے۔معروف دانشور پیڈی اشدون (Paddy Ashdown)کا کہنا ہے کہ: ''عالمی طاقتوں کو چاہیئے کہ ان ممالک کو بھی مرکزی دھارے میں شامل کریں جو نہ صرف تاریخی ' سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ہم سے مختلف ہیں بلکہ ان کے نظریات اور سوچ بھی عالمی طاقتوں کی اقدار سے مختلف ہیں۔
''
بشکریہ روزنامہ اوصاف
 
دہشت گردکاروائیاں امریکہ کی منصوبہ بندی کے تحت کی جارہی ہیں، مرزا اسلم بیگ

پاکستان میں تخریب کاری کے لئے بلیک واٹر قبائلیوں کو دھوکے سے ترغیب دے کر استعمال کر رہی ہے ؛ تخریبی کاروائیوں کا اگلا ہدف ایٹمی تنصیبات ہو سکتی ہے۔ سابق آرمی چیف اور دفاعی تجزیہ کار کا انٹرویو

سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ جی ایچ کیو اور دیگر حساس اداروں پر حملے امریکہ کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ بلیک واٹر اور دیگر تنظیموں کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ قبائلیوں کو دھوکہ اور ترغیب دے کر پاکستان میں تخریب کاری کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنائیں اور اس کا آغاز کر دیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ دہشت گردوں کا اگلاہدف ایٹمی تنصیبات ہو سکتی ہیں۔
ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ اگر سیکورٹی کے مزید اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ کہوٹہ ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹریز اور دیگر حساس تنصیبات پر حملے ہو سکتے ہیں لہذا حکومت کو اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر میں شدت آگئی ہے ۔ جس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکیوں کی طرف سے ہزاروں مشین گنیں دھماکہ خیز مواد اور دیگر بھاری اسلحہ بارود پاکستان لانے پر پابندی کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوئی ہے اور اس کی پاداش میں انھوں نے پاکستان کی اہم تنصیبات پر حملے کرانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ امریکیوں کو اس بات کی سخت تکلیف ہوئی ہے کہ ان پر پاکستان میں آزادانہ آنے اوراسلحہ بارود لانے پر کیوں پابندی عائد کی گئی ہے ۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ حکومت ہوشیار رہے ۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ ہو سکتا ہے ۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کا قبضہ خطے میں تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ جب امریکہ یہاں نہیں آیا تھا خطے میں اس قسم کے حالات نہ تھے ۔ ان خراب حالات کے اصل ذمہ دار امریکہ اور پرویز مشرف ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی خفیہ ایجنیسیوں کو پیچھے کر کے امریکہ کو آگے کیا اور بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی سے مشورہ کئے امریکہ کی حمایت پر لبیک کہہ دی اور ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں جنگ ہار چکے ہیں اور اب وہ پاکستان سے مدد مانگ رہے ہیں طالبان کہہ رہے ہیں کہ امریکہ مزید فوجی افغانستان لائے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ماریں گے ۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں جنگ کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے فوجی نہیں لا رہا بلکہ اس لیے کہ جب وہ یہاں سے نکلے تو اس کی کوئی دم نہ دبائے ۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ جب تک امریکہ اور اس کے کم بخت اتحادی افغانستان سے نہیں نکلیں گے خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور اب وہ وہاں سے نکلنے ہی والے ہیں۔ اگلا سال اس حوالے سے بڑا اہم ہے ۔
ایک سوال پر مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ مشرف نے سوات، دیر اور دیگر جن علاقوں میں لشکر کشی کی وہاں حکومت کی عملداری ختم ہو گئی جب سے جنرل کیانی نے یہ کام شروع کیا ہے وہاں حکومت کی عملداری قائم ہوئی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت کا فرق ہے ۔مشرف نے جس علاقے پر لشکر کشی کی اس علاقے کو امریکہ اور بھارت کے حوالے کر رکھا تھا اور آج صورت حال اس کے برعکس ہے اور یہی وہ کشمکش ہے جو امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہے۔
مآخذ: نیوز اردو

No comments:

Post a Comment