Thursday, September 9, 2010

Currupt Pakistani media enjoying with black water

Currupt Pakistani media enjoying with black water....

 



Zia-u-lhaq's warning - Still Relevant?

 

 

  

(تہذیب یافتہ  کون ؟ اجڈ اور وحشی کون؟فیصلہ آپ کریں!)
 ایوان ریڈلی سے ڈاکٹر عافیہ تک

یہ بات تو اٹل ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دسمبر 2001 ءمیں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن جاتے جاتے بھی طالبان عورتوں کے لیے، اپنے ہمدردرانہ عمل کی ایک ایسی روشن مثال چھوڑ گئے جو اہل مغرب کے لیے نا قابل انکار حقیقت بن گئی۔ جن انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور حق تلفی کے حوالے سے طالبان مورد الزام ٹھہرائے جاتے رہے ہیں ان میں سب سے اہم اور نمایاں ” حقوق نسواں“ ہیں۔ طالبان کے منظر پر آنے سے لے کر ان کے پس منظر میں جانے تک مغربی ممالک اور ان کے ترجمان ذرائع ابلاغ پوری شدت، تسلسل اور مبالغے کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ طالبان نے عورتوں پر ظلم و ستم کیا ہے۔ 8اکتوبر 1996 ءکو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکی حکومت نے طالبان کو متنبہ کیا کہ اگر عورتوں کے بارے میں ان کی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو افغانستان کی نہ صرف امداد روک لی جائے گی بلکہ ان کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اپنی ایک قرار داد میں طالبان کو متنبہ کیا کہ وہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے باز رہیں۔ 8 مارچ 1998 ءکو مغربی دنیا میں ”یوم خواتین“منایا گیا تو اس موقع پر افغان خواتین کو طالبان کے ”مظالم“ کا شکار قرار دے کر ان سے خصوصی ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ اس اقدام کے پس پردہ مبینہ طور پر افغانستان میں کام کرنے والے غیر ملکی اداروں اور مغربی ممالک کی سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ کار فرما تھا، جو دنیا بھر کے عوام کے سامنے یہ امر باور کروانا چاہتے ہیں کہ طالبان نے عورتوں کے ساتھ نا انصانی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ 4 مارچ اور 29 اپریل 1999 ءکو امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن نے طالبان پر تنقید کی کہ وہ عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے بھی جون 2000 ءمیں اقوام متحدہ میں ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان پر نکتہ چینی کی۔
قارئین کرام!موجودہ جنگ اصل میں دو تہذیبوں، دو نظاموں اور
دو نظریات کے درمیان جنگ ہے۔ یہ جنگ دو ملکوں، دو سلطنتوں اور دو قوموں کی جنگ نہیں بلکہ دو ایسی تہذیبوں کی جنگ ہے جو اپنے آپ کواخلاقیات میں مہذب گردانتی ہیں۔ اب ہم یہاں دونوں تہذیبوں اور نظاموں کا تقابلی جائزہ لیں گے اور دیکھے گے کہ کون اپنی تہذیب اور نظام میں وسیع الظرف، عالی حوصلہ اور بلند کردار کا مالک ثابت ہوتا ہے۔ یہاں دو ”خواتین“ کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اپنے اپنے دشمن کی قید میں تھیں ایک وہ جو اجڈ، گنوار، وحشی، اخلاقیات سے کوسوں دور، غیر مہذب ترین گروہ کے ہاتھوں میں جلال آباد سے گرفتار ہوئی اور بالآخر ان غیر مہذب ترین کے اخلاق، عالی حوصلہ اور بلند کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مذہب پر لے آتی ہے اور پھر ان کے اخلاق کا ڈنگا چاروں عالم میں بجاتی ہے اور دوسری وہ خاتون جس کو اسلامی ملک کی سر زمین سے اغواءکر کے دنیا کی مہذب ترین قوم کے حوالے کیا گیا اس خاتون پر جو بیت رہی ہے وہ کسی سے چھپی ڈھکی بات ہیں۔ جی ہاں! میرا اشارہ برطانیہ کی صحافی ایون ریڈلی( جو اب مریم بن چکی ہیں) اور دوسری ڈاکٹر عافیہ ہیں جو امریکہ کی جیل میں ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ ان دونوں عورتوں کی کہانی اور کردار میں ”آنکھوں والوں“ کے لیے ہدایت کا سر چشمہ موجود ہے۔
”ایون ریڈلی“ ایک برطانیہ صحافی خاتون تھی جو 28 ستمبر 2001
ءمیں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر حملے کے امکانات بڑھنے کے بعد، افغانستان کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر افغانستان میں داخل ہوئی۔ اپنے داخلے کے تھوڑی دیر بعد ہی طالبان نے اس خاتون کو جلال آباد میں حراست میں لے لیا۔ پھر یہ خاتون 10 دن تک طالبان کی تحویل میں رہی۔ اس دوران اس خاتون نے اپنے ساتھ پیش آنے والے طالبان کے حسن سلوک کی جو روداد بیان کی، اس میں چند اقتباس قارئین کے لیے.... ایون ریڈلی اپنے ایام حراست کی کہانے سناتے ہوئے کہتی ہیں:” ایک وقت ایسا بھی آیا جب کابل کی جیل میں قید کے دوران میری قوت برداشت اس حد تک جواب دے گئی کہ میں اپنے قید کرنے والوں کے منہ پر تھوکا اور ان کو گالیاں دیں۔ مجھے اس کے بدلے میں ان سے بد ترین جواب کی امید تھی لیکن ان لوگوں نے میری اشتعال دلانے والے رویے کے باجود مجھے بتایا کہ ” میں ان کی بہن اور مہمان ہوں“۔
ریڈلی دوسرا منظر یوں بتاتی ہیں
:
”خوب
، بہت خوب! میں تو چاہتی ہوں کہ میں ہر ایک کو بتاں کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری امی کو علم ہو جائے، میرا کمرہ ائیر کنڈیشنڈ ہے اور کمرے سے ملحق باتھ میں فلش بھی لگا ہوا ہے۔مجھے ایک ریڈیو دیا گیا تاکہ میں BBC سروس سن سکوں، مجھ سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ مجھے کسی اور چیز کی تو ضرورت نہیں؟ حمید (طالبان ترجمان) کہتا ہے کہ ہر ایک کو یہی فکر ہے کہ میں کھانا نہیں لیتی اور ہو پوچھتا ہے کہ آیا خوراک میری پسند کی نہیں، کیا میں کوئی خاص کھانا لینا چاہتی ہوں یا میرے لیے ہوٹل کے کھانے کا بندوبست کیا جائے؟ وہ بار بار مجھے اپنا مہمان بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میں مغموم ہوں تو وہ بھی غم زدہ ہو جاتے ہیں، میں اس پر یقین نہیں کر سکتی۔ یہ طالبان مجھے مہربانی کے ساتھ مارنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ کئی اعتبار سے نرم خو، خوش خصال، شریف، مہربان اور دوسروں کا خیال رکھنے والے، ہاں جب وہ لڑنے پر آتے ہیں تو وہ دنیا کے خوفناک ترین جنگجو ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرے گھر میں کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ مجھ سے کیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ میں شرط لگاتی ہوں کہ لوگ تو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے اذیت دی جا رہی ہو گی، مارا پیٹا جا رہا ہو گا اور وہ میری عزت سے کھیل رہے ہوں گے۔ مگر.... مگر....؟
طالبان کے حسن سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے ریڈلی کہتی ہے۔
”وہ
سب بڑے مہربان محسوس ہوتے ہیں۔ وہ بڑے فراخ دل ہیں مگر یہ بات بھی بڑی تیزی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے جنگ کرنے کو تیار ہیں“۔ ایون ریڈلی ابھی طالبان کی قید میں تھی کہ افغانستان پر امریکی اور اتحادی افواج کا حملہ شروع ہو گیا، طالبان چاہتے تو اس حملے کی سزا ایون ریڈلی کو دے سکتے تھے۔ جیسا شمالی اتحاد کے سپاہی کرتے تھے جب ان کو کسی محاذ پر طالبان سے شکست ہوتی تو وہ اپنا غصہ بے چارے، مجبور و بے کس طالبان قیدیوں پر نکالتے تھے۔ طالبان نے اس موقع پر برطانوی صحافی خاتون کو رہا کر ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ اپنی رہائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہے:
”آخر کار وہ وقت بھی
آگیا جب طالبان نے مجھے رہائی کی نوید سنائی۔ انہوں نے مجھے چوڑے افغان روایتی تکیے پر بیٹھنے کو کہا اور پھر قید خانے کے نگران نے مجھے خوبصورت دبیز مخمل کا لباس دیا اور کہا یہ روایتی افغان لباس ہے باہر نکلنے سے قبل اسے پہن لو اور وہ خود سارے کمرے سے باہر نکل گئے تا کہ میں لباس تبدیل کر لوں.... آخر کار جب میں طور خم بارڈر پر پہنچی اور میں نے افغانستان سے باہر پاکستان میں قدم رکھا ہی تھا کہ میرا چہرہ ٹیلی ویژن کیمروں کی روشنیوں سے چمکنے لگا۔ میں وقتی طور پر چکرا سی گئی، مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک آواز آئی ” طالبان نے آپ سے کیا سلوک کیا؟“ گزرے ہوئے دس دنوں کی تمام یادیں اور ذہنی کرب سب میرے لوح ذہن پر نمودار ہونے لگے۔ میں نے جواب میں کہا ” شائستگی اور احترام کا سلوک“ میں سوچتی ہوں کہ ان کے اندر ہمارے خلاف کوئی کینہ معلوم نہیں ہو رہا۔ نا معلوم ان پر بمباری کیوں کی گئی؟
ایون ریڈلی نے چونکہ اپنی قید کے دوران طالبان سے وعدہ کیا
تھا کہ وہ اسلام کا مطالعہ ضرور کرے گی۔ چنانچہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 30 جوان 2003 ءکو اس نے اپنے اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔ ایک انٹرویو میں ریڈلی سے پوچھا گیا کہ گوانتا ناموبے کے ایکسرے کیمپ اور کابل کے قید خانے کا موازنہ آپ کس طرح کرتی ہیں، تو اس نے کہا:
”میں لوگوں کو بتاتی رہتی ہوں کہ میں اس حوالے سے بہت خوش قسمت
واقع ہوئی ہوں کہ مجھے امریکہ کی بجائے ”روئے زمین کے سب سے زیادہ برے اور وحشی لوگوں“ کی قید میں رہنے کا موقع ملا۔ مجھے مسلسل چھ دن تک ایک ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا جس کی چابی تک مجھے دے دی گئی۔ میرے ساتھ ہمدردی اور احترام کا سلوک کیا گیا۔ مجھے ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے، کسی قسم کی تعذیب دینے یا حملہ کرنے کی کوشش نہیں ہوئی، گو کہ کچھ سوال جواب ضرور ہوئے۔ وہ مجھے مسلسل یہ بتا تے رہے کہ وہ مجھے خوش رکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ میں ان کی بہن اور مہمان ہوں“۔
طالبان کی قیدی اس
برطانوی خاتون کی باتوں کا موازنہ جب ہم ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ہونے والے مظالم سے کرتے ہیں تو ہمیں حقائق بہت آشکار نظر آتے ہیں۔ ”بگرام ائیر بیس میں اور پھر امریکی جیل میں امت کی اس مظلوم بیٹی پر کون سا ظلم ہے جو روا نہ رکھا گیا، ذہنی و جسمانی تشدد کی ایسی بد ترین مثالیں قائم کی گئیں کہ کائنات کے ظالم و جابر بھی تھرا جائیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی تکلیف و دکھ اور درد کا معمولی سا اندازہ اس وقت ہوا جب اس نے پاکستانی وفد کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی بپتا سناتے ہوئے کہا کہ ”نیو یارک جیل میں چھ نقاب پوش آئے اور میرے ہاتھ پشت سے باندھ دئیے۔ پھر مجھے برہنہ کر کے میری ویڈیو بنائی اور مجھے وہیل چیئر پر واپس میرے سیل میں لے جایا گیا۔ ایک خاتون نے مجھ پر کمبل ڈالا اور ان نقاب پوشوں سے درخواست کی کہ مجھ سے غیر انسانی سلوک نہ کریں اور یہ میرے ساتھ ایک مرتبہ نہیں ہوا۔ سکیورٹی چیک کے نام پر مجھے کئی مرتبہ برہنہ کیا گیا۔ بہن عافیہ نے یہ بھی بتایا کہ بگرام ائیر بیس پر جن لوگوں نے تفتیش کی ان میں ایک بھارتی بھی تھا اور افغانستان میں مجھ سے تحقیقات کرنے والے انگریزی و ہندی بولتے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ کو جب پہلی مرتبہ امریکی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس کی حالت انتہائی بری تھی۔ زخم رس رہے تھے جن میں پیپ بھری ہوئی تھی اور اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا“۔
یہ صرف ڈاکٹر عافیہ کا قضیہ نہیں بلکہ کچھ عرصہ قبل امریکی
فوج نے عراقی قید خانے ابو غریب میں عراق کی مسلمان قیدی خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔ دنیا کا بد نا ترین ”ایکسرے کیمپ“ ہے جس میں امریکی قانون، بین الاقوامی قوانین، اخلاقی اور سماجی ضابطوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ایک ماہر نے اس کیمپ کے بار میں بڑے خوبصورت الفاظ کہے۔ اس نے کہا ” یوں محسوس ہوتا ہے گوانتا ناموبے کے جزیرے پر پہنچ کر دنیا کے تمام قوانین، ضابطے اور روایات دم توڑ جاتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے 4.17 میل کے اس احاطے میں انسانیت 10 ہزار سال پیچھے چلی گئی ہے“۔ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پاسداری کرنے والوں کی جیل میں ابو غریب و گوانٹا ناموبے میں جو قیدیوں کی تصاویر جاری ہوئیں وہ کچھ یوں منظر پیش کرتی تھیں کہ قیدی تنگ لباس میں یا بالکل بے لباد ہوتا، اس کے جسم کو کوئی کتا بھنبھوڑ رہا ہوتا یا کوئی انسانی درندہ ضربیں لگا رہا ہوتا، ارد گرد کئی لوگ اس کی حالت پر قہقہے لگا رہے ہوتے، کوئی اس کے سر پر مکے برسا کر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا رہا ہوتا، اس کے برہنہ جسم پر کئی لوگ سوار ہوتے، اسے تاروں سے کرنٹ دیا جا رہا ہوتا یا جسم پر نجاست اور گندگی مل دی گئی ہوتی، اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر گھیسٹا جا رہا ہوتا، اس کے نازک اعضا کھینچے جا رہے ہوتے۔ ابو غریب جیل سے ایک مسلمان لڑکی ”نور“ کا خط جو دنیا بھر کی اخباروں میں چھپا، اس خط میں نور لکھتی ہے کہ :
”ہمارے پاکیزہ دامن
آلودہ اور سر ڈھانپنے والے آنچل دریدہ ہو چکے ہیں.... امریکی درندے ہم پر ایسے ستم ڈھاتے ہیں جو جسم پر ہی نہیں، روح پر بھی آبلے ڈال دیتے ہیں۔ ان کی ہوس اور شینطیت ہم کمزوروں پر اپنے پنچے گاڑھ دیتی ہے تو ہم میں احتجاج کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ ہم گوہر عصمت لٹا چکی ہیں اور اب آنکھیں بند کیے موت کی منتظر ہیں کہ جینے کو کچھ بچا ہی نہیں“۔
ایون ریڈلی دو تہذیبوں کے اصل فرق کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے
:
طالبان
کی طرف سے انتہائی احترام اور پُر شفقت برتا سے ہونے والی میری خوشی اس وقت غارت ہو کر رہ گئی جب میں لندن میں ایک سیاہ کیب میں سوار ہوئی۔ اس کے ڈرئیوار نے جو ”ایسٹ اینڈ“ کا رہنے و الا تھا، اخبارات میں چھپنے والی تصاویر کی وجہ سے مجھے پہچان لیا۔ اور بولا....” کیا تم وہی چڑیا ہو جسے طالبان نے اپنے پنچرے میں بند کر دیا تھا؟ میں نے ”ہاں“ میں سر ہلایا تو اس نے کہا، تو کیا انہوں نے تجھ سے جنسی فعل کیا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ بولا، مجھے بالکل یقین نہیں آتا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تجھے بھنبھوڑ کر رکھ دیتا“۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، میرے خیال میں وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ میرے حسن کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ مہذیب دنیا میں واپسی خوش آمدید، یو آنے.... میں سوچتی رہ گئی۔ یہ تھا فرق دونوں تہذیبوں میں۔
قارئین
! اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ دنیا کی ” غیر مہذب ترین“ تہذیب کونسی ہے؟ وہ جس نے ایون ریڈلی جو غیر قانونی طور پر عین اس وقت افغانستان میں داخل ہوئی جب جنگ کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ریڈلی کو گرفتار کر لیا گیا اور دوران جیل اس کے جو سلوک ہوا اس سے متاثر ہو کر وہ ایون ریڈلی سے مریم بن گئی۔ مگر دوسری طرف ایک ڈاکٹر عافیہ ہے جس پر امریکہ کوئی جرم ثابت نہیں کر سکا۔ انسانیت کے تذلیل کے تمام حربے اس نازک صنف پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیا انسانیت کے احترام سے عاری، اجڈ، وحشی اور غیر مہذب” طالبان “ ہیں یا ”امریکہ“۔ عدل و انصاف کا ترازو اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔

 

No comments:

Post a Comment