Wednesday, September 8, 2010

is it our war?


is it our war?



کیا یہ ہماری جنگ ہے؟



جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ سابق چیف آف سٹاف

افغانستان کے خلاف جب 2001میں امریکہ کی جنگ کا پاکستان نے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جنرل مشرف نے سیاسی قائدین، سول اور عسکری بیوروکریٹس اور کچھ دانشوروں کو اپنے فیصلہ کی منطق سمجھانے کیلئے دعوت دی. ایک گروپ کے ساتھ مجھے بھی بلایا گیا. تقریب تین گھنٹے کی طویل تقریر کے بعد مجھ سے بھی رائے مانگی گئی. میں نے کہا ''یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، اس جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے کیونکہ افغان قوم سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے. طالبان شکست نہیں کھائیں گے بلکہ پیچھے ہٹ جائیں گے. وہ دوبارہ اٹھیں گے اوراس وقت تک جنگ کریں گے جب تک کہ ان کا ملک غیر ملکی تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا. اس جنگ کے دائرے وسیع ہوں گے اور ہمارے سرحدی علاقے بھی جنگ کی لپیٹ میں آ جائیں گے. جنگ ہماری طرف پلٹ آئے گی، ہماری جنگ بن جائے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں شامل ہو کر ہم اپنے شہیدوں کے خون کا سودا کریں گے جو اتنا بڑا گناہ ہو گا کہ اللہ تعالی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا.'' پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی. مشرف کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ثابت ہوئی. کیا واقعی آج یہ جنگ ہماری جنگ بن چکی ہے؟اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے ایک مختصر سا تجزیہ پیش کرنا چاہوں گا.
پچھلے پچیس سالوںمیںعالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والے واقعات نے افغانستان کی جنگ آزادی اور ہمارے سرحدی علاقوں پر گہرے اثرت مرتب کئے ہیں جس کے نتیجے میں اب ایک فیصلہ کن معرکہ کی بساط بچھائی جا چکی ہے جہاں دنیا کی تین بڑی قطبی طاقتیں یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی، روس اور چین اور 'دنیائے اسلام کی مدافعتی قوت' کے درمیان فیصلہ ہونے والا ہے.
سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد امریکہ نے ساری دنیا پر بالادستی کا خواب دیکھا یعنی ایک ایسا نظام جس سے دنیا بھرمیں صرف امریکہ کی بالادستی قائم ہو لیکن یہ خواب صرف پندرہ سال کے عرصے میں پاش پاش ہو گیا. جس طرح پچھلی صدی میں ہٹلر نے Lebensraumکاتصور پیش کیا تھا، کہ جرمن قوم سب سے ارفع واعلی قوم ہے اس لیئے اسے ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ تصور بھی پندرہ سال کے اندر اندرٹوٹ گیاتھا. فرق صرف یہ ہے کہ جرمن تصور کو ختم کرنے کیلئے ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو گئی تھیںاور ہٹلر کی جارحیت کا تصور ختم ہوا. اسی طرح سے امریکہ کی ہٹلر شاہی کا تصور جس طاقت نے توڑا ہے وہ ' عالم اسلام کی مدافعتی قوت'ہے جس کا کسی ایک ملک یا کسی ایک علاقے سے تعلق نہیں ہے. وہ ایک ناقابل تسخیر لامکان حقیقت ہے.اسی طاقت نے٨٠ء کی دہائی میں سوویت یونین کو شکست دی، اسی مدافعتی قوت نے عظیم تر اسرائیل کا خواب چکنا چور کیا، اسی قوت نے عظیم تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ خاک میں ملایا، اسی طاقت نے لبنان کی جنگ میں اسرائیل کا غرور خاک میں ملایا اوراب عراق میں امریکہ کواور افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کو شکست سے دوچار کر دیا ہے.اور تمام جارحیت پسند قوتوں کے ہاتھ باندھ دیے ہیں.لہذا یہ کہنا درست ہو گا کہ آج دنیا کا عالمی نظام یک مرکزی نہیںر ہا بلکہ سہہ جہتی نظام (Tri-polar)بن چکا ہے جس میں تین طاقتیں شامل ہیں ایک امریکہ ہے جس کے ساتھ اسکے اتحادی ہیں، یورپ، بھارت اور جاپان، دوسری جانب چین اور روس ہیں اور تیسری طاقت عالم اسلام کی مدافعتی قوت ہے. یہ تین بڑی قوتیں عالمی نظام مرتب کر رہی ہیں. روس اور چین تصادم کی کیفیت میں نہیں ہیں لیکن بالواسطہ وہ بھی افغانستان کی جنگ میں شامل ہیں جہاں پر امریکہ، یورپ اور بھارت مل کر فیصلہ کن رائونڈ کیلئے تیاری کر چکے ہیں. اگلے سال کے آخر تک بھارت کے ڈیڑھ لاکھ فوجی بھی وہاں پہنچ جائیں گے. یہی وہ حالات ہیں جو افغانستان میں مستقبل کی جنگ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں جس میں امریکہ،یورپ، بھارت، اسرائیل ، چین اور روس اور اسلامی مدافعتی قوت شریک ہوں گے. بڑے گھمسان کا رن ہوگا اور اسی آنے والے طوفان کی سرسراہٹ اب پاکستان میں سنائی دینے لگی ہے.
یہ طوفان جس کا رخ اب پاکستان کی طرف ہوچکا ہے اور پاکستان کے عمائدین بھی کہنے لگے ہیں کہ اب یہ ہماری جنگ ہے تو یہ بات درست ہے اس لیئے کہ جب ہم نے ٢٠٠١ء میں افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیاتھا تو وہ ہماری جنگ نہیں تھی لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خصوص افغان حکومت نے اس کا رخ ہماری طرف موڑدیا ہے. افغانستان کے وزیر خارجہ رنگین دارفر جو ١٤ سال بھارت میں رہے اور را (RAW) کیلئے کام کرتے رہے ان کا یہ تصور تھا کہ اس جنگ کو پاکستان کی طرف پلٹ دیا جائے تاکہ پاکستانی فوج آپس ہی میں الجھ کر رہ جائے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں.اس جنگ کا رخ پاکستان کی طرف اس لئے پلٹا کہ جنرل مشرف نے امریکہ کو کھلی اجازت دے رکھی تھی کہ سوات سے لے کر وزیرستان اور وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک ہمارے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے ، ایف بی آئی اور امریکن اسپیشل فورسز آزادی کے ساتھ آپریٹ کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتی تھیں. ان کو وہاں اپنی سرگرمی دکھانے کا پورا اختیار دیا گیا. امریکیوں کو کچھ سہولتیں بھی دی گئیں، مثل تربیلا میں امریکن سی آئی اے اور ایف بی آئی کا بہت بڑا اڈا بنا. اسی طرح بلوچستان کے علاقے میں سی آئی اے کا سیٹ اپ ہے اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کا کنٹرولنگ ہیڈ کوارٹر تھا. جنرل مشرف نے امریکیوں کو کھلی آزادی دی اور اپنی انٹیلی جنس کو پیچھے کر دیا. آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کو کہا کہ ان علاقوں سے دور ہٹ جائیں اور صرف گسٹاپو (Gestapo) کا کام کریں یعنی یہ کہ 'اپنے ہی لوگوں کو پکڑو اور ان کی شناخت کرکے دشمنوں کے حوالے کر دو' تو نتیجہ یہ ہوا کہ جب مشرف نے وردی اتاری ، نئی حکومت آئی اور نیا آرمی چیف آیا جو اس حقیقت کو جانتے تھے توانہوںنے اپنی انٹیلی جنس کو کہاکہ اب تم اپنے علاقوں میں پہنچو اور صحیح صورت حال معلوم کرو تو یہیں سے مفادات کا ٹکرائوہوااور نئی حکومت سے امریکہ نے پوچھاکہ یہ اجازت کس نے دی؟ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس ان علاقوں میںکیوں آگئی ہے؟ حکومت پر دبائو ڈالا تو پریشان ہو کرآئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لے آئے لیکن پھر اسی دن حکومت نے یہ حکم نامہ واپس لے لیا. امریکہ اور حکومت پاکستان کے درمیان یہی ٹکرائو ہے .
امریکہ نے پچھلے چار سالوں میں یہ سارا کام ایک بڑی سازش کے تحت کیا ہے جس میں امریکہ، اسرائیل، بھارت،برطانیہ، جرمن اور فرانسیسی انٹیلی جنس شامل ہیں. انہوں نے پاک افغان سرحد کے پورے علاقے میں سوات سے لے کر وزیرستان، اور بلوچستان تک اپنا نیٹ ورک قائم کیاہے اور اپنے حمایتی گروپ بنالئے ہیں. ڈالروں کی ریل پیل، اسلحہ، ہتھیار اور ہر چیز ان کو دی گئی ہے. اس نیٹ ورک کے ذریعے امریکیوں نے قبائلیوں کی وفاداری تبدیل کی. اس سلسلے میں ان کو سب سے زیادہ کامیابی سوات اور بلوچستان میں ہوئی. وزیرستان اور باجوڑ کے علاقے میں انہیں کامیابی تو ملی لیکن بہت کم. یہی وجہ ہے کہ امریکی میزائل اور جاسوس طیاروں کے حملے صرف باجوڑ اوروزیرستان پر ہو رہے ہیں
کیونکہ وہاں ان کے خلاف مزاحمت موجود ہے. اب یہ منظر ہے کہ امریکہ نے سوات سے لے کر بلوچستان تک افغانستان . پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ایک بفر زون بنا دیا ہے تاکہ امریکیوں کو افغانستان میںتحفظ ملے . امریکیوں نے کنڑ کے علاقے میں ایک بہت بڑا فوجی اڈا بنانا شروع کر دیا ہے جو دریائے کابل کے ساتھ ہے. اور اس کی حفاظت کیلئے ضروری تھا کہ جنوب میں پاکستان کے علاقے میں سکیورٹی زون بنایا جائے. اس لئے بطورخاص سوات اوردیر کے علاقے پر توجہ دی گئی. ان علاقوں میں بھارت اور امریکہ نے کئی مزاحمتی گروپ بنائے جن میںسے اکثر کو ختم کیا جا چکا ہے.چند گروپ اب بھی جنگ میں مصروف ہیں اور ایسے وقت جبکہ یہ جنگ جاری ہے تو امریکہ کے حملے اگر ہماری مدد کیلئے ہوتے تو وہ سوات اور باجوڑمیں ہوتے لیکن حملے وزیرستان میں ہو رہے ہیں. اسلئے کہ وزیرستان اور باجوڑ کے قبائل امریکہ کے ہاتھوں بکنے کیلئے تیار نہیں ہیں.
آج ہم جنگ کی حالت میں ہیں اور ہماری فوج اور ائر فورس ان عناصر کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں جنہیں امریکہ اور بھارت کی سازش کے تحت پاکستان کے علاقوں میں داخل کیا گیاہے. اپنے ہی علاقے میں ہم دشمن کے پیدہ کردہ عناصر کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں.جب یہ ہماری جنگ بن چکی ہے تو اس کی ترجیحات بھی الگ ہونی چاہئیں اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے طریقہ کار بھی بدلنا ضروری ہے. یعنی بیرونی عناصر کی سرکوبی اور اپنوں سے مذاکرات کریں اور ان مذاکرات میں ان علاقوں کے منتخب نمائندے شامل کریںتاکہ بغیر جنگ کئے دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کر سکیں. یہ پورا علاقہ پس ماندہ اور محرومیت کا شکار ہے، یہاں پر مضبوط منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی کام کرنے کی ضرورت ہے.
اس سال کے آخر تک جب امریکہ میں حکومت تبدیل ہو گی تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوں گی.اگر نئی امریکی حکومت کو حالات کا صحیح ادراک ہے تو ان کے لیئے بہتر ہوگا کہ وہ اور ان کے اتحادی افغانستان سے نکل جائیںاور یہ بھارت کی بدبختی ہوگی کہ وہ افغانستان میں ذمہ داریاں سنبھال لے. شاید اسی کام کیلئے وہ اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان بھیج رہا ہے.پھر وہ دیکھنے والا منظرہوگاکہ افغانی اورہمارے قبائیلی بھارت کاکیا حشر کرتے ہیں.ا سے بھاگنے کا رستہ بھی نہیں ملے گا. چین اورروس بالواسطہ طورپر پہلے ہی اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں. جہادی بھی اس جنگ میں شدت کے ساتھ شریک ہیں. روس کیلئے افغانستان میں امریکہ سے اپنی شکست کا انتقام لینے کیلئے یہ بہترین موقع ہے. روس کے تعاون سے چیچنیا ، کرغزستان ، قازقستان اور ازبکستان کے جہادی بھی بڑی تعداد میں افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں. اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے وقتوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے افغانستان میں استقبال کی زبردست تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں. اس حقیقت کو اگر ہم نگاہ میں رکھیں توپاکستانی قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے. اللہ نے ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ایک بہت مضبوط فصیل کھڑی کر دی ہے اور تاریخ ایک نیا رخ لینے والی ہے. ہمیں امریکہ کے ساتھ اور خصوص بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی ترجیحات کی بنیاد پر قائم کرنا پڑے گا. اور ہماری پوری توجہ مسئلہ کشمیر کے منطقی انجام کی طرف ہونی چاہئیے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملے کیونکہ اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو چکا ہے. جس طرح کہ اسرائیل کی شکست کے بعد فلسطین کا فیصلہ ناگزیر ہو چکا ہے.


امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونی ہے . امریکہ اور یورپ کے دانشور بھی اب مشورہ دے رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان سے نکل جائو.، ایران کے ساتھ دوستی کر لو، ایران ایٹمی صلاحیت والی طاقت بنتا ہے تو اسے بننے دو. ان دانشوروں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی.بلکہ بھارت ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن جس طرح بھارت ان سازشوں کا حصہ بن کر افغانستان میں داخل ہو چکا ہے اس کے نتیجے میں ہم بھی وہ منظر دیکھیں گے کہ کل بھارت کا وہاں کیا حشر بنے گا.کیونکہ اس کا مقابلہ دنیا کی تیسری بڑی قوت سے ہو گاجو عالم اسلام کی ناقابل شکست مدافعتی قوت ہے. یہ مدافعتی قوت کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے، یہ ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے، ایک خداوندی قوت ہے کہ جس کے ہاتھوں عالمی نظام کے خدوخال مرتب ہو رہے ہیںاور جن سے ٹکرا کر دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اور ان کے اتحادیوں کا غرور خا ک میں مل چکا ہے. پھر بھی اس طاقت کو مغربی دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ ہر قدم پر اسی طاقت کے ہاتھوں شکست در شکست کھا رہی ہے جنہیں دہشت گرد کہہ کر خودفریبی میں مبتلا ہیں. یہ تیسری طاقت ایک حقیقت ہے، ایک معجزہ ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے. جس نے سمجھ لیا وہ کامیاب ہوگا. جس نے نہ سمجھا وہ ہار جائے گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہماری سرحدوں پر اتنی مضبوط حفاظتی دیوار مہیا کر دی ہے جسے توڑنے کی دنیا کی کسی طاقت کے پاس صلاحیت نہیں ہے.پھر کیا ڈر ہے افغانستان کو، کیا خوف ہے پاکستان کو، اللہ کے سپاہی ہمارے محافظ ہیں.


اللہ کی یہی رضاہے کہ ساری دنیا میں طاقت کا توازن قائم رہے ورنہ طاقتور قومیں نہ جانے کب کی کمزور اور غریب قوموں کو ہڑپ کرچکی ہوتیں. امریکہ کا ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کا خواب ٹوٹ چکا ہے ، اور کن کے ہاتھوں ؟وہی ،جوننگے بھوکے اور سوکھی روٹی کھانے والے ہیں، جن کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل ہے اور ہاتھوں میں ہلکے ہتھیارہیں. لیکن پھر بھی سامراجی طاقتیں انہیں دہشت گرد کہتی ہیں.اور اب انہیں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور افغانستان کے حکمران بھی ملا عمر سے مدد کے طلبگار ہیں.
پاکستانی قوم کو خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، ملک دشمنوں سے محفوظ ہے لیکن اصل خطرہ خود اپنوں سے ہے جو سیاسی مصلحتوں کے تحت کاسہ لیسی اختیار کئے ہوئے ہیں. اللہ انہیں ہدایت دے.آمین!




No comments:

Post a Comment