آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک جنگ جاری رکھنے کا حکومتی عزم... یہ حکمت ہے یا آخری شہری تک کو مروانے کی حماقت؟
پشاور صدر کے مصروف ڈینز ٹریڈ سنٹر چوک میں فرنٹیئر کانسٹیبلری ہیڈکوارٹرز کے قریب خودکش بم دھماکہ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ صفوت غیور سمیت چار افراد جاں بحق ہو گئے‘ کمانڈنٹ صفوت غیور شام چار بجے اپنے گھر واپس جا رہے تھے کہ صدر کے علاقے میں انکی گاڑی کے سگنل پر رکتے ہی خودکش حملہ آور نے قریب آکر خود کو اڑا لیا جس کے نتیجہ میں کمانڈنٹ صفوت‘ ان کا محافظ اور دو راہگیر جاں بحق اور گیارہ افراد زخمی ہو گئے۔ صدر مملکت‘ قائم مقام صدر‘ وزیراعظم‘ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ نے اس خودکش حملے کو دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا اور اپنے تعزیتی پیغامات میں کہا کہ ایسی کارروائیوں سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکومت کے عزائم کمزور نہیں ہونگے اور آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی۔
دوسری جانب عروس البلاس کراچی گزشتہ ایک ہفتے سے بدترین دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہے اور وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے ملزمان کی 24 گھنٹے کے اندر گرفتاری سے متعلق تین روز قبل کئے گئے دعوے کے باوجود ملزمان گرفتار ہوئے ہیں‘ نہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز بھی کراچی کے مختلف علاقوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے بارہ افراد کو ہلاک کر دیا جبکہ چار مارکیٹوں کو آگ لگا دی گئی۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں کراچی میں ایک ہفتے کے دوران ایم کیو ایم متحدہ کے رکن اسمبلی سمیت ایک سو سے زائد افراد کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جا چکا ہے‘ اگرچہ کراچی کے واقعات خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں سے قدرے مختلف ہیں مگر ان میں بھی ملک کے شہریوں کی ہی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور کراچی کے علاوہ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی امن و امان کی صورتحال اتنی کشیدہ ہو چکی ہے کہ لوگ اپنی زندگیاں بچانے کیلئے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ گھیرائو‘ جلائو کے واقعات میں انسانی جانوں کے علاوہ قیمتی املاک اور پبلک و پرائیویٹ گاڑیاں بھی نذر آتش کی جا رہی ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے حکومت نام کی کوئی چیز سندھ‘ خیبر پی کے اور وفاق میں موجود ہی نہیں ہے۔ مرکز اور دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم متحدہ‘ جمعیت علماء اسلام (ف) اور فنگشنل لیگ کی مخلوط حکومتیں قائم ہیں‘ مگر ملک اور صوبوں میں امن و امان کی بحالی اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے کے معاملہ میں حکومتی اتحادیوں میں تال میل کا فقدان نظر آتا ہے اور بالخصوص کراچی کے واقعات میں حکومتی اتحادی ایک دوسرے سے بدگمان بھی نظر آتے ہیں جبکہ یہ بدگمانیاں دور کرنے کیلئے سندھ حکومت کی سطح پر قائم کی گئی کور کمیٹی بھی موثر ثابت نہیں ہو رہی بلکہ کراچی کے سلگتے ہوئے ماحول کو تیل اور ایندھن فراہم کرنے کا فریضہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سرانجام دیتے ہیں جو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ہر واقعہ کے بعد الٹے سیدھے بیانات دے کر کشیدگی میں مزید اضافہ کی بنیاد رکھتے ہیں‘ انہوں نے ایم کیو ایم متحدہ کے رکن سندھ اسمبلی سید رضا حیدر کے سانحۂ قتل کی ذمہ داری یکے بعد دیگرے کالعدم سپاہ صحابہ اور تحریک طالبان پر ڈالی‘ اسکے بعد ہی دہشت گردی کے واقعات میں شدت پیدا ہوئی اور فرقہ ورانہ فسادات کا بھی سخت خطرہ لاحق ہوا‘ جبکہ امن و امان کنٹرول کرنے میں حکومتی مشینری کی بے بسی اور بے نیازی کے نتیجہ میں تخریب کاروں اور ملک دشمن عناصر کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کی جس لہر نے ہنستے بستے کراچی کو خوف و بے یقینی میں ڈبویا ہوا ہے‘ وہ آگ کی طرح پھیلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اس وقت ملک میں ہر جانب مایوسی‘ بربادی اور افراتفری کا دور دورہ ہے اور انسانی زندگی انتہائی بے وقعت ہو چکی ہے‘ لوگ کسی جگہ پر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے بچ جاتے ہیں تو سیلاب کی شکل میں قدرتی آفت انہیں آگھیرتی ہے اور سب سے زیادہ افسوسناک یہ صورتحال ہے کہ سیلاب میں گھرے لوگوں پر بھی خودکش حملے ہو رہے ہیں‘ جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی سالمیت کے درپے ہمارے دشمن ملک کی بنیادیں ہلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ سیلاب زدہ لوگوں کو دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کے ذریعہ مزید خوفزدہ کرنے کا مقصد انہیں ملک کے مستقبل سے مایوس کرنے کا ہے۔
اگر حکومت کی رٹ قائم ہو اور امن و امان کی صورتحال پر حکومتی مشینری کی گرفت مضبوط ہو تو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں مصروف ملک دشمنوں کو کبھی کھل کھیلنے کا موقع نہیں مل سکتا‘ جب حکمران طبقہ ہی ملک اور عوام کی حفاظت کے فریضہ کی ادائیگی میں یکسو نہ ہو اور حکومتی اتحادیوں کی صفیں منتشر ہوتی نظر آرہی ہوں تو ملک کی سالمیت کے درپے عناصر کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا کھلم کھلا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارا وطن عزیز اس وقت حکومتی کمزوریوں کے پیدا کردہ حالات کی ہی بھینٹ چڑھا ہوا نظر آرہا ہے‘ ایک طرف تو حکمرانوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں اس خطہ میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں خود کو جھونک کر ملک کو بدترین دہشت گردی کے حوالے کیا ہوا ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کی اس لہر میں بالخصوص کراچی میں ذاتی بدلے بھی چکائے جا رہے ہیں جبکہ ہر دو معاملات میں حکومتی اتحادی امن و امان پر قابو پانے کیلئے کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہے۔
خودکش حملوں کے بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ یہ صرف امریکی ڈرون حملوں اور ہماری سیکورٹی فورسز کے جاری اپریشن کے ردعمل میں ہو رہے ہیں۔ جن خاندانوں کے لوگ ڈرون حملوں اور فوجی اپریشن کی بھینٹ چڑھتے ہیں‘ انکے زندہ بچنے والے افراد بالخصوص نوجوان اپنے ذاتی دکھوں کا انتقام لینے کیلئے خودکش حملوں کی صورت میں دوسروں کے گھروں کو اجاڑنے کی راہ پر چل نکلتے ہیں‘ جبکہ دہشت گردی کی ان وارداتوں سے خراب ہونے والی امن و امان کی صورتحال سے ہمارے شاطر اور مکار دشمن بھارت کو فائدہ اٹھانے کا کھلم کھلا موقع مل رہا ہے جو اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد‘ گولہ بارود سمیت افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل کرتا ہے اور وہ آئے روز پاکستان کے کسی نہ کسی حصے میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کئے رکھتے ہیں۔ حکمران دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے حوصلے پست نہیں ہونگے اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک جنگ جاری رکھی جائے گی‘ جس کا جواب انہیں ہر دوسرے تیسرے روز بعد کسی خودکش حملے یا دہشت گردی کی کسی واردات کی صورت میں مل جاتا ہے‘ جس سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے امریکی مفادات کی یہ جنگ اپنے آخری شہری کے مارے جانے تک جاری رکھنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ یہ پالیسی حکمت سے زیادہ حماقت کی نظر آتی ہے‘ جس سے قیام امن کی تو کوئی گنجائش نہیں نکل رہی‘ اس وطن عزیز کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے مذموم عزائم رکھنے والے دشمنوں کو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا ضرور موقع مل رہا ہے۔ اس صورتحال میں کراچی کی دہشت گردی میں بھی امریکہ اور بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ جو اس دھرتی پر دندناتے پھر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں مناسب یہی ہے کہ ملک کو دہشت گردی سے محفوظ کرنے کیلئے اپنی امریکہ نواز پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور حکومت تمام قومی سیاسی قائدین کی گول میز کانفرنس بلا کر باہمی مشاورت سے ملک کی نئی خارجہ اور داخلہ پالیسی مرتب کرے۔ پاکستان کے اندر امریکی ڈرون حملے فی الفور بند کئے جائیں اور امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرکے قبائلی علاقوں میں جاری اپریشن بھی بند کر دیا جائے تاکہ وطن عزیز کی سلامتی کو لاحق خطرات سے بچاجا سکے۔
جمہوریت آواز دے کہا ںہے!
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ زرداری جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں‘ لانگ مارچ پر غور کررہا ہوں۔ ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے قائد کی تشویش بے جا نہیں‘ ضرور انکے پیش نظر صدر صاحب کی کچھ ایسی کارکردگیاں ہیں جو جمہوریت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ صدر گرامی قدر اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں تاکہ فرینڈلی اپوزیشن کے داعی میاں صاحب کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ ایک جمہوری ایٹمی قوت کا تقاضہ تھا کہ صدر پاکستان برطانیہ کے دورے کو منسوخ کرتے اور بقول میاں صاحب ایک جمہوری سٹینڈ لیتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ برطانوی وزیراعظم معافی مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہ پاتے۔ انہوں نے زیادتی کی پاکستان کیخلاف دل کھول کر ہرزہ سرائی کی اور ہم پھر بھی دم ہلاتے ہوئے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے یا آنکھیں جھکانے کیلئے چلے گئے‘ یہ غلامانہ ذہنیت جو ہمیں برطانیہ سے ورثے میں ملی ہے‘ اب ترک کر دینی چاہیے کہ حضور سر تسلیم خم‘ ہمارے سر‘ آپکے جوتے ہمارے لئے اعزاز ہیں۔ برطانیہ میں مقیم بااثر پاکستانیوں سے لے کر ہر عام پاکستانی کا سر برطانیہ میں شرم سے جھک گیا‘ وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے‘ زرداری کے دورے سے فکر مند نہیں ہونا چاہیے‘ موجودہ حالات سے عہدہ براء ہونے سے متعلق افراد ملک میں ہیں‘ اس کو کہتے ہیں‘ سوال گندم‘ جواب چنا۔ اگر اس ملک میں جمہوریت ہے تو این آر او کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا اور کیوں امریکہ پاکستان کی خودمختاری اور جمہوری حقوق کو پامال کررہا ہے؟ پاکستان کو شارع عام بنا رکھا ہے‘ جب جمہور کی رائے ہے کہ ڈرون حملے بند کرائے جائیں تو یہ حملے بند کیوں نہیں کرائے جاتے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ برطانیہ ہو‘ امریکہ یا کوئی اور ایراغیرا مغربی‘ وہ بھارت جا کر پاکستان کیخلاف سخت سست کہہ جاتا ہے اور ہم انکے ملکوں کے دورے کرتے ہیں‘ کیا ایک خودمختار جمہوری ملک کو یہ زیب دیتا ہے کہ اسکے صدر‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو سانپ سونگھ جائے اور وہ کوئی جواب نہ دیں‘ کوئی احتجاج نہ کریں؟ یہ درست ہے کہ صدر صاحب کو برطانیہ کے دورے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا لیکن کیا وہ خود بھی اپنے آپ کو نہیں روک سکتے تھے‘ کیونکہ انکے منصب کے ساتھ پاکستان کی عزت وابستہ ہے۔ اگرچہ وطن عزیز میں بظاہر جمہوریت کا شور مچایا جاتا ہے لیکن میاں نواز شریف جمہوریت کو جس لاحق خطرے کی بات کر رہے ہیں‘ اس پر سنجیدگی سے حکومت غور کرے‘ یہ نہ ہو کہ اس کشمکش میں جمہوریت ہی خدانخواستہ رخصت ہو جائے۔
No comments:
Post a Comment