Sunday, August 8, 2010

مسلم ورلڈ میں تعلیم کی صورتحال

مسلم ورلڈ میں تعلیم کی صورتحال

سب سے پہلے یہ بتاتاچلوں کہ دنیائے اسلام ‘ امہ یا مسلم ممالک یا جوبھی آپ کہیں میں صرف 498 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ امریکا میں 5758‘ ہمارے ہمسائے اور ”دشمن “ نمبرایک بھارت میں امریکا سے بھی زیادہ یعنی 8500 یونیورسٹیاں ہیں۔ دوسری طرف ڈیلی ٹائمزکے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 285 مذہبی جماعتیں اورپارٹیاں کام کررہی ہیں جن میں سے 28 سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں جبکہ 124 نے اپنا ٹارگٹ جہاد بنارکھاہے۔ مسلم ممالک میں شرح خواندگی 25 سے 28 فیصد کے درمیان ہے اور بعض ملکوں میں تو محض دس فیصد تک ہے جن کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے ایک بھی مسلم ملک میں شرح خواندگی سوفیصد نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق او آئی سی میں 76 مسلم ملک شامل ہیں اور ان میں بین الاقوامی سطح کی محض پانچ یونیورسٹیاں ہیں یعنی تیس لاکھ مسلمانوں کے لیے ایک یونیورسٹی۔جبکہ امریکا میں 6 ہزار جاپان میں 950 چین میں 900 اور بھارت میں 8500 نجی وسرکاری یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں۔ ادھر پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے اور مسلمان سوا ارب یعنی ایک یہودی 100مسلمانوں کے برابر ہے ‘ دوسرے لفظوں میں ایک یہودی 100 مسلمانوں پر بھاری ہے گزشتہ ایک صدی میں 71 یہودیوں کو تحقیق‘ سائنس اور ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات کے عوض نوبل انعام مل چکاہے جبکہ مسلم دنیا میں صرف تین افراد یہ انعام حاصل کرسکے ہیں۔ یہاں تک کہ ”کنگ فیصل انٹرنیشنل فاﺅنڈیشن سعودی عرب“ جوکہ ایک مسلم آرگنائزیشن ہے کی جانب سے دیے جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ کے لیے میڈیکل سائنس اور تحقیق وادب کے شعبے میں کوئی ایک امیدوار بھی شرائط پرپورا نہیں اترتا۔کیا یہ بات نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کے مسلمانوں کے لیے باعث شرم نہیں ہے کہ ڈیڑھ کروڑ یہودی ہرمیدان میں پیش پیش ہیں؟22 عرب ممالک بھی مل کر اسرائیل کی ایک اینٹ نہیں اکھاڑسکے نہ سائنس میں نہ تحقیق وریسرچ میں نہ میڈیکل میں اور نہ ہی بے تیغ یا باتیغ سپاہی کے طورپر۔ اس کے برعکس سوا ارب سے زائد مسلمان اختلاف وانتشار اورفتنہ وفساد میں مبتلا ہیں۔ اسلام کی ترقی یا اسلام کے کارگرہونے یا اسلام کے لیے کوئی نظام چیلنج نہ ہونے یا دنیا تیزی سے اسلام کے قریب یا مشرف بہ اسلام ہوتی جارہی ہے کی خوش فہمی۔ میرا سوال ہے کہ کیا مغرب کی جدید سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر مسجد الحرام میں 30 لاکھ افراد کے بیک وقت نماز پڑھنے کاعمل ممکن ہوسکتاتھا؟ حرم شریف میں بجلی کاجدید نظام آسمان کو چھوتی عمارتیں‘ کیا یہ سب مغربی تعلیم اور عیسائی یا یہودی سائنس دانوں کا مرہون منت نہیں؟درجنوں منزلوں پر لاکھوں افراد کو چند لمحوں میں لے جانے والے Ecalators (معاف کیجیے گا میرے پاس اس کا اردو متبادل نہیں ہی) جو ہیں وہ ”مومنوں“ کی ایجاد نہیں ہیں‘ حرم میں بہترین قسم کا ساﺅنڈ سسٹم ہے۔ جس سے حرم شریف اور اس کے اطراف کی درجنوں بلڈنگوں میں واقع ہزاروں کمروں میں بھی امام کی آواز واضح سنائی دیتی ہے۔ یہ ساﺅنڈسسٹم بھی مسلمانوں کی ایجاد نہیںہے‘ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ وہی ساﺅنڈسسٹم ہے جس کی ایجاد پرحرم شریف سے ہی ”حرام کا فتویٰ جاری کیاگیاتھا۔ عالمی سطح پرتعلیمی میدان میں مسلمانوں کا تناسب 6.3 فیصد ہے اور مسلمان دوسری قوموں سے 85 سال پیچھے ہیں‘ جب ساتویں صدی میں تاتاریوں نے حملہ کیا تو ہم نے دینی علوم کو عصری وجدید علوم کے مقابل لاکھڑا کیا وہیں سے علم دوستی جاتی رہی اور ہم 700 سال پیچھے چلے گئے۔ خلفاءراشدین کے عہد میں سوائے قرآن کریم کے اورکوئی علم مدون تھا نہ رائج ہوا تھا حتیٰ کہ احادیث کی تدوین بھی نہیں کی گئی تھی‘ یہاں سوال اٹھتاہے کہ پھرہمارے ”عہدعروج“ میں کیاتھاجو اب ہے غلام تھے ‘ لونڈیاں تھیں‘ مال غنیمت تھا‘ سازشوں کا انبارتھا‘ قبائلی روایات تھیں‘ غیرجمہوری اقتدارتھا اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کی باقیات کے سوا اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ یہی حال سونے کی چڑیا ہندوستان کا ہے یہاں بھی آگرہ کا تاج محل‘ دلی کے لال قلعہ‘ اورلاہورکی جامع مسجد وغیرہ کے سوا مسلمانوں کی ہزارسالہ حکومت اور اس کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کا زوال 1350 کے بعد تیزی سے ہوا۔ مسلم سلاطین وشہنشاہوں میں ایک بڑی کمی یہ تھی کہ انہوں نے تعلیم گاہوں کی جانب کوئی دھیان نہ دیا نہ ہی اتنے مدرسے‘ اسکول‘ یونیورسٹیاں اورتجربہ گاہیں بنائیں جیسی کہ دوسری قوموں نے اورنہ ہی تعلیم کو وہ اہمیت دی جوکہ دی جانی چاہیے تھی دوسری طرف نصرانی‘ یونانی‘ وغیرہ علوم سے فیض یاب ہوتے رہے یہی نہیں بعد میں انہوں نے بین الاقوامی شہرت کی تجربہ گاہیں بھی بنوائیں جنہیں ”شمسیہ“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے جو علوم بالخصوص سائنس کے تئیں بے رخی برتی وہ آج بھی برقرار ہے حکومت چاہے ہندوستان کے مغلوں کی ہو ایرانی صفوی حکمرانوں کی ہو‘ عثمانی ترکوں کی ہو یا دیگر سلاطین کی ہو۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں سائنسی علوم کا مطالعہ کیوں ختم ہوگیا اور مسلمان اس علمی ترقی سے کیوں مستفیض نہ ہوسکے طویل اور تلخ واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر میرے حساب سے جوعلم کے دروازے پردستک دے گا اسی کے لیے دروازہ کھلے گا یہی وجہ ہے کہ علم کا درتوہے لیکن مسلمانوں کے لیے نہیں‘بلکہ جنہوں نے دستک دی ان کے لیےکھلا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment