Sunday, August 15, 2010

پاکستانی میڈیا پر نیا امریکی وار


کیا 18کروڑ پاکستانی مل کر ایک ارب 68کروڑ روپے جمع کرسکتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ہم اپنی ذات سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ایک ارب 68 کروڑ روپے کا ہوگا کیا؟ امریکا کے کھلے اور چھپے ناپاک مکروہ عزائم پورے کرنے میں معاون اس کا ادارہ یو ایس ایڈ جو پاکستان میں 1955ءسے سرگرم ہے، اس نے پاکستانی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا ہے۔ اس اشتہار کے مطابق یو ایس ایڈ نے ایسے تمام پاکستانی اور امریکی اداروں سے منصوبے اور تجاویز طلب کیے ہیں جو بچوں کے پروگرام بناسکتے ہیں اور یو ایس ایڈ کو پاکستانی بچوں کے لئے ایک ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے یو ایس ایڈ ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے لے کر 2کروڑ ڈالر تک کا سرمایہ فراہم کرے گا۔ یعنی تقریباً ایک ارب 68کروڑ پاکستانی روپے۔

عقل حیران ہے کہ یہاں بڑے بڑے اعلیٰ ذہن اور وژن رکھنے والے لوگ پورے 18کروڑ عوام کی رہنمائی کیلئے ایک نیوز چینل قائم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے لئے 5سے 10کروڑ روپے نکالنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت ببانگِ دہل صرف پاکستانی بچوں کیلئے ایک ارب 68کروڑ روپے سے ٹی وی چینل قائم کررہی ہے۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ پینٹاگون کے پاس اربوں ڈالر کا بجٹ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اسلامی ممالک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مسلمان عوام کا ذہنی غسل کیا جائے اور رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ آپ کو کیا دکھانا ہے، کیسے دکھاناہے، کیاسوچنے پر مجبورکرناہے، کس طرح کی رائے قائم کراناہے اور کس طرح کا کردار اداکروانا ہے یہ وہ تمام مقاصد ہیں جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مددسے حاصل کئے جارہے ہیں۔

امریکی ٹکڑوں یامشروبات پر پلنے والے نام نہاد کالم نویس اور دانشور صبح تا شام پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے صرف اسلام اور دہشت گردی کا تعلق ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کوتمام مسائل کی جڑ اسلام اور لوگوں کا اسلام سے تعلق نظر آتاہے۔ طالبان کے نام پر دہشت گردی کے ہرطرح کے واقعات رونماہورہے ہیں اور ہر واقعے کے بعد لوگوں کے لاشعور میں متواتر ٹی وی مذاکروں کے ذریعے صرف ایک ہی بات بٹھائی جاتی ہے کہ یہ اسلام کے نام لیواﺅں کی کارروائی ہے اوریہ کہ ہمیں ان سے اپنے تعلق کو مکمل ختم کرناہوگا، یعنی ہر اُ س شخص سے جونمازپڑھتا، داڑھی رکھتا یا خلافِ اسلام رویّوں کو رد کرتا یا پھر امریکا کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بات کرتا یا اس کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی مذّمت کرتاہے۔

راقم نے یہ بات خاص طورپر نوٹ کی ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ہر اس شخص یا تنظیم کو طالبان یادہشت گردوں کا ہمدرد، ساتھی اور معاون قراردیاجاتاہے جو پاکستان میں امریکی مداخلت یا افغانستان میں ہزاروں بے گناہوں کی شہادت کی بات کرتاہے اور ناپاک امریکی عزائم کو موضوعِ بحث بناتاہے۔

جماعتِ اسلامی کے نئے امیر سید منور حسن اس بات کے گواہ اور شاہد ہیں کہ کس طرح پاکستانی میڈیا نے ان کے امیر بننے کے بعد ان کے متواتر انٹریوز شائع اور نشر کیے اور ہر انٹرویو میں ان کو مخصوص سوالات کے ذریعے گھیرنے کی کوششیں کی گئیںاور انٹرویوز کرنے والے سننے اور دیکھنے والوں کو یہ تاثر دیتے رہے کہ جماعتِ اسلامی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذّمت نہیں کرتی ہے بلکہ ملک میں طالبان کے نام سے دہشت گردی کی کاروائیوں کی ہمدردہے اور امریکا کی بلاوجہ مخالفت کرتی ہے۔ یو ایس ایڈفنڈڈ ایک چینل جس کا سی ای اوبھی یو ایس ایڈکا باقاعدہ ملازم ہواکرتاتھا اس کے ایک سینئراینکرجوکسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے کارکن اور کیپیٹل ازم اور امریکاکے بہت بڑے مخالف سمجھے جاتے تھے انہوں نے امیر جماعتِ اسلامی سے انٹریو میں اس حدتک اشتعال انگیز سوالات کئے کہ منورحسن کو کہنا پڑا کہ “یہ آپ امریکی ذہن سے سوچ رہے ہیں اور امریکی سوالات پوچھ رہے ہیں”۔ منورحسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جس چینل کو خاص طورپر امریکی امداد کے ذریعے بنایاگیاہے اور جہاں ان تمام لوگوں کونوکری فراہم کی جاتی ہے جو اسلام یا اس کے نام لیواﺅں سے بیزاری رکھتے اور مغرب سے اپنا ناتا جوڑے ہوئے ہوں ۔ توکیا ایسے ٹیلی ویژن امریکی اور مغربی سوچ کی نمائندگی نہیں کریں گے؟

جویو ایس ایڈصرف بچوں کے چینل کےلئے ایک ارب 68کروڑ روپے فراہم کر رہی ہے اس نے 18کروڑ جیتے جاگتے باشعور پاکستانیوں کی ذہن سازی کیلئے اگر 100ارب بھی خرچ کئے ہیں تو یہ تھوڑے ہیں۔ اسی چینل پر اکثروبیشتر مذاکرے نشر ہوتے ہیں جن کا واحد مقصد عوام کے لاشعور یہ بات بٹھانا ہے کہ اچھے لوگ صرف وہ ہیں جو صبح کام پر جاتے ہیں اور اپنے ساتھ اور ملک کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پر زبان سے ایک حرف نہیں نکالتے۔ یہ اچھے لوگ نہ صرف کہ اسلام سے واجبی ساتعلق رکھتے ہیں بلکہ اسلامی کے نام لینے والوں یا ملک کی اسلامی اساس پر ضرب لگانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں یا احتجاج کرنے والوں سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ کیونکہ یہ لوگ شلوار قمیض پہنتے، نماز پڑھتے اور داڑھی رکھتے ہیں اور مغرب خاص طورپر امریکا کی جانب سے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جانے پر احتجاج کرتے اور کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں لہٰذا ان میں اور طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے لوگوں کا نہ صرف کہ ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے بلکہ ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔

ایم کیوایم کی جانب سے بھی میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اور اب اکثر ایسی دینی سیاسی جماعتوں پر تنقید کی جاتی ہے جو ملک میں دہشت گردی کا ذمہ دار مغرب اور امریکا کو ٹھراتے ہیں۔ یہ تمام چینل کی امریکی یا مغرب مخالف خبر کو چند سیکنڈدیتے ہیں۔ لیکن اسلام کا دہشت گردی سے تعلق جوڑ نے میں ان کا بیشتر وقت گزر جاتا ہے۔

یو ایس ایڈکی جانب سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری نہ صرف کہ پاکستانی معاشرے میں رنگ لارہی ہے بلکہ وہ دن زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا جب اسلام کا نام لینا ایک جرم قرار پائے گا اور عوام میڈیا کے مستقل پراپیگنڈے کے زیرِ اثر پاکستانی عوام سے بات کرنابھی ناممکن ہوجائے گا۔ ابھی پاکستانی عوام کی مستقل طورپر دینی جماعتوں، مدرسوں اور علما کے خلاف ذہن سازی کی جارہی ہے تاکہ وہ ان کو معاشرے کا ناسور سمجھنا شروع ہوجائیں اور دوسرے مرحلے میں عوام اور سرکاری اداروں کو میڈیا کے پراپیگنڈے کے ذریعے اسلام کا نام لینے والی جماعتوں اور مدرسوں کے خلاف کاروائیوں پر اکسایاجائے گا۔ یو ایس ایڈکے فنڈڈ اسی چینل سے چند روز پہلے ڈاکٹر ہود بھا ئے اور ظفر خان مدرسوں اور اسلامی جماعتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہے تھے اور مدرسوں کو دہشت گردی کی نرسریاں قراردیاجارہاتھا۔ یہاں تک کہاگیا کہ یہ مدرسے ہی دراصل اسلامی سیاسی جماعتوں اور دہشت گردوں کے مشترکہ طاقت کے مراکز ہیں اور اگرپاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو ان مدرسوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

اگر ملک کے تمام علمائ، مدارس، دینی جماعتیں اور دینی سیاسی جماعتیں ایک ایسے پاکستان کے لیے تیار ہیں جہاں پر صرف اور صرف مغرب کا راج ہوگا اور جبرکے ذریعے اسلامی شعائر کی پابندی سے روکاجائے گا تو پھر ہمیں پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں مگر اگر ہم پاکستان اور اسلام کے تعلق کو سمجھتے ہیں اور واقعتا اسلام اور اللہ سے وابستگی رکھتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں مغرب کی یلغار خاص طورپر میڈیا کی یلغار سے کس طرح نمٹناہے۔

اس ملک میں جہاں لوگ دوسروں کی مدد کی خاطر سالانہ سور ارب سے زائد صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور جہاں ایک سچے پاکستانی کی اپیل پرکینسر جیسے ہسپتال کو تعمیر اور کامیابی سے چلنا ممکن بناسکتے ہیں وہاں مغرب کے فنڈڈ چینل اور اخبارات کے مقابلے کیلئے 10 ،20یا 30کروڑ روپے جمع نہیں کئے جاسکتے؟ بات صرف اس کام کی اہمیت کو سمجھنے اور عزم کی ہے۔

یہاں ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جس کاا پنا نیوز چینل، انگریزی اور اردو کا اخبار ،پبلشنگ ہاﺅس اور لکھنے والوں کی ایک معقول تعداد ہو جوکہ نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی میں شائع ہونے والے اسلام مخالف سینکڑوں مضامین کو چیلنج کریں اور ان کے خلاف دلائل کے ساتھ تحریریں لکھیں اور ان تمام اخبارات، رسائل اور چینلز کی باقاعدہ مانیٹرنگ کرےں تاکہ روزانہ کی بنیاد پر ان کے پراپیگنڈے کا مقابلہ کیاجائے۔

مغرب کے خلاف اردوزبان میں بہت سا ایسامواد موجود ہے جس کو انگریزی میں ترجمہ کرکے انٹرنیٹ کے ذریعے اور کتابوں اور رسائل کی شکل میں پاکستان میں انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والے لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے بلکہ مغرب اور دنیابھر میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی بتانا ضروری ہے۔ اس وقت پوری دنیا کا میڈیا یہودیوں اور اسلام دشمنوں کے ہاتھ میں ہے ایسے میں یہ سمجھنا کم فہمی ہے کہ ہم لوگوں کو مغرب کے ناپاک عزائم سے صرف بیانات اور احتجاجی مظاہروں سے آگاہ کر کے ان کی رائے کو مغرب کے ناپاک عزائم کے خلاف ہموار کرلیں گے۔

No comments:

Post a Comment