وار آن ٹیرر اور امت مسلمہ
امت ِمسلمہ مدت ہائے دراز سے اس ابتلا سے گزر رہی ہے کہ اسے جو حکمران میسر آئے ہیں، انھوں نے بادشاہت، آمریت یا جمہوریت کے نام پر جبر کے سائے مسلط کرکے آئین و قانون سے ماورا اور قاعدے ضابطے سے آزاد شخصی حکومتیں قائم کی ہیں، اور یہ حکومتیں امت کے لیے آزمائش در آزمائش کا سبب بنی ہیں۔ کم وبیش پچھلے ستّر اسّی سال میں جابجا مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ہیں۔ ہر جگہ آگ اور خون کے دریا سے گزر کر انگریزوں، فرانسیسیوں، ولندیزیوں اور پرتگالیوں کا مقابلہ کیا گیا جنھوں نے نوآبادیاتی نظام دور تک پہنچایا اور پھیلایا تھا۔ وقت کی استعماری قوتوں سے پنجہ آزمائی اور میدانِ عمل میں نکل کر ان کے خلاف محاذ آرائی کے تمام دوائر اور مراحل سے گزر کر یہ آزادی مسلمانوں کو نصیب ہوئی ہی، ورنہ یہ حقیقت سب جانتے ہیںکہ کوئی استعمار اپنے چنگل سے کسی کو آزادی دینے کے لیے بآسانی آمادہ و تیار نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی یہ آزادی اور اس کی پشت پر چلنے والی تحریکیں مسلسل اس بات کا اعلان کررہی تھیں کہ مسلمان جب آزادی کی جدوجہد کرتا ہے تو غیروں کی غلامی سے نکل کر رب کی غلامی کی طرف جاتا ہے۔ طاغوت کی فرمانروائی سے آزادی حاصل کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ اس لیے آزادی کی تمام تحریکوں میں لاالہٰ الااللہ کا نعرہ بلند ہوتا تھا ”پاکستان کا مطلب کیا.... لاالہٰ الااللہ“۔ ہر ایک جو اپنا ’پاکستان‘ بنا رہا تھا یا اپنے ملک سے استعمار کو بھگا رہا تھا، تو یہ اسلام کا حوالہ تھا جس نے لوگوں کے اندر ایک کردار، جدوجہد کا ایک عنوان اور بڑے پیمانے پر قربانیاں دے کر کشمکش مول لینے کا کلچر پیدا کیا۔ آج اگر دنیا کے نقشے پر ستاون مسلمان ملک موجود ہیں تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان کی بڑی تعداد اسلام اور کلمہ لاالہ الااللہ کے نام پرآزاد ہوئی ہے۔ لیکن آزادی کے بعد مسلمانوں کو اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا کہ ہر جگہ گورے انگریزوں اور فرانسیسیوں کے بجائے کالے انگریز اور فرانسیسی برسراقتدار آگئے ، اور وہ اسی نظام اور انھی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے پر مُصر رہے اور انھی رویوں اور طور طریقوں کو اپناتے رہے جو ان کی’گاڈ فادر‘ چھوڑ کر گئے تھے۔ ان تحریکوں کو جن لوگوں نے لیڈ کیا، انھوں نے اسلام کا نام استعمال کیا کہ اس کے بغیر عوام کو اپنے گرد جمع نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن بحیثیت ِ مجموعی اس ایلیٹ کلاس اور کرتا دھرتا لوگوں کے ذہن مسموم تھی، ان کے اعضا و جوارح بھی اور ان کی سوچ اور فکر کے تمام دھارے بھی غلامی کے اندر جکڑے ہوئے تھے۔ وہ اس بات کا تصور نہیں کرسکتے تھے کہ شریعت کا نفاذ اس دور میں بھی ہوسکتا ہے۔ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے آج بھی قبول کیا جاسکتا ہی، اسلام کا کوئی معاشی، معاشرتی اور تمدنی نظام بھی ہے کہ جس کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ کوئی اگر اسلام کے قریب ہوا بھی تو صرف انفرادی دائرے میں.... اجتماعی دائرے سے اسلام کو دور رکھنے کے لیے اس نے بھی پوری کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ہر جگہ اسلامی نظام کے لیے بڑے پیمانے پر مزاحمت دیکھنے میں آئی اور مسلم عوام نے استعمار سے نجات حاصل کرنے کے بعد اس کے پروردہ گروہ سے آویزش اورکشمکش مول لی۔ اور دنیا نے دیکھا کہ غلبہ دین، اسلامی نظام اور معاشرے کو ظلم سے پاک کرکے عدل وانصاف کی دعویدار اسلامی تحریکیں جابجا جڑپکڑ رہی ہیں، پذیرائی حاصل کررہی ہیں، اور اس کے نتیجے میں جہاد کا عَلم بھی بلند ہورہا ہے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ صومالیہ، نائیجیریا اور الجزائر میں تبدیلی کی لہر ہی، اور ترکی سے مراکش اور سوڈان تک اسلامی تحریکیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ جہاد ِافغانستان کامیاب ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین کی شان و شوکت پارہ پارہ ہوگئی ہی، تو اس کے نتیجے میں امت ِمسلمہ کو ایک دوسری آزمائش سے دوچار ہونا پڑاکہ امریکا نے یک محوری دنیا کے نام پر اعلان کیا کہ میں تنہا اور اکیلا اس دنیا کا امام ہوں اور پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کو میرا ہی باج گزار ہونا چاہیی، اسے میری پالیسی اور کہے پر عمل کرنا چاہیی، اور جو عمل نہیں کرے گا اس کی بیخ کنی کے لیے عسکری قوت کا استعمال کیا جائے گا اور بارود کی برسات سے نافرمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی، انھیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا۔امریکا اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر عالم اسلام اور امت ِمسلمہ کے خلاف اس لیے اعلانِ جنگ کیے ہوئے ہے کیونکہ وہ امریکی استعمار کے غلبے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، اور اپنے معاشروں میں امریکی تہذیب اور اس کے ورلڈ آرڈر کے بجائے اسلام اور اسلامی تہذیب کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلامی معاشروں میں وہ اسلامی تحریکیں موجود ہیں جو عوام الناس کو اسلام کے صحیح تصورات سے آشنا کراتی ہیں، اسلام کے غلبے اور دین کی پذیرائی کے لیے کوشاں ہوتی ہیں اور امریکا کے گماشتہ حکمرانوں کی خواہش کے علی الرغم حالات میں سے اپنے لیے کوئی راستہ بناتی ہیں۔ اس لیے بڑے پیمانے پر کوشش کی جارہی ہے کہ اسلامی تحریکوں سے مسلم عوام کو ’نجات‘ دلائی جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ نہ صرف لوگ سیکولرازم کی طرف راغب ہوں، امریکا کے مسلط کردہ نظام پر چلنے کی کوشش کریں بلکہ اس کے ساتھ اسلامی تحریکوں پر ایسے لیبل لگائے جائیں کہ معاشرے میں ان کے کام کرنے کی راہیں مسدود ہوجائیں، ان کو انتہاپسند، بنیاد پرست اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری قرار دیا جائی، اور ان کو دہشت گرد کہہ کر یہ باور کرایا جائے کہ یہ معقول بات سننی، قاعدے ضابطے میں رہنے اور کسی آئین و قانون کی پابندی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں پہلے دن سے یہ بات کہہ رہی ہیں کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں اسلام اورعالم اسلام کے خلاف ہے۔ وقت اور حالات نے اس موقف کو درست ثابت کیا ہے۔ اس جنگ کو تقریباً دس سال ہونے کو ہیں، دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ یہودی فلسطینیوں کا جینا دوبھر کریں، ان پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بمباری کریں لیکن انھیں کوئی دہشت گرد نہیں کہتا۔ ہندو بڑے پیمانے پر ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں کو تہہ تیغ کری، بنیادی حقوق چھین کر انھیں جینے کے حق سے محروم کری، لیکن کسی ہندو کو، ان کی کسی تنظیم کو دہشت گرد نہیں قرار دیا جاتا۔ کشمیر و فلسطین اور افغانستان و عراق میں مسلمان ظلم کا شکار ہیں لیکن آج تک کسی عیسائی، یہودی اور ہندو کے نام دہشت گردی کا قرعہ فال نہیں نکلا۔ سارے دہشت گرد صرف مسلمان ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ دہشت گرد ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس میں پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی فرد یا افراد کا کوئی گروہ دہشت گرد بن کر اٹھے تو لمحوں، منٹوں میں اس کا صفایا ہوسکتا ہی، اور وہ کوئی نقصان پہنچائے بھی تو اس کا مداوا ہوسکتا ہے۔ ملک کے اندر قانون ہوتا ہی، فوج اور پولیس ہوتی ہی، ایجنسیاں اور خود عوام الناس ہوتے ہیں جو ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ فی زمانہ اصل دہشت گردی تو ریاستی دہشت گردی ہے جس کی وجہ سے نچلی سطح پر دہشت گردی پنپ رہی ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کے اندر بم دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے تو اس کے ڈانڈے بھی امریکی دہشت گردی سے ملتے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں لوگ امریکی بمباری کی وجہ سے لقمہ ¿ اجل بن رہے ہیں، ڈرون طیاروں اور ڈیزی کٹر بموں کی وجہ سے تباہی پھیل رہی ہے۔ افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کو امریکا اور نیٹو کی افواج نے مارا ہے۔ کشمیر میں بھارت اور فلسطین میں اسرائیل ریاستی دہشت گردی کے مرتکب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیٹ ٹیررازم نہ ہو تو اس کا ردعمل بھی نہیں ہوگا۔ ایکشن کے نتیجے میں ری ایکشن ہوتا ہی، اور پھر یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ اس ری ایکشن سے کون کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہم جب یہ بات کہتے ہیں کہ فاٹا سے بلوچستان تک پاکستان کے تمام علاقوں میں فوجی آپریشن ختم ہونا چاہیے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کے نتیجے میں ری ایکشن ہوگا اور معصوم لوگ اس کی زد میں آئیں گے۔ ان مسایٔل کا حل یہ ہے کہ مذاکرات کیے جائیں۔ لندن کانفرنس اور مذاکرات کے لیے امریکی کوششوں کے بعد اس کی حقانیت مزید واضح ہوگئی ہے۔ امریکی جنگ میں شمولیت نے اس قوم کو لاشیں دی ہیں، معیشت کو تباہ اور امن و سکون کو برباد کیا ہی، فوج اور عوام کے درمیان دوری پیدا کی ہے۔ مذاکرات مسئلے کا حل ہے اور افغانستان کے نام پر لندن کانفرنس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ فوج کشی چاہے وہ امریکا کی ہو یا نیٹو کی، ناکام ہوچکی ہے۔ اس لیے ڈومور پر عملدرآمدکی پالیسی سے جتنی جلدی نکل آئیں، اتنا ہی ملک و قوم کے لیے اچھا ہے۔ یہ اقدام دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں قیام امن کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا آئین یہ حق دیتا ہے کہ حکومت سے اختلاف کیا جاۓ، غلط پالیسیوں اور غلط رویوں پر اس کا ہاتھ پکڑا جاۓ، اپنے موقف کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لیا جاۓ، اور عوامی دباؤ کے ذریعے ملک کو امریکی کالونی بننے سے روکا جاۓ۔ جب یہ ذرائع اور وسائل موجود ہیں، آزادیاں اور حقوق میسر ہیں تو ہمیں اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کا یقین ہے کہ زبان سے کہی ہوئی بات گولی سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام کے غلبے کے لیے اسلحہ اٹھانا چاہیی، لیکن یہ بات شریعت کے خلاف ہے کہ اپنے ہی معاشرے کے اندر اسلحہ اٹھا لیا جائے اور مسلمانوں کے سینے پر بندوق تان لی جائے۔ جن لوگوں کے پاس پیغام ہوتا ہی، وہ اس پیغام اور دعوت سے لوگوں کو مسخر کرتے ہیں، عوام کے دلوں کو موم کرتے اور اپنا ہمنوا بناتے ہیں۔ اور عوام الناس کی ہمنوائی سے جو تبدیلی آتی ہی، وہ پائیدار ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment