نائن الیون کے بعد اس خطہ میںپاکستان، افغانستان اور نیٹو افواج کے نقصانات ..نیٹو افواج کی موجودگی ہی اصل فساد کی جڑ ہے
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس خطہ میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات کی تفصیل بتاتے ہوئے ’’فرینڈز آف پاکستان‘‘ کو باور کرایا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے ردعمل میں اب تک 247 خودکش حملوں میں 3 ہزار عام شہری جاں بحق اور 7 ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں جبکہ اس جنگ میں سکیورٹی فورسز کے 2550 اہلکار شہید ہوئے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں فرینڈز آف پاکستان کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 45 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے جبکہ ہماری برآمدات اور غیرملکی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح مالاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردی کیخلاف آپریشن کے باعث 25 لاکھ مقامی باشندے بے گھر ہوئے۔ ان کے بقول پاکستان فرینڈز آف پاکستان سے امداد کے بجائے تجارت چاہتا ہے تاکہ ہم اپنی معیشت کو مستحکم بنا سکیں۔
اس اجلاس میں فرینڈز آف پاکستان کی جانب سے امداد کے نئے وعدے کئے گئے جبکہ سابقہ وعدے ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ گزشتہ وفاقی بجٹ میں آمدن کا تخمینہ بھی اسی متوقع امداد کی بنیاد پر لگایا گیا تھا جو دستیاب نہ ہونے کے باعث بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا اور بیشتر ترقیاتی منصوبوں پر کام رک گیا۔ وزیر خارجہ نے ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات کا تذکرہ نہیں کیا جبکہ نقصانات کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور گزشتہ روز بھی کرم ایجنسی میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے نتیجہ میں 7 خواتین سمیت 18 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ اورکزئی میں بمباری سے 25 شدت پسند مارے گئے جس کے ردعمل میں خودکش حملوں میں مزید اضافہ ہوجائیگا۔
اس خطہ میں جاری امریکی مفادات کی جنگ کا خمیازہ صرف ہمیں ہی نہیں بھگتنا پڑ رہا۔ افغانستان بھی تباہ ہوچکا ہے اور امریکی نیٹو افواج کو بھی بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز بھی افغانستان کے صوبہ ہلمند اور جنوبی علاقے میں بم دھماکوں سے 2 امریکی اور 3 برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔ نیٹو ترجمان کے مطابق اس ماہ 9 جولائی سے 16 جولائی تک افغانستان میں مزاحمت کاروں کیخلاف 40 آپریشن کئے گئے ہیں جن میں درجنوں طالبان جاں بحق اور جوابی کارروائیوں میں بھی دو درجن سے زائد نیٹو افواج کے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکی فوجی حکام کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق جنگ میں 2003ء میں مجموعی طور پر 4326 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ افغانستان میں اب تک ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد اس سے دوگنا ہے اور ہلاکتوں کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اسکے علاوہ افغانستان میں جنگ کی صعوبتیں اٹھانے اور نامساعد حالات کا سامنا کرنے والے امریکی فوجیوں میں مایوسی کے عالم میں خودکشی کرنے کے رجحان میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ جون میں 32 امریکی فوجیوں نے خودکشی کی جو کسی ایک مہینے میں خودکشی کرنیوالے امریکی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوجی اہلکاروں میں سے 140 نے 2008ء اور 160 نے 2009ء میں خودکشی کی جبکہ اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران اب تک 80 امریکی فوجیوں کی خودکشی ریکارڈ پر آچکی ہے۔
اس صورتحال میں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں اس خطہ میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ انسانی تباہی پر منتج ہورہی ہے اور امریکہ، بھارت، اسرائیل ملکر بھی مسلم امہ کیخلاف کروسیڈ کا نتیجہ اپنے حق میں کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور نہ ہی افغان دھرتی پر غیرملکی افواج کو کبھی اپنے مقاصد میں کامیابی ہوسکتی ہے کیونکہ افغان تاریخ میں آج تک کسی بیرونی جارح کو اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں مل سکا اور سکندر اعظم کو بھی اس دھرتی پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کے افغانستان میں جارحیت کے ردعمل میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ اب نیٹو افواج کے مقدر میں بھی افغان دھرتی پر ہزیمتیں ہی ہزیمتیں لکھی ہیں جس کا نیٹو کمانڈر اعتراف بھی کررہے ہیں اور ایک جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے اب طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کیخلاف لڑائی کی حکمت عملی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اب جنگ کو بڑے دائرے سے نکال کر چھوٹے دائرے میں رکھا جائیگا اور طالبان کے اعتدال پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انہیں افغان حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جائیگی۔ افغان ماہرین نے بھی اس حکمت عملی سے اتفاق کیا ہے جن کے بقول طالبان کی حکومت میں شمولیت سے ملک میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں چند ہفتے قبل کابل میں ہونیوالے امن جرگہ میں طالبان سے مفاہمت کیلئے کئی اہم امور پر غوروخوض کیا گیا جن میں افغان اور امریکی جیلوں میں قید افراد کی رہائی کا معاملہ بھی شامل تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما افغانستان میں حالات کو معمول پر لانے کیلئے امریکہ روس تعاون پر بھی تکیہ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں دوشنبے میں تاجک صدر سے ملاقات کے بعد امریکی مندوب مائیکل میک فال نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کے حوالے سے امریکی منصوبوں میں روسی تعاون کو اہم مقام حاصل ہے۔
امریکہ افغانستان میں اپنے قدم جمانے اور اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ میں اپنے حق میں نتائج برآمد کرنے کا چاہے جو بھی منصوبہ بنالے اب تک کے حقائق و شواہد سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ جلد یا بدیر امریکی نیٹو افواج کو یہاں سے رسوا اور پسپا ہوکر نکلنا پڑیگا اور جاتے جاتے وہ اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں اور خودکشیوں کی ایسی کربناک داستانیں بھی اپنے ہمراہ لے جائینگے جو اس کروسیڈ میں انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن امریکی معاشرے کو لگنے والے زخموں کو ہمہ وقت تازہ رکھیں گی۔ اس لئے اس کروسیڈ میں مکمل انسانی تباہی کی نوبت آنے سے پہلے پہلے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لینا چاہئے ورنہ اس خطہ میں انسانی خون کی ارزانی ہوگی، انسانی لاشوں کے کشتوں کے پشتے لگتے رہیں گے اور اس جنگ سے متاثر ہونے والے انسانی قبیلے انفرادی اور اجتماعی طور پر زندہ درگور ہوتے رہیں گے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے فرینڈز آف پاکستان کے اجلاس میں پیش کی گئی رپورٹ کی روشنی میں ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ پرائی آگ میں کود کر انہوں نے ملک اور قوم کی کیا خدمت کی ہے جبکہ مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کی اس جنگ میں جس کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنا ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان کیا گیا، وہ ہماری معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ہمیں پھوٹی کوڑی دینے کا بھی روادار نہیں۔ کیا فرینڈز آف پاکستان کے وعدۂ فردا سے ہمارے دکھوں کا مداوا ہوسکتا ہے؟ اس صورتحال میں مناسب یہی ہے کہ پاک افغان مشترکہ حکمت عملی طے کرکے امریکی نیٹو افواج کو افغانستان کی دھرتی سے واپس جانے اور ہماری سرزمین پر ڈرون حملے بند کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اسی طرح فوجی آپریشن بند کرکے مقامی طالبان قیادتوں کے ساتھ جرگوں کے ذریعے مذاکرات کا راستہ نکالا جائے اور اس دھرتی کو انسانی خون سے مزید رنگین ہونے سے بچایا جائے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ امریکی نیٹو افواج کی موجودگی تک اس خطہ میں امن و سلامتی کی فضا بحال نہیں ہوسکتی اور اس خطہ میں امن و امان غارت ہوگا تو پھر عالمی امن کی ضمانت بھی کیسے دی جاسکے گی؟۔
No comments:
Post a Comment