امریکی جنرل میک کرسٹل کا اعتراف شکست
ایک سپاہی کو اعلیٰ سویلین اور عسکری قیادت کے فیصلوں سے اختلاف کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن اس کا ایک اصول اور طریق کار متعین ہے۔ جس طرح سے جنرل میک کرسٹل نے اپنے اختلافات کا اظہار کیا ہے اس کی ایک اعلیٰ فوجی افسر سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ شاید حالات کی تلخی کے سبب اُن کے اعصاب شل ہوچکے ہیں اور وہ اپنی قوت ِفیصلہ سے محروم ہوچکے ہیں جیسا کہ ان کے ایک قریبی ساتھی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: ”ان میں ایسے سخت ترین حالات میں سب کو ساتھ لے کر کام کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔ وہ ایک مخصوص گروپ کے ساتھ کام کرتے تھے اور کثیر مقدار میں شراب نوشی نے ان کے اعصاب پر برا اثر ڈالا ہوگا۔“ لیکن اس واقعہ کے پس منظر میں کئی اور حقائق پوشیدہ ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ صدر اوباما نے صدارتی انتخابی مہم کے دوران دو وعدے کیے تھی، پہلا یہ کہ وہ افغانستان میں جاری بے مقصد اور ظالمانہ جنگ کو ختم کرتے ہوئے وہاں سے فوجیں نکال لیں گے اور مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل تلاش کریں گے۔ لیکن قصرِ صدارت میں پہنچتے ہی وہ ان وعدوں سے منحرف ہوگئے۔ عسکری اعلیٰ قیادت اور دفاعی اسلحہ ساز لابی کے دباﺅ میں آکر انہوں نے افغانستان کے مسئلے کو عسکری طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی راہ اختیار کی، حالانکہ وہ آسانی سے یہ کہہ سکتے تھے کہ ”صدر بش نے افغانستان میں کارروائی مکمل کرلی ہے لہٰذا میں نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔“ یقینا اس فیصلے کو نیٹو اور امریکی عوام پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے۔ دوسری جانب مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں بھارتی لابی نے اُن پر اس قدر دباﺅ ڈالا کہ انہوں نے رچرڈ ہالبروک کی ذمہ داریاں صرف افغانستان اور پاکستان کے معاملات تک ہی محدود رکھیں۔بلاشبہ جنرل میک کرسٹل اپنی ناکامیوں پر دل برداشتہ تھی، کیونکہ وہ ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے تھے جو ان سے وابستہ تھیں، جیسا کہ جنرل پیٹریاس نے عراق میں کامیابیاں حاصل کی تھیں حالانکہ افغانستان اور عراق کے حالات میں بہت فرق ہے۔ جنرل پیٹریاس نے عراق میں نسلی اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر شیعہ، سنی آبادی کے مابین تفریق پیدا کی جس سے نسلی اور فروعی فسادات اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ سنی مزاحمت کاروں کو بھاری رشوت دے کر مزاحمت کو کمزور کیا اور مرضی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس افغانستان میں کسی قسم کے نسلی اور فروعی اختلافات نہیں ہیں۔ یہاں پختون اکثریت بیرونی جارح قوتوں سے برسر پیکار ہے اور شمالی اتحاد جو کہ اقلیتوں پر مشتمل ہی، امریکی ٹینکوں پر سوار ہوکر افغانستان پر قابض ہوا، اور اب جارح قوتوں کے ہمراہ وہ بھی شکست سے دوچار ہے۔ افغان جہادیوں نے یہ جنگ جیت لی ہے اس لیے قیام امن کی شرائط طے کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ازبس لازم ہے۔ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بالکل صحیح رائے دی ہے کہ: ”حق دار قبائل اور نسلی گروہوں کو سیاسی عمل میں کلیدی کردار سونپا جانا چاہیے اور قیام امن کے حوالے سے غالب آنے والے فاتحین کو اقتدار میں شامل کیا جانا نہایت ضروری ہے۔“ جنرل میک کرسٹل کی ناکامی کا اعتراف دراصل اوباما کی جیت ہی، کیونکہ صدر اوباما نے اپنے فوجی جرنیلوں کو کھل کر جوہر دکھانے کے مکمل اختیار دیئے تھے مگر اب وہ بھی ہمت ہار چکے ہیں اور فوجیں نکالنے کی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ عسکری طاقت کے ذریعے افغانستان کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔ اس آٹھ سال طویل، ظالمانہ اور بے مقصد جنگ کو پُرامن طریقے سے ختم کرنے کے لیے امریکا کو چاہیے کہ سیاسی عمل شروع کرے اور اس سلسلے میں مناسب اور بروقت اقدامات اٹھائے۔ پہلے قدم کے طور پر طالبان کے ساتھ گفت و شنید کی راہ اپنائی جانی چاہیے تاکہ باہمی اعتماد کے فقدان کا خاتمہ ہو اور بنیادی مسائل رضامندی سے حل کیے جائیں، مثلاً: قابض فوجوں کے افغانستان سے انخلاءکے ٹائم فریم کا تعین، فائر بندی کا اعلان، طالبان کی تحریک آزادی پر عائد پابندیوں کا خاتمہ، نیا نظام قائم کرنے کے عزم سے سیاسی سمجھوتے کی راہیں ہموار کرنا۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جو اگر خوش اسلوبی سے طے نہ کیے گئے تو انتہائی مہلک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔کرزئی حکومت طالبان سے گفت و شنید کے سلسلے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ طالبان لوئی جرگہ بلانے پر رضامند ہوکر قومی حکومت کی تشکیل اور مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کے لیے نیا آئین بنانے پر متفق ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں دیگر اہم اور توجہ طلب مسائل مندرجہ ذیل ہیں:٭افغانستان کی آزادی کے بعد امریکا اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟٭مستقبل کی افغان حکومت کو دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور سماجی و ثقافتی تعلقات قائم کرنے کی آزادی حاصل ہو۔٭دیگر ممالک کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے کی ضمانت۔٭اقوام متحدہ، امریکا، نیٹو اور روس کی جانب سے افغانستان میں جنگ کی تباہ کاریوں کا معاوضہ ادا کرنے اور تعمیرنو کے لیے مناسب منصوبہ بندی کا وعدہ۔1980کی دہائی میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات قائم تھے لیکن افغانیوں کے اعتماد کو اُس وقت ٹھیس پہنچی جب 1990ءمیں پاکستان نے آئی ایس آئی کو امریکی دباﺅ پر افغانستان کے معاملات سے الگ کردیا۔ دوسرے مرحلے میں آئی ایس آئی کے وہ اہم عہدہ دار جن کے مجاہدین کے ساتھ اچھے مراسم تھی، انہیں ہٹا دیا گیا۔ لیکن پاکستان کی سلامتی کو سخت خطرہ اُس وقت لاحق ہوا جب 2003ءمیں جنرل پرویزمشرف نے آئی ایس آئی سمیت دیگر ملکی ایجنسیوں کو سوات، دیر، باجوڑ، فاٹا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کام کرنے سے روک کر یہ علاقے امریکی سی آئی اے کے حوالے کردیئے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں قائم بھارتی جاسوس ادارے بھی اس کے ساتھ مل گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا تمام سرحدی علاقہ غیر ملکی جاسوس ایجنسیوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔ ان غیر ملکی جاسوسی ایجنسیوں کی سازشی کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیلا، یہاں تک کہ پشاور اور اسلام آباد کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے اور بلوچستان میں تو باقاعدہ بغاوت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ حالات پاکستان کی سلامتی کے لیے شدید خطرات کا باعث تھے۔ 2008ءمیں قائم ہونے والی نئی حکومت نے ان علاقوں میں حکومت کی عملداری قائم کرنے اور سوات، دیر، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا۔ پاک آرمی کی کارروائی کی کامیابی کا دارومدار انٹیلی جنس اداروں کے اشتراک اور مکمل تعاون پر تھا، اور یہ سب اسی وقت ممکن بنایا جاسکتا تھا جب اپنے تمام علاقوں کو امریکی سی آئی ای، را اور موساد کے اثرات سے پاک کردیا جاتا۔ اب ان علاقوں میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے لیے یہ بے حد ضروری قدم تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان پر عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ اس کامیابی کے باوجود میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ افغان طالبان اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین باہمی اعتماد کے فقدان کو کم کرنے میں کوئی مدد ملی ہے کہ نہیں۔ طالبان، ملاّ عمر کی قیادت میں مکمل طور پر متحد ہیں اور ملاّعمر ہماری وعدہ خلافیوں کے باوجود پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی زیر قیادت نوجوان طالبان حکومت ِ پاکستان، پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے۔ اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کیلیے امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کون سا راستہ کھلا ہی، اور خصوصاً غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلاءکے بعد قیام امن کے حوالے سے پاکستان کو جو کلیدی کردار ادا کرنا ہے وہ کس طرح ممکن ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی اور قیام امن کے مسئلے پر پاکستان نے وہی مو ¿قف اختیار کیا ہے جو امریکا کا ہی، یعنی ”افغانستان میں ایسی حکومت قائم ہو جس پر طالبان کی اجارہ داری نہ ہو اور اس حکومت کو تمام پڑوسی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہو۔“ یہ کمزور اور غیر حقیقت مندانہ مو ¿قف ہے۔ طالبان جنگ جیت چکے ہیں اور ان ہی کو حکومت بنانے کا حق ہے۔ انہیں ماضی میں بھی دھوکا دیا گیا، جب سوویت یونین کی فوج پسپا ہوئی تو انہیں اقتدار سے دور رکھا گیا، پھر 2001ءمیں جب نئی حکومت بنائی گئی تو دوبارہ طالبان کو اقتدار میں حصہ نہ ملا۔ اب تیسری بار انہیں دھوکا دینے کی سازشیں ہورہی ہیں، لیکن اِس بار طالبان دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ لہٰذا حکومت ِپاکستان کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا، ورنہ افغانستان میں امن کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں گی اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ جنرل میک کرسٹل آپ کا شکریہ کہ آپ نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاءکے سلسلے میں آسانیاں پیدا کردی ہیں اور ”افغانستان کے پہاڑوں کی چٹانوں سے پتھر لڑھکنا شروع ہوگئے ہیں۔“ اگر میری یادداشت ٹھیک ہے تو شاید آپ ہی نے چند سال قبل کہا تھا کہ: ”افغانستان کی ہر چیز سخت ہے خواہ وہ افغانستان کے پہاڑ ہوں، افغانی عوام ہوں یا ان کی قوت ِمزاحمت۔“ واقعی آپ نے درست کہا تھا۔
No comments:
Post a Comment