ٓآئی ایم ایف پاکستان کا دشمن
پاکستان کی معیشت کا دشمن ادارہ آئی ایم ایف ہی ہے اس کی شرائط نے ہمیں مجبورمحض بناکررکھ دیاہے۔ پاکستان پر جب سے اس کے خطرناک سائے پڑے ہیں ہم کہیں کے بھی نہیں رہے۔ صدرآصف علی زرداری کا 25 اکتوبرکابیان ہے کہ بحران ختم کرنے کے لئے سخت اور غیر مقبول فیصلے کرناہوں گے۔ قوم کے لئے خطرات کی گھنٹیاں بجارہاہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکارنہیں کرسکتا کہ پاکستان اپنی زندگی کے انتہائی پرآشوب معاشی بحران سے گزررہاہے۔ ہرجانب معاشی سیاسی سماجی اور اخلاقی عدم استحکام نظرآتاہے۔ ملک کا خزانہ جومارشل لاءحکومت بظاہر بھرا چھوڑکرگئی تھی اچانک خالی ہوگیاہے۔ خزانے کے اس تیزی کے ساتھ زوال کے اسباب ومحرکات پرہرپاکستانی غورکررہاہے مگر سب کچھ سمجھ سے بالاترنظرآتاہے ۔ وطن عزیز میں اس وقت فوڈ کرائسز اپنے عروج پر ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں ہرپاکستانی شدید پریشانی کا شکارہے مگر اس پریشانی کا بظاہرکوئی حل بھی دکھائی نہیں دے رہاہے۔ لوگ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں سے پریشان ہیں۔ بھوک اور افلاس کے گھنے سائے ان کے سروں پر منڈلارہے ہیں مگر ان کی کوئی مددکرنے والا کہیںبھی موجود نہیں ہے۔ معاشی بحران کے پیش نظرحکومت کی طرف سے کوئی مضبوط قدم اٹھایاہی نہیں گیا۔ لہذاہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حکومتی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ کٹی پتنگ کی طرح پوری قوم ڈول رہی ہے۔ بہتری کے آثاردور دورتک دکھائی نہیں دیتے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں چند دنوں پہلے جوتیل کا بحران پیدا ہوا تھا اب وہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکاہے اور ہماری معیشت کوبھی اپنے ساتھ بٹھاگیاہے۔ تیل کی قیمت 78 ڈالر سے 147 ڈالر تک پہنچ کر ریورس ہوئی اور اب اپنی اصل قیمت سے بھی نیچے یعنی 62 ڈالر فی بیرل پرآچکی ہے۔ مگرہمارے ہاں مہنگائی کا طوفان شروع ہوا تھا وہ رکنے کے بجائے اور بھی تیزی کے ساتھ بڑھتا نظرآرہاہے۔ کوئی بھی حکومتی رکن یہ بتانے کی زحمت نہیں کررہا کہ جب سے آپ کی حکومت آئی ہے آپ نے کون سے ایسے فیصلے کئے ہیں جن پر عوام نے خوشی کے شادیانے بجائے ہوں اور جن کی وجہ سے حکومت وقت کی پورے معاشرے میں واہ واہ ہوئی ہو۔ حکومت نے سیاسی وسماجی سفارتی اور معاشی میدانوں میں تمام ہی فیصلے منفی انداز میں کئے ہیں۔ ان غیرمقبول فیصلوں کا عذاب پوری قوم کوبھگتنا پڑرہاہے۔ زرداری کا زرتوبین الاقوامی بینکوں میں ہے۔ مگر ان کے اپنے وطن کے بینک سب کا منہ چڑارہے ہیں ۔ صدرمملکت کا یہ فرمان کہ بحران پر قابو پانے کے لئے کوئی مدد کرنا چاہتاہے تو فنانس کمیٹی میں بیٹھ جائے۔ توجناب ! آپ کے ہاتھوں میں تو اقتدارہے۔ آپ اس نیک کام میں دیرکیوں کررہے ہیں۔ آپ کو تو برملا یہ اعلان کردینا چاہئے کہ میں پاکستان کی مدد کرناچاہتاہوں۔ اور اپنا سارا سرمایہ بیرونی بینکوں سے نکال کر پاکستانی بینکوں میں جمع کرارہاہوں ۔ اس فیصلے سے میں دعوے سے کہتاہوں آپ کی مقبولیت میں چارنہیں سوچاند لگ جائیں گے اس کے بعد آپ دیکھئے پاکستانی جوبیرون ملک رہتے ہیں کس طرح پاکستانی بینکوں کو بھردیں گے ۔ کیونکہ ان کو اس بات کا احساس بھی ہوگا کہ پاکستان میں آنے کے بعد ان کا سرمایہ ڈوبے گا نہیں اورپھر ہم بڑی حدتک معاشی بدحالی سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔ صدرمملکت کا فرمان ہے کہ آئی ایم ایف بھکاریوں کا کشکول نہیں ہے! بڑی معذرت کے ساتھ عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ آئی ایم ایف ہی وہ کشکول ہے جس نے بھیک مانگنے کی ہمیں انتہائی بری عادت ڈال دی ہے۔ آج معاشی طورپر ہم دنیا کے جس مقام پر کھڑے ہیں اس تک لانے میں سب سے بڑا کردار آئی ایم ایف کا ہے۔ جس کو کوئی پاکستانی فراموش بھی کرنا بھی چاہے تو نہ کرسکے گا۔ آئی ایم ایف کی بھیک نے ہی تو مملکت خداداد کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں۔ جب تک اس منحوس ادارے سے پاکستان کی جان نہ چھڑائی جائے گی۔ ہماری بدحالی کا خاتمہ نہ ہوسکے گا۔ لہذا جس قدرجلد ممکن ہو اس ادارے کے چنگل سے من حیث القوم ہمیں نکلنے کی کوششوں کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ تاکہ ہم اپنی آزاد معاشی پالیسیاں بنانے کے اہل ہوسکیں۔ مغرب کے مفادات کی بجائے ہمیں اپنے مفادات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صدرمملکت نے یہ بھی فرمایاہے کہ معیشت کی خرابی میں سابقہ حکومت کا عمل دخل ہے۔ شکرہے سابقہ حکومت کی کوئی تو برائی آپ کو نظر آئی ۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ سابقہ حکومت معاشی خرابیوں کی ذمہ دارہے۔ مگر آپ نے اور آپ کی حکومت نے کون سی پالیسی سابقہ حکومت کی ترک کی ہے۔؟ اگروہ پالیسیاں غلط تھیں اور واقعی غلط تھیں تو آپ نے ان کی پالیسیوں کو اور ان کے پروردہ لوگوں کو کیوں گلے لگایاہواہے۔؟ آپ کے اس فرمان سے بھی سوفیصد اتفاق ہے کہ ٹینک کمانڈر چیف ایگزیکٹو بنیں گے تو معاملات خراب ہوں گے ....! صدرمملکت سے پاکستان کے سولہ کروڑ عوام سوال کرتے ہیں کہ آپ نے اب تک ٹینک کمانڈر اور اس کے ہوتے سوتوں کو کیوں حفاظتی حصار میں لیاہواہے ؟۔ مالیاتی بحران کی وجہ سے ایک جانب حکومت مخمصے کاشکارہے تو دوسری طرف فرینڈز آف پاکستان کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔ ان کی جانب سے ابھی تک کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیاہے۔ ہماری خالی جھولی میں کوئی قرض کے چندٹکڑے ڈالنے کو ہمارے رہنماﺅں کی وجہ سے تیارنہیں ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ تمہارے پاس کل جوکچھ تھا اس کا استعمال تم نے صحیح طریقوں پرنہ کرکے ہمارے اعتمادکوٹھیس پہنچائی تھی۔ اب کس منہ سے پھرجھولی پسارے چلے آئے ہو؟ اس بات سے کون انکارکرسکتاہے کہ ہمیشہ سے ہی پاکستان کی معیشت اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment