Sunday, August 8, 2010

ساڑھے سات کھرب ڈالرز کا مقروض امریکا!

ساڑھے سات کھرب ڈالرز کا مقروض امریکا!

امریکا کے ایک اہم ادارہ راسموس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے اس سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقتصادی بحران کا شکار امریکی قوم اور سرمایہ دارانہ نظام کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کے ساتھ ”سوشلزم“ جس کو کچھ عرصہ قبل امریکا میں ممنوعہ لفظ سمجھا جاتا تھا کا استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقتصادی بحران کے بعد سرمایہ داری نظام کو سوشلزم سے بہتر سمجھنے والے امریکی شہریوں کی شرح 50 فیصد سے کچھ ہی زائد رہ گئی ہے۔40 سال سے زیادہ عمر کے امریکی شہریوں کی اکثریت نے جو 52 فیصد افراد پر مشتمل ہے‘ کساد بازاری سے پاک سرمایہ دارانہ نظام کو سوشلزم سے بہتر قرار دیا تاہم اس سے کچھ کم عمر کے شہریوں کی بڑی تعداد نے سوشلزم کو بہتر نظام قرار دیا۔27 فیصد نے کہا کہ وہ نہیں جانتے سرمایہ دارانہ نظام بہتر ہے یا سوشلسٹ معیشت۔ سروے کے مطابق امریکا میں ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 32 فیصد افراد سوشلزم کے حامی ہیں۔ ادھر امریکا کی کمیونسٹ پارٹی نے عالمی اقتصادی بحران اور کساد بازاری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکسسٹ لینن ازم کا دور پھر آگیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا کی کیمونسٹ پارٹی کی اعلیٰ عہدہ دار لابیر وڈیلا پیانا نے بتایا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے اور اب دنیا کو محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا وقت دوبارہ آپہنچا ہے اس وقت دنیا بھر کے عوام ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کمیونسٹ پہلی بار دفاعی پوزیشن سے باہر آگئے ہیں ہم اپنی دنیا تخلیق کرنا چاہتے ہیں یہ ایسی دنیا ہوگی جو چند افراد کے فائدے اور خوشی کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات کے لیے آسودگی اور راحتیں لے کر آئے گی انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کے اہم مسائل مثلاً امن ‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار ہیں اور ہم یہ سب فراہم کرسکتے ہیں۔ میرے ہمسایہ ملک جرمنی میں ایک معروف پبلشر کا ایک مضمون اخبار میں شائع ہوا ہے۔جس میں یہ جرمن پبلشر یوران (جوران) لکھتا ہے کہ اگر یہ فیشن نہیں ہے تو پھر حقیقت ہے کہ ان دنوں کارل مارکس کی کتابوں کی فروخت بہت بڑھ گئی ہے‘ میرے اپنے ادارے میں مارکس کی کتابوں کی فروخت میں 1995 ءمیں ہی اضافہ شروع ہوگیا تھا لیکن آج صورتحال اس سے کئی گنا مثبت ہے۔ یوران کا کہنا ہے کہ کارل مارکس کی مشہور عالم کتاب داس کیپٹال جو پہلی بار 1867ءمیں شائع ہوئی تھی۔2005 ءمیں ہمارے ادارے نے اس کی 900 کاپیاں فروخت کیں بعد ازاں 2006 ءمیں تعداد بڑھ کر گیارہ سو ہوگئی پھر 2007 ءمیں 1400 ہوگئی جبکہ 2008 ءمیں 21 ہزار کی تعداد میں فروخت کی گئی اور اب 2009 ءکی پہلی سہ ماہی میں 15 سو کاپیاں فروخت کرچکا ہوں۔ یوران نے یہ بھی کہاہے کہ اگر اشاعت کی تعداد کو دیکھا جائے تو یہ کوئی اتنی بڑی تعداد نہیں ہے لیکن لوگوں کی دلچسپی دیکھی جائے تو یہ تعداد خوش کن ہے۔ مجھے یہ بات شدت سے محسوس ہورہی ہے کہ لوگوں میں مارکس کو پڑھنے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے اور اگر دنیا بالخصوص امریکا کا اقتصادی بحران یونہی اپنے پر پھیلاتا رہا تو سرمایہ دارانہ نظام ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جائے گا۔ جرمن پبلشر کی بات کو امریکا کے نائب صدر جوزف بائیڈن نے دوسرے رنگ میں بیان کیا ہے‘ انہوں نے کہا کہ ہے کہ امریکا کی ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے سات کھرب ڈالر درکار ہیں‘ ملکی معیشت اندازوں سے زیادہ دگرگوں ہے ۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جوزف بائیڈن نے کہا کہ وہ اقتصادی ماہرین کی رائے سے متفق ہیں کہ ملکی معیشت بے حد خراب ہے اور اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے فوری طور پر سات کھرب ڈالر کی ضرورت ہے تاہم معیشت کو مکمل ڈوبنے سے بچانے اور نیا بیل آوٹ پیکیج لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ بات دنیا پر واضح ہوگئی ہے کہ امریکی سرمایہ دارانہ پالیسیوں نے امریکا میں معاشی عدم استحکام اور معاشی عدم توازن کو جنم دیا ہے جس کے سبب فوجی اور سیاسی سطح پر بالادستی حاصل کرنے کے بعد یہ ملک پسماندگی اور تباہی کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے ہا ہے۔ امریکا میں عدم توازن کی پالیسی یہ ہے کہ ایک ڈچ رپورٹ کے مطابق 2001 ءکے آخر تک امریکا کی کل دس فیصد آبادی پورے ملک کی 71 فیصد دولت کی مالک تھی اور باقی 90 فیصد کے پاس صرف 30 فیصد دولت تھی۔ ان 10 فیصد میں صرف ایک فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کل امریکی دولت کا 38 فیصد ہے اور جن 90 فیصد کے پاس 30 فیصد دولت ہے ان میں 40 فیصد ایسے ہیں جن کے پاس امریکی دولت کا ایک فیصد بھی نہیں ہے یعنی یہ لوگ انتہائی غربت و کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی نصف آبادی معاشی اعتبار سے بے حد پسماندہ ہوچکی ہے۔ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ امریکا میں اقتصادی بحران کا آغاز بیسویں صدی کے آخری برسوں میں شروع ہوگیا تھا پھر اس کے اثرات کافی حد تک 2005ءاور 2006 ءمیں سامنے بھی آگئے تھے جبکہ 2007-08ءمیں اقتصادی بحران کا یہ جن پورے طور پر سامنے آکھڑا ہوا لیکن صدر جارج بش نے اپنے باپ جارج بش سینئر کے جارحانہ مشن کو آگے بڑھانے کے لیے امریکا کی طاقت کا بے جا استعمال شروع کردیا حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب اقتصادی بحران داخلی سطح پر امریکا کا محاصرہ کررہا تھا۔ جارج واکر بش کا 8 سالہ دور خارجی معاملات میں دلچسپی لینے کا تھا ہی نہیں بلکہ داخلی مسائل کو حل کے لیے انتھک کوشش کرنے کا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا‘ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص یا کوئی معاشرہ یا کوئی ملک غلط راستے پر چل پڑتا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑتا تو وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ ہو نہ ہو وہ صحیح راستے پر ہے حالانکہ وہ غلط راستے پر ہوتا ہے لوگ اس کا ہاتھ اس لیے نہیں پکڑتے کہ وہ اسے پوری طرح تباہ و برباد دیکھنا چاہتے ہیں یاد رہے کہ یہاں معاشرے سے مراد ہر معاشرہ اور ملک سے مراد ہر ملک ہے۔

No comments:

Post a Comment