بلیک واٹر پاکستان میں کیا کر رہی ہے؟ ذرائع کے مطابق بلیک واٹر پاکستان میں آچکی ہے اور اب تو یہ ثابت بھی ہو چکا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی حوالے سے چند اہم سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارا مقصد خاص طور پر یہ معلوم کرنا تھا کہ بلیک واٹر درحقیقت کیسی تنظیم ہے؟ اس کا بانی کون ہے؟ اور وہ کس قسم کی سوچ یا نظریہ کا مالک ہے؟ اس تنظیم کا ہیڈ آفس کس جگہ ہے؟ اس کا طریقہ واردات کیا ہے؟ بلیک واٹر کے لیے کام کرنے والے لوگ کہاں سے آتے ہیں؟ بلیک واٹر اپنے اہلکاروں کو کتنا معاوضہ ادا کرتی ہے؟ ان کے پاس کس قسم کے ہتھیار اور جنگی آلات ہیں؟ ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ کیا واقعی بلیک واٹر پاکستان آچکی ہے اور اگر آچکی ہے تو پاکستان میں ان کا ہیڈ آفس کہاں پر ہے؟ پاکستان میں بلیک واٹر کے اہلکار کس کس جگہ پر موجود ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ پاکستان میں ان قاتل اسکوارڈز کی کمانڈ کون کر رہا ہے؟ ان سوالات کی تلاش میں کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں اور بھی بہت سے انکشافات ہوئے۔ آئیے دیکھتے ہیں ہمیں اپنے مقصد میں کس قدر کامیابی حاصل ہوئی؟ بلیک واٹر.... قوائد وضوابط سے بالاتر: بلیک واٹردنیا کی بدنام ترین تنظیم ہے جس نے اپنے آپ کو پرائیویٹ سکیورٹی تنظیم کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ دنیا بھر میں بے شمار پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیاں ہیں جو مختلف لوگوں اور اداروں کو سکیورٹی گارڈز مہیا کرتی ہیں۔ یہ تمام سکیورٹی کمپنیاں کچھ مخصوص قوائدو ضوابط کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہوتی ہیں جبکہ بلیک واٹر ایک ایسی پرائیویٹ سکیورٹی تنظیم ہے جو اپنے آپ کو ان تمام قوائدو ضوابط سے بالاترسمجھتی ہے جو سرکاری تنظیموں پر مسلط ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بھی چند مخصوص افراد کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ چند مخصوص افرادایسے ہیں جو سی آئی اے کے سربراہ سے جواب طلب کر سکتے ہیں کہ پیسہ کہاں آیا اور کہاں خرچ کیا؟ لیکن بلیک واٹر چونکہ اپنے آپ کو کارپوریٹ کلچر کا حصہ سمجھتی ہے اس لیے نہ تو ان پیسوں کا حساب دینے کی خود کو محتاج سمجھتی ہے اور نہ ہی اپنی خفیہ سرگرمیوں کی رپورٹ کسی بھی فردیا ادارے کو دینا لازم سمجھتی ہے۔ اس حوالے سے بلیک واٹر کا خیال ہے کہ چونکہ ہم اپنے کام پیسے لے کر کسی آدمی کی سکیورٹی کے لیے کرتے ہیں لہٰذا ہم کسی کی بھی رسائی کسی بھی قسم کی معلومات تک نہیں ہونے دیں گے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بلیک واٹر اپنے آپ کو کسی بھی قسم کے قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ اس کے خیال میں دنیا میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ بلیک واٹر سے جواب طلب کر سکے۔ اس تنظیم میں کرائے کے بے شمارقاتل موجود ہیں جبکہ جرائم پیشہ خطرناک مجرموں کو بھی بلیک واٹر پناہ دیتی ہے اور بھاری معاوضے پر ان سے کام لیتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خطرناک قاتلوں پر مشتمل اس تنظیم کو امریکی سر پرستی حاصل ہے۔ جی ہاں! اس تنظیم کو اسی امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے جو پوری دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے کے مشن پر ہے۔ اکثر جگہ امریکی فوجیوں کے روپ میں بلیک واٹر کے درندہ صفت غنڈے کا رروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ عراق پر حملے کے دوران بھی امریکہ نے بلیک واٹر سے ٹھیکہ کیا تھا اس کے بعد اس کے اہلکاروں کی درندگی، ریپ، بچوں پر جنسی تشدد اور انتہائی سفاک انداز میں قتل کرنے کی خبریں دنیا بھر میں پھیل گئیں لیکن بظاہر بلیک واٹر کو اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ بدنام زمانہ بلیک واٹر کا بانی کون؟: بلیک واٹر کے بارے میں جاننے کے بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اس کا بانی کون ہے اور یہ شخص کس قسم کی ذہنیت کا مالک ہے؟ اس حوالے سے چالیس سالہ ایرک پرنس کا نام سامنے آتا ہے جس نے تقریباً 28سال کی عمر میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی جبکہ اندازاً 21سال کی عمرمیں ہی اس نے اس تنظیم کے قیام کا منصوبہ بنا کر کام کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ شخص اپنے آپ کو ایک ایسا صلیبی جنگجو سمجھتا ہے جسے دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ اسے موت کے سوداگر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ طور پر عدالت میں ایک حلفیہ بیان بھی جمع کروایا گیا ۔ یہ بیان بلیک واٹر کے ہی دو سابق اہلکاروں نے دیا لیکن جان سے ہاتھ دھونے کے خوف کی وجہ سے انہوں نے اپنی شناخت کروانے سے منع کر دیا ۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ”ایرک پرنس اپنے آپ کو ایک ایسا صلیبی جنگجو تصور کرتا ہے جسے دنیا سے مسلمانوں اور اسلام کو مٹانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے“۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلیک واٹر کے بانی ”ایرک پرنس“ کواپنے ”کارناموں “ کی وجہ سے بے شمار مقدمات کاسامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف اس کی تنظیم بلیک واٹر کا عراق میں ٹریک ریکارڈ انتہائی کراہت آمیزرہا۔ امریکہ میں ہی بلیک واٹر کو الیگنزینڈریا کی ڈسٹرک کو رٹ میں بھی ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس مقدمے کے اہمیت یہ تھی کہ اس کے فیصلے کے بعد ہی یہ طے ہونا تھا کہ کیا بش عہد کے اس تاریک باب کا خاتمہ ہو گیا یا نہیں،جو امریکی انتظامیہ اور بلیک واٹر نامی اسی نجی کمپنی کے تعلق سے شروع ہوا۔ انہی دنوں ایک جرمن میگزین ”اسپیگل آن لائن“ نے لکھا کہ بلیک واٹر کے کچھ سابق ملازمین بھی کمپنی کی خفیہ سر گرمیوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ 16ستمبر2007ءکو ہونے والے صرف ایک واقعہ میں عورتوں اور بچوں سمیت17افراد کو بغداد کے ”نیسور اسکوائر“ میں بلیک واٹر کے لیے کام کرنے والے قاتلوں نے شہید کر ڈالا تھا۔ اس حوالے سے ’سنوزن بروک“ کی جانب سے کمپنی کے بانی ”ایرک پرنس“ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ۔اور اس مقدمے کی درخواست میں سوزن بروک نے ایرک پرنس کو ”جدید دور کا موت کا سوداگر“ قرار دیا۔ عدالت کو دی گئی درخواست میں سوزن بروک نے الزام عائد کیا ہے کہ چالیس سالہ ایرک پرنس نے لاقانونیت اور عدم احتساب کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلیک واٹر میں مہلک طاقت کا اضافی اور غیر ضروری استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے اقدام میں سوزن بروک اسے جنگی مجرم قرار دیتی ہیں ۔یہ مقدمہ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ برائے ایسٹرن ڈسٹرکٹ آف ورجینیاالیگنرینڈرا میں دائر کیاگیا۔ سوزن بروک نے یہ بھی کہا کہ وہ ایرک پرنس کے خلاف چالیس عینی شاہدین بیان دینے کے لیے بلوائیں گی اور قتل کے ان عینی شاہدین کو بغداد سے بلوایا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بلیک واٹر کے اہلکاروں کو بچوں اور عورتوں پرگولیاں چلاتے اور قتل کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یاد رہے کہ ایرک پرنس پر مقدمہ دائر کرنے والی یہ وہی سوزن بروک ہیں جنہوں نے ابو غریب کے قیدیوں کا معاملہ اٹھا کر دنیا بھر میں نام کمایا تھا۔لےکن اس مرتبہ بلےک واٹر کے خلاف انہیں ناکامی کا سامنا ہوا۔ بلیک واٹر کا ہیڈ آفس جہاں ان کرائے کے قاتلوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے: بلیک واٹر اور اس کے بانی کی اصلیت جاننے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس قدر منظم تنظیم کو کس جگہ بیٹھ کر کنٹرول کیا جارہا ہے اور اس کے اہلکاروں کو کس ملک اور کس جگہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو یہ بات سامنے آگئی کہ بلیک واٹر کا ہیڈآفس جہاں بیٹھ کر اسے کنٹرول کیا جارہا ہے، امریکہ کے بیچوں بیچ ایک سر سبز جگہ پر واقع ہے یہ جگہ امریکہ کی ریاست ورجینیا اور نارتھ کیرولینا کے بارڈر پرواقع ہے بلیک واٹر کا یہ مرکز 7ہزار ایکڑ یعنی28 مربع کلومیٹر کے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں پر گہرے سبز رنگ کے خودرو پودے موسموں کے اثرات کی وجہ سے زمین پر بچھے رہتے ہیں اور اردگرد کا سیلابی پانی اسے نیم دلدلی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ کہیں کہیں گہرائی زیادہ ہو تو پانی کی وجہ سے چھوٹی سی جھیل بھی بن جاتی ہے ورنہ یہ سارا علاقہ پاﺅں تلے روندی ہوئی لمبی لمبی گھاس اور جھاڑیوں کا منظر پیش کرتا ہے جو کہ تھوڑے تھوڑے سطحی پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگی اور خاص طور پر گوریلا مشقوں کے لیے یہ ایک آئیڈیل جگہ ہے۔ یہاں کی گھاس پانی کی زیادتی کی وجہ سے گل سڑ کر گہرے رنگ کی ہو چکی ہے اور پانی کی سطح پر ہونے اور ڈوبے رہنے کی وجہ سے پانی بھی اسی رنگ کا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے سارے علاقے کو کالا پانی یا بلیک واٹر کہا جاتا ہے۔ چھ ہزار ایکڑ پر مشتمل یہ غیر آباد زمین ایرک پرنس نے 1990ءمیں خریدی تھی۔ اس کے بعد اس وسیع و عریض علاقے کے اردگرد کانٹے دار لوہے کی باڑ لگوا دی اور سات سال تک اس میں اپنی مرضی اور ضرورت کے تحت تبدیلیاں کی گئیں۔ سات سال بعد ایرک پرنس نے یہاں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ”بلیک واٹر ورلڈ وائڈ“ رکھا گیا ان سات سالوں میں اس کا رقبہ سات ہزار ایکڑ ہو چکا تھا۔ 28مربع کلو میٹر پر مشتمل اس جگہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور کا اندرون شہر دو مربع کلو میٹر پر واقع ہے یعنی ایسے 14شہروں کے برابر یہ جگہ صرف ایک شخص یعنی ایرک پرنس نے خریدلی اور یہاں دنیا کی سب سے بڑی سکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر ورلڈ وائڈ کا ٹریننگ سنٹر قائم کیا گیا۔ یہ ٹریننگ سنٹر اتنا بڑا ہے کہ سیٹلائیٹ کے ذریعے گوگل ارتھ پر جا کر (76o12W36o27N)پر اسے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نومبر2006ءمیں اس تنظیم نے شگاگو کے شہر ماﺅنٹ کیرول میں بھی ایرک پرنس نے 30ہیکڑ مربع اراضی خریدی تھی۔ جہاں اس تنظیم کا شمالی تنظیمی ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے۔ بلیک واٹر سالانہ چالیس ہزار افراد کو ٹریننگ دیتی ہے: موجودہ صورتِ حال جاننے کے بعد ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بلیک واٹر کس قدر طاقتور تنظیم ہے؟ اور اس قدر وسیع رقبے پر یہ کتنے افراد کو ٹریننگ دے رہی ہے اور ان کو کتنی تنخواہ دیتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس کس قسم کے جنگی آلات ہیں؟ ان سوالات کے جوابات اور بلیک واٹر کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ٹریننگ سنٹر میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار افراد کو سکیورٹی کے ہر اس کام میں ٹریننگ دی جاتی ہے جس کی مدد سے واضح اور خفیہ ہر قسم کے مقاصد پورے کیے جا سکیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان چالیس ہزار افراد کی جدید خطوط پر کی جانے والی ٹریننگ پر کتنا خرچہ آتا ہو گا؟ جبکہ بلیک واٹر کے بارے میں ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان کے ہراہلکار کی تنخواہ کسی بھی ریٹائرڈ امریکی جنرل سے بھی زیادہ ہے یعنی دوسرے الفاظ میں بلیک واٹر کم از کم چالیس ہزار افراد کو چالیس ہزار امریکی ریٹائرڈ جنرلز سے زیادہ تنخواہ دیتی ہے جبکہ لازماً ان سے پہلے ٹریننگ حاصل کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد بلیک واٹر سے منسلک ہوتی ہے جس کی تنخواہ بلیک واٹر کو ہی ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سکیورٹی ایجنسی کے اپنے ہیلی کاپٹر اور جدید ترین جنگی آلات ہیں۔ بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ سکیورٹی کی اس قدر طاقتور اور خطرناک تنظیم اس امریکہ جیسے ملک میں آزادی کے ساتھ موجود ہے اور کام کر رہی ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی، سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس اور سب سے زیادہ بجٹ رکھنے والی فوج رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کیا واقعی بلیک واٹر کے لیے کراچی سے بھرتیاں کی گئیں؟: بلیک واٹر کا شہرہ پہلی مرتبہ تب ہوا جب عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی افواج نے اسے بھرتی کا ٹھیکہ دیا اس ٹھیکے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ٹھیکہ21ملین ڈالر کا تھا اس ٹھیکے کے لیے مطلوبہ تعداد کو پور ا کرنے کے لیے بلیک واٹر نے پوری دنیا سے امریکہ لے جانے کے لیے ترغیبات اور وہاں ایک عالمی فرم میں کام کرنے کے نام پر بہترین جسمانی صحت اور فوج میں گزشتہ کیرئیر کے حوالے سے لوگوں کو بھرتی کیا۔ 2001ءمیں کراچی کے شہر میں سابقہ فوجیوں کو بھی ایک سکیورٹی ایجنسی میں وسیع پیمانے پر بھرتی کیا گیا اس سلسلے میں اشتہارات بھی دیے گئے تھے جن کے مطابق بیرون ممالک میں ہزاروں سکیورٹی گارڈز کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ ایک عام سی سکیورٹی کمپنی ہے جسے ٹھیکے پر بیرون ممالک میں سکیورٹی گارڈز کی ضرورت ہے۔ قارئین کو شاید یہ جان کر حیرت ہوکہ یہ تمام بھرتیاں بلیک واٹر کے لیے گئی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے ”ایکس مین سروسز“ میں شامل جنرل حمید گل اور جماعت اسلامی گزشتہ چند سالوں سے بلیک واٹر کی پاکستان آمد کارونا رو رہے تھے جس پر کسی نے توجہ نہ دی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذ کر ہے کہ بلیک واٹر کو دیے گئے ستر فیصد ٹھیکوں کے لیے کوئی بولی نہیں ہوئی اور انہیں براہِ راست بلیک واٹر کو سونپ دیا گیا۔ بلیک واٹر کا سب سے اہم سرمایہ ”شوٹرز“ ہیں آپ انہیں ”بے داغ قاتل“ بھی کہہ سکتے ہیں انہیں دنیا بھر سے بھرتی کیا جاتا ہے اور کمپنی میں بھی خاصی اہمیت حاصل ہے ۔ بلیک واٹر انہیں فلپائن سے لے کر لاطینی امریکہ تک کے ممالک سے بھرتی کرتی ہے اور ان کی مدد سے بہت ہی اہم نوعیت کے پراجیکٹ مکمل کرتی ہے۔ بلیک واٹر کو بعض مجبوریوں اور بدنامی کی وجہ سے 2007ءمیں اپنا نام تبدیل کرنا پڑا جبکہ کچھ عرصہ قبل اس نے ایک مرتبہ پھر اپنا نام تبدیل کرکے ”xe“ رکھ لیا ہے جبکہ بعض ذرائع کے مطابق پاکستان میں کام کرنے کے لیے یہ ایک نیا نام رکھے گی اوراسی نام کے تحت کام مکمل کیا جائے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام تبدیل کر لینے کے باوجود اس کمپنی کو بلیک واٹر کے نام سے جو شہرت اور بدنامی ملی وہ کم نہ ہو سکی اور دنیا بھر میں اسے بلیک واٹر کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ بلیک واٹر.... طریقہ واردات کیا؟: یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ بلیک واٹر کی مدد سے امریکہ کیا فائدہ حاصل کر رہا ہے اور بلیک واٹر کا طریقہ واردات کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے حصول کے لیے جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہو اکہ بلیک واٹر کے ارکان کی ایک بڑی تعداد امریکی فوج کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ یہ اہلکارامریکی فوج کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بھیس میں بھی کارروائیاں کررہے ہیں۔ اسی طرح سوات آپریشن بھی ایسے غیر ملکی طالبان کی لاشیں ملی تھیں جن کے ختنے نہیں ہوئے تھے یہ کون لوگ تھے؟ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بلیک واٹر کو استعمال کر کے امریکہ اپنی فوج اور افرادی قوت بچا رہا ہے اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کر رہا ہے ایک طرف تو مرنے والے امریکی فوج کی بجائے بلیک واٹر کے کرائے کے قاتل ہیں جبکہ دوسری طرف نیٹو افواج اور دوسرے ممالک کو یہی تاثر دیا جارہا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی فوج بھی ان کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔ اس طرح امریکہ اپنے دوست ممالک کو بھی بخوبی دھوکہ دے رہا ہے۔ بلیک واٹر کے کام کرنے کا انداز ( جسے اس کا طریقہ واردات بھی کہا جاسکتا ہے) اس طرح ہے کہ یہ تنظیم اس علاقے میں جہاں امریکی آپریشن کرنا چاہتے ہوں یاآپریشن کر رہے ہوں، وہاں این جی اوز اور رفاہی تنظیموں کے نام پر دفاتر لیتی ہے۔ پھر اپنے چند وضع قطع سے پڑھے لکھے لوگوں کو وہاں بھیجتی ہے جو اس علاقے میں رفاہی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں اس کے بعد ان این جی اوز اور رفاہی اداروں کی آڑ میں ان کے گوریلا نماکرائے کے قاتل آ جاتے ہیں اور ان این جی اوز اور رفاہی اداروں کی آڑ میں رہتے ہیں موقع ملتے ہی اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیتے۔ بلیک واٹر کے اس طریقہ واردات کو عراق کے عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ ہر روز ان کے ہاتھوں ہلاک ہوتے رہے ہیں اور وہاں کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں ان کے خریدے ہوئے این جی اوز کے کارندے ان کے لیے عراقی عوام کی جا سوسی نہ کریں یہی وجہ ہے کہ جب فلوجہ پر امریکی حملہ شدت اختیار کر گیا تو فلوجہ کے شہریوں نے کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے والے ان ٹھیکیداروں کو مار کر ان کی لاشیں دریائے فرات کے کنارے لٹکا دی تھیں کیونکہ یہ ٹھیکے دار رفاہی کاموں کے پس پردہ کرائے کے فوجیوں کو قتل کرنے کاراستہ دیتے تھے۔ فلوجہ اور نجف میں اس تنظیم کے افراد کے مظالم کی داستانیں اب منظرِ عام پر آچکی ہیں جن میں قتل، گینگ ریپ اور بچوں پر جنسی تشدد عام ہے۔ بلیک واٹر کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے امریکہ نے پاکستان سے کیا مطالبات کیے؟: قارئین! دنیا کی اس بدنام ترین سکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کے بارے میں مسلسل یہ رپورٹس موصول ہو تی رہی ہیں کہ اس کے کرائے کے قاتل پاکستان آچکے ہیں اور اب یہ کسی مخصوص اور خفیہ مشن کے تحت پاکستان میں قدم جمارہی ہے۔ اسے خصوصی طور پر امریکہ کی سر پرستی حاصل ہے۔ امریکی حکومت پاکستان میں اسے کسی خاص مقصد کے تحت لانا چاہ رہی ہے اور اس کی مدد سے کوئی بہت ہی خفیہ کام مکمل کرنا چاہتی ہے۔ بلیک واٹر کی مدد سے امریکہ پاکستان میں کیا کرنا چاہتا ہے اور اس کا گلا منصوبہ کیا ہے اس پربحث کرنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ امریکہ نے اس تنظیم کو پاکستان میں آزادانہ کارروائی کرنے اور بغیر کسی انوےسٹی گیشن اور مقدمے کے بہ حفاظت واپس امریکہ پہنچانے کے لیے کیا اقدامات کیے اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان سے کیا مطالبات کیے؟ امریکی حکومت نے2008ءکے موسم بہار کے آغاز میں ہی کچھ مطالبات کیے تھے معتبر ذرائع کے مطابق ان میں سے کچھ تو پرویز مشرف نے ہی تسلیم کر لیے تھے اور کچھ ان کے جانشینوں نے مان لیے۔ اس حوالے سے پالیسی وہی رکھی گئی جو ڈرون حملوں کی ہے یعنی بظاہر مخالفت لیکن عمل طور پر تائید کی جارہی ہے۔ امریکہ نے پاکستانی حکومت سے جو مطالبات کیے ان میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ امریکی فوج کے سبکدوش مگر جواں سال افسروں اور دوسرے تربیت یافتہ افراد کو سفارتی عملے کی مراعات کے ساتھ پاکستان آنے کی اجازت دی جائے انہیں فقط اپنی شناخت واضح کرنی ہو گی اور ان پر ویزے کے حصول کی پابندی نہ ہو گی یعنی وہ حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر آسکیں گے اور جب چاہیں واپس جا سکیں گے۔ ان میں صرف بلیک واٹرز کے ارکان ہی نہیں بلکہ عسکری مافیابھی شامل ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں ان کی تعداد تقریباً تیس ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے امریکی مسلح افواج سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان پر کسی ضابطہ اخلاق کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ لوگ سی آئی اے سے رابطے میں ہوں گے یا اس کے ماتحت ہوں گے اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ امریکی حکومت کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ ویزے کے بغیر آنے والے ان مسلح افراد کو امریکہ میں جاری کردہ لائسنس پاکستان میںبھی قابل قبول ہوں گے یعنی دوسرے الفاظ میں اگر امریکہ انہیں جنگی جہاز، توپ، ٹینک یا راکٹ لانچر سمیت جس بھی قسم کا جدید سے جدید اسلحہ رکھنے اور چلانے کا لائسنس دیتا ہے تو حکومت پاکستان انہیں یہ سب رکھنے سے منع نہیں کر سکے گی۔ اسی مطالبے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ یہ افراد سرِعام یہ اسلحہ لے کر گھوم پھر سکیں گے اور باقاعدہ اپنی یورنیفارم پہن کر جہاں چاہے اسلحہ سمیت جا سکیں گے۔ ان کی یہ یونیفارم امریکی فوج سے ہٹ کر ہے۔ امریکی حکومت کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ ان افراد کے کسی بھی جرم کے ارتکاب پر ان پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہو گا بلکہ ان پر صرف امریکی قانون لاگوہوں گے یعنی ان مطالبات کی رُوسے کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ افراد سر عام شراب پی کر گھوم رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں خطرناک اسلحہ بھی ہے تو شاید یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے اور انہیں پاکستانی حکومت اس اقدام سے منع نہیں کرے گی اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اگر یہ کوئی خطرناک قدم بھی اٹھاتے ہیں تو یہ بھی کوئی جرم تصور نہیں ہو گا کیونکہ یہ لوگ پاکستانی قانون سے مستثنیٰ ہوں گے اور اسی طرح یہ جو بھی جرم کریں گے وہ امریکی قانون کی نظر سے ہی دیکھا جائے گا اور اگر کسی مقدمے کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی پاکستان کی عدالت میں دائر نہیں ہو سکے گا۔ اسی طرح ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ بلیک واٹر جسے اب ”زی“ کہا جاتا ہے ، اس کی مدد کرنے والی دوسری تنظیمیں کوئی بھی چیز درآمدیا برآمد کر سکیں گی اور ان سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا(یاد رہے کہ برطانیہ بھی برصغیر پاک و ہندو پر اسی لیے قدم جمانے اور بعد میں قبضہ کرنے میں کامیاب ہو اتھا کہ بادشاہِ وقت نے ایک انگریز ڈاکٹر سے خوش ہو کر اس کے کہنے پر اس کی قوم( برطانیہ) کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا) مطالبات کی اس لسٹ میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ یہ تنظیمیں اور امریکی حکومت کی سرپرستی میں آنے والے اہلکار اپنے ساتھ گاڑیاں، جہاز اور ہتھیار لاسکیں گے اور پاکستان میں ان سے کسی قسم کی پارکنگ فیس وصول نہیں کی جائے گی دوسرے الفاظ میں اگر صرف بیس اہلکار بیس جنگی جہاز یا بکتر بندگاڑیاں لے آئیں تو پاکستان انہیں رکھنے کے لیے اڈے دینے کا پابند ہو گا اور اس ضمن میں ان سے کسی قسم کی فیس لینے کا بھی مجاز نہیں ہو گا یعنی یہ تمام سہولتیں ان امریکیوں کے لیے مفت ہوں گی۔ امریکی حکومت کے مطالبات کی اس طویل لسٹ میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ یہ لوگ( امریکی اہلکار، اور بلیک واٹر) پاکستان میں ٹیلیفون اور مواصلات کے دوسرے نظام قائم کر سکیں گے۔ امریکی حکومت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بلیک واٹر اور اس جیسی دوسری تنظیموں اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب کروانے کے لیے کس حد تک چلی گئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ان مطالبات کی ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر ان لوگوں (بلیک واٹر اور پرائیویٹ امریکی اہلکار) کی سرگرمیوں کے نتیجے میں کوئی حادثہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں کسی جائیداد یا زندگی کو نقصان پہنچاتو مقدمہ چلانا تو دور کی بات ،کسی قسم کے معاوضے کیا مطالبہ بھی نہیں کا جائے گا۔ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مطالبات کا مقصد کیا تھا اور یہ فقط مطالبات ہی تھے یا پھر باقاعدہ حکم تھا! کیا حکومت نے امریکہ کے گھٹیا مطالبات مان لیے؟: امریکی حکومت کے ان شرمناک اور گھٹیا مطالبات میں سے کتنے مطالبات تسلیم کر لیے گئے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے البتہ بعض ذرائع کے مطابق ان پر نوے فیصد عمل ہو چکا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس سے قدرے کم مطالبات پر عمل کیا گیا ہے ۔لیکن اگر ان کی روشنی میں ڈرون حملوں پر نظر ڈالیں تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس حد تک یہ مطالبات تسلیم کیے جا چکے ہیں۔ ڈرون جہاز، ان کے پائلٹ غیر ملکی ہیں اور ان حملوں کے نتیجے میں جو نقصان ہوا یا ہو رہا ہے اس پر کسی قسم کا معاوضہ، ہر جانہ یا مقدمہ کرنے کی بھی تاحال کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اسی طرح غیر ملکیوں کی نقل و حرکت اور مشکوک سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ اسی حوالے سے 24اگست2009ءکو دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر شیریں مزاری نے انکشاف کیا کہ ”بلیک واٹر“ چارٹر فلائٹس پر آتے ہیں اور انہیں پاکستانی حکومت نے ہائر کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے نیٹو کو آفس بنانے کی اجازت دے دی ہے اور تربیلا کے قریب بیس بھی کھلے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ تربیلا میں تربیت دینے کے لیے تین سو امریکی آچکے ہیں۔ ویت نام میں بھی پہلے ٹرینیز آئے تھے اور پھر فوج آئی تھی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک اور انکشاف یہ کیا کہ امریکی صحافی نکولس شمیڈل جو بظاہر ریسرچ کی غرض سے یہاں آیا تھا، کچھ ایسی جگہوں پر جارہا تھا جہاں اس کی ریسرچ کا کام نہیں تھا لہٰذا اسے یہاں سے نکال دیا گیا لیکن امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اسے دوبارہ پاکستان کا ویزہ دے دیا۔ اسی طرح ستمبر 2009کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ جمعہ کی دوپہر دو بجے اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی روک لیے گئے۔ جنہوں نے پاکستانی اہلکاروں کو اپنی شناخت کروانے سے انکار کر دیا اور امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی امریکی سفارت خانے سے تعلق رکھنے والے دو فوجی افسروہاں پہنچ گئے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ وہ نچلے درجے کے سبکدوش فوجی افسر تھے۔ امریکی چھوڑ دیے گئے اور پاکستانیوں کو تھانے بھیج دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ امریکی بلیک واٹر کے ان ملازمین میں سے تھے جو400سے500ڈالر روزانہ پر امریکیوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔بعد مےں اےسے مناظر اس قدر تواتر سے نظر آنے لگے کہ پاکستانی عوام کو ان کی عادت سی ہو گئی اور ےوں لگنے لگا جےسے ےہ معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کے ٹھکانے کس کس جگہ ہیں؟: امریکیوں اور غیری ملکیوں کی پاکستان میں اس قسم کی نقل و حرکت منظر عام پر آنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ بلیک واٹر یا دوسری پرائیویٹ یا خفیہ امریکی تنظیمیں کس جگہ پر ہیں اور پاکستان میں ان کا ٹھکانہ کہاں ہے کہ یہ ایک مشکل اور خطرناک سوال تھا ۔جب تحقیقات کا رخ اس سمت موڑا گیا تو انکشاف ہوا کہ بلیک واٹر کے اہلکار پشاور میںسرعام جدید اور خطرناک اسلحہ اٹھائے گھومتے نظر آتے ہیں۔ مزید تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ان کا دفتر پشاور کے علاقے حیات آباد میں تھا پھر پرل کانیٹنیٹل ہوٹل کی تیسری اور چوتھی منزل پر بھی انہوں نے اپنا دفتر بنا لیا۔ پی سی ہوٹل پشاور پر جب خود کش حملہ ہوا تو انہیں وہاں سے باحفاظت نکال لیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں بلیک واٹر کے دو اہلکار بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ےہ اطلاع بھی ملی کہ کے امریکہ نے پشاور کاپی سی ہوٹل خرید لیا ہے دفاعی نقطہ نظر سے اس ہوٹل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس کے قریب ہی کور کمانڈر ہاﺅس ہے۔ پشاور میں ہی ایک اور امریکی کمپنی ”کری ایٹوایسوسی ایٹس انٹرنیشنل ان کار پورٹیڈ“ بھی کام کر رہی ہے اس کمپنی کے مطابق یہ ایک عام سی این او ہے جو رفاہی کام کر رہی ہے لیکن اس جھوٹ کا پول کھولنے کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس کے کارکن اور اہلکاروں کے استعمال میں جو گاڑیاں ہیں ان پر سفارتی نمبر پلٹیں لگی ہوئی ہیں اگر یہ واقعی عام سی این جی او ہے تو اس کے کارکن اور اہلکار سفارتی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں کیوں گھوم رہے ہیں؟ اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ سی آئی اے کی فرنٹ کمپنی ہے۔ یہ تنظیم Creative Assrciates International Inc یعنیCAIIاپنی ویب سائٹس پر بھی خود کو این جی او قرار دیتی ہے لیکن مزید تحقیق کرنے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تنظیم واشنگٹن ڈی سی میں ایک پرائیویٹ انکار پورٹیڈ کمپنی کی حیثیت سے رجسٹر ہے اور اس کی رجسٹریشن این جی او کی حیثیت سے نہیں ہے۔ CAIIنے یونیورسٹی ٹاﺅن پشاور میں بھی خوف وہراس پھیلا رکھا ہے۔ یہاں یہ لوگ خود کو امریکی سکیورٹی گارڈ قرار دیتے ہیں ان کی سب سے مشکوک بات یہ ہے کہ ان کی ویب سائٹ ان کے مالکان کی کوئی شناخت ظاہر نہیں کرتی لیکن عملے کی شناخت جاری کر رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کے مکمل فنڈ یو ایس ایڈ اور امریکی حکومت برداشت کر رہی ہے۔ اس کے تمام پراجیکٹ بھی سری لنکا، غزہ، انگولا، عراق، افغانستان اور پاکستان کے حساس علاقوں میں ہی ہیں یہ فاٹا میںبھی ایک ناقابل یقین پروجیکٹ کی آڑ میں بھی کام کر رہی ہے جس کو اس نے ”فاٹا ڈیویلپمنٹ پروگرام گورنمنٹ ٹوکمیونٹی“ کا نام دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عملہ قاتل بلیک واٹر گارڈز کے محاصرے میں گھومتا ہے اور فاٹا، پشاور اور اس کے گردو نواح میں جنگجوﺅں اور دیگر مشکوک افراد سے ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹس پر پوری دنیا میں اپنے 30کاموں کو ظاہر کیا ہے جن میں سے نصف پاکستان میں انجام دیے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بلیک واٹر کے خطرناک ترین کرائے کے ان قاتلوں میں سے 18ارکان پشاور جبکہ80کے قریب تربیلا میں آئے۔ ایسے قاتل اسکواڈز کا مرکزی کردار اور سربراہ امریکہ کی طرف سے افغانستان میں متعین کیے جانے والا کمانڈر جنرل میک کرسٹل بتاےا جاتا ہے جسے 2010 میں تبدیل کر دیا گیا کیوں کے وہ افغانستان میں ہونے والی نام نہاد امریکی جنگ سے بددل ہو چکا تھا اوراپنے انٹرویوز میں امریکی صدر اوبامہ اور دوسرے عہدے داروں کا مذاق اڑانے لگ گیا تھا۔ دوسری طرف امریکی میرینز کی موجودگی کو بھی اسلام آباد تک محدود نہیں رکھا گیاانہیں بھی تربیلا کے اردگرد دیکھا گیا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں ہماری پاک فوج کی اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس واقع ہے اس علاقے میں پہلے بھی300سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں جن کو نام نہاد ”ٹرینرز“ کہا جارہا ہے جبکہ سابق نگران وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل حامد نواز نے بتایا ہے کہ پاکستان میں امریکی ٹرینرز کی کوئی ضرورت نہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی مشن نہیں دیا گیا جس کے لیے امریکیوں کی ٹریننگ کی ضرورت ہوا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ سیکرٹری دفاع تھے تو ان کے وفد کے فوجی افسران کو اس لیے ویزہ نہیں دیا گیا کہ ان کے نام القاعدہ کے اراکین سے ملتے تھے اسی طرح سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر کا بھی یہی کہنا ہے کہ امریکی بغیر ویزے کے پاکستان آرہے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد، جس پر امریکہ اور بلیک واٹر کی خاص نظر ہے، میں بھی انہوں نے گھر حاصل کیے،اس سلسلے میں امرےکہ نے پاکستان کے نیو کلئےر پروگرام کے خالق و ایٹمی سائنسدان ڈاکڑ عبدالقدےر خان کی رہا ئش گاہ کے قرےب اسلام آباد کے سیکٹر ای سیو ن میں بھی دو گھر حاصل کیے ۔اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کے ہی سیکٹر ایف سکس ، جی سکس ، ای سےون ، ایف سےون ،ا ےف اےٹ ، اےف ٹےن ، اےف الیون اور آئی اےٹ میں بھی مجموعی طور پر200گھر کرائے پر حاصل کیے ۔ےاد رہے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدےر خان بھی ای سیون میں ہل سائیڈ روڈ پر ہاﺅس نمبر 206 میں رہائش پذےر ہیں امرےکہ نے خفےہ طور پر جو گھر حاصل کیے ان میںسے 2گھر ای سےون میں ،37گھر اےف سکس میں ، 40گھر جی سکس میں،41 گھر ایف سیون میں ،26 گھر اےف اےٹ میں ، 20اےف ٹےن میں ،25 اےف الیون میں جبکہ 9گھر آئی اےٹ میں ہیں۔ ابتدائی طور پر اےف سکس اور جی سکس کے گھروں کو مکمل طور پر امرےکہ نے اپنی نگرانی میں رکھا جبکہ دےگر گھر مختلف این جی اوز اور ذےلی دفاتر و رہائش کے لیے استعمال کیے گئے ۔ذرائع کے مطابق ےہ تمام گھر امریکی سفارت خانے اور امریکی اےن جی اوز کے افسران و اہلکاروں کے نام پر حاصل کیے گئے ۔ پاکستان میں امریکیوں اور غیرملکی ایجنسیوں بشمول بلیک واٹر کی یہ سرگرمیاں باعثِ تشویش ہیں۔ ان کے بارے میں مکمل معلومات رکھنا اور صورتِ حال پر قابو پا نا حکومت کا فرض ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے ایک بیان میں ےہاں تک کہا کہ پاکستان میں بلیک واٹر موجود نہیں ہے لیکن انہےں ”شاہ سے زےادہ شاہ کا وفادار “ ہونے کا ےہ صلہ ملا کہ2009 کے آخر مےں خود سی ا ٓئی اے نے یہ تسلےم کر لیا کہ بلےک واٹر پاکستان مےں کام کرتی رہی ہے۔ کیا واقعی امریکہ سرعام سفارتی سطح پر بلیک واٹر کی مدد کررہا ہے؟: موجودہ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ ہر صورت میں اپنے مخصوص اہلکاروں کو پاکستان میں پہنچانے اور کسی مخصوص مشن کی تکمیل کے بعد بحفاظت واپسی چاہتا ہے لہٰذا اب اس مقصد کے لیے اس نے مزید فوجیوں اور پرائیویٹ اہلکاروں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے سفارتی سطح پر مدد حاصل کی ہے اور فول پروف انتظامات مکمل کر لیے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اب ان لوگوں کو سفارتی عملے کے طور پر پاکستان لایا جارہا ہے۔ ڈپلومیٹک لیول پر کسی بھی سفارت خانے میں 750افراد بطور اسٹاف کی اجازت ہوتی ہے مگر امرےکہ نے ےکطرفہ طور پر اسٹاف کا اضافہ کرنا شروع کر دےا جس کی رو سے400 اےلےٹ میرین یہاں قےام کرےں گے ۔اس کے علاوہ امرےکہ نے اسلام آبادمیں 18ایکٹر زمین سی ڈی اے سے اونے پونے داموں خرےدی اور اس سفارت خانے میں 250رہائشی مکانات کی تعمیرشروع کر دی۔ےعنی دوسرے الفاظ میں ےہ سفارت خانہ نہیں بلکہ فوجی چھاﺅنی کی تعمیر کہلا سکتی ہے۔جبکہ اےک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 25 ہزار جبکہ پاکستان میں 80ہزارامرےکی اتحادی فوج پہلے ہی موجود ہے۔ زےادہ تشوےش کی بات یہ ہے کہ امرےکہ نے کہوٹہ کے قریب جگہ حاصل کر لی جہاں اس کے اہلکار رہائش اختےار کرےں گے اور اپنا مشن مکمل کرنے کی کوشش کرےں گے دوسری طرف ایشیا ٹائمز آن لائن (3اگست2009) کے مطابق امرےکہ نے تربےلا میں بھی اےک بڑا پلاٹ خرےدا اور وہاں 20بڑے کنٹینر بھجوائے ۔ان کنٹےنرز میں کیا تھا اس کا علم نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹ بھی ملی کہ امرےکہ اسلام آباد میں اپنی موجودگی مےں توسیع کرنے کے لیے اےک ارب ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے۔ اس پلان کی مرکزی اور خصوصی اہمیت یہ ہے کہ 400 سے زائد میرینز اور سیکڑوں اے بی سی رکھنے کا منصوبہ بھی اسی پلان کا حصہ ہے جبکہ پہلے ہی امرےکہ کا350 کی تعداد کا منظور شدہ فوجی دستہ پاکستان میں موجود ہے۔ بلیک واٹر کا مشن کیا؟: قائین کرام !اگر اس تمام منظر نامے کا بارےک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلیک واٹر اور امرےکی تنظیموں کے تربےت ےافتہ اہلکار نہ صرف پاکستان میں آچکے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے کسی خفیہ مشن کا آغاز بھی کر دیا ہے ۔یہ خفیہ مشن کیا ہے؟ اس کا ابھی اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ تمام صورتِ حال آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ کے یہ اہلکار نہ صرف امریکی سفارت خانے کی گاڑیوں میں اسلحہ لیے گھوم رہے ہیں بلکہ ان کے محافظوں میں بلیک واٹر کے” شوٹر“ اور کرائے کے قاتل بھی شامل ہیں انہوں نے رہائش یا دفاتر کے لیے جو علاقے منتخب کیے ہیں وہ کور کمانڈر ہاﺅس ، پاک فوج کی اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس، کہوٹہ ریسرچ سنٹراوراسلام آبادمیںواقع ہیںجبکہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف6-ایف7-اور ایف8- میں بھی ان کی مشکوک نقل و حرکت نوٹ کی گئی ہے جبکہ سیکٹر ای7-میں ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا امریکہ کو جس قدر کھٹک رہا ہے اس کی روشنی میں ان بلیک واٹر اور دوسرے اہلکاروں کی نقل و حرکت اور رہائش کے مقامات کو دیکھ کر ان کے منصوبے کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”امریکہ اسلام آباد میں سفارت خانے کے نام پر میرین ہاﺅس بنا رہا ہے جہاں ایک ہزار سے زیادہ جنگجومیر ینز تعینات کیے جائیں گے۔ حکومت بلیک واٹر کو پاکستان میں سرگرمیوں کی اجازت دے کر اپنی قبر کھو د رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ناراض ہوا تو موجودہ حکمران بلیک واٹر کا سب سے پہلے نشانہ بنیں گے۔ بلیک واٹر کی پاکستان آمد اور موجودہ صورتِ حال باعث تشویش ہے۔ حکمرانوں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں۔ اﷲ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔آمین |
خود کش حملوں کے پیچھے کون ہے؟
مفتی سرفراز نعیمی کی شہادت ایک عالم کی شہادت ہے۔ کہا جاتا ہے موت العالم موت العالم… یعنی ایک عالم کی موت ایک دنیا کی موت ہے۔ دشمن ایک عرصے سے ہمیں کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔ وہ ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتا ہے اور ہم ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم کمزور نہیں بس جرات اظہار کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اگر ہم پورے قد کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور امریکہ سے کہہ دیں کہ تم دس سال سے ایک لایعنی جنگ لڑ رہے ہو اور تم نے اب نئے دشمن پیدا کر لئے ہیں تو یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ ہم تمہاری اس بے مقصد جنگ میں شریک ہو کر اب اپنا نظریاتی‘ جانی اور اقتصادی نقصان نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت ایک بڑے امریکہ مخالف عالم کی شہادت ہے‘ یہ شہادت ایک سازش کے تحت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید جہاد کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ ایک بڑا عاشق رسولؐ کس طرح جہاد کا مخالف ہو سکتا ہے کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود جہاد میں حصہ لیا تو وہ نبیؐ کی سنت کے خلاف کیسے جا سکتے تھے۔ جب 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس حملے کے خلاف سرفراز نعیمی شہید نے جامعہ نعیمیہ میں ایک بہت بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا تھا۔ مجھے بھی انہوں نے شرکت کی دعوت دی میں بھی شریک ہوا۔ میرے ان کے ساتھ بہت اچھے مراسم تھے۔ بلاشبہ خودکش حملے حرام ہیں اور اس بارے میں ان کا موقف واضح تھا لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جہادکے مخالف تھے تو یہ اس شخص کی غلط فہمی ہے۔
وہ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ متحدہ علماء کونسل کے صدر رہے۔ آج علماء پر ان کی شہادت کے بعد بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت ایک گھنائونی اور خطرناک سازش ہے کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی طرف دھکیل دیا جائے۔ صرف اس لئے کہ امریکہ افغانستان میں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اپنا کنٹرول کابل سے آگے نہیں بڑھا سکا ہے اور اس ناکامی کے بعد امریکہ افغانستان کی جنگ کو بڑی حد تک پاکستان کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ لیکن انشااللہ وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ اب نیا طریقہ کار اور نئی سازش اس نے اختیار کی ہے۔ اس کا منصوبہ یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے مدرسوں کو آپس میں لڑوا دیا جائے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ بیت اللہ محسود نے اور ان کی تحریک طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جو گزشتہ چند دنوں میں پیش آئے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ طالبان ہیں تو وہ یہ جنگ پاکستان کیوں لے آئے اور انہیں اس بات کا احساس کیوں نہیں کہ ان کا اصل دشمن کون ہے؟ جبکہ انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے۔ اور وہ اس امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے پر کاربند ہو گئے جسے امریکہ کی رینڈ کارپوریشن نے تشکیل دیا ہے۔ رینڈ کارپوریشن کی مشہور اسکالر شیرل برنارڈ Chyrl Bernard کا تعلق ایک مشہور یہودی خانوادے سے ہے۔ ان کے قریبی عزیزوں میں سوئیس برنارڈ اور اسٹیفن کوہان شامل ہیں اور اب سب سے اہم بات کہ افغانستان اور عراق میں امریکی سفیر رہنے والے افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کی بیوی ہیں۔ زلمے خلیل زاد امریکی دفتر خارجہ کے اہم عہدے دار ہیں۔ شیرل نے رینڈ کارپوریشن کے حکم پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جواب بھی رینڈ کارپوریشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس مقالے کو اگر پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھا جائے۔ تو سمجھ میں آتا ہے کہ امریکہ کی تمام خفیہ کارروائیاں اس مقالے کی روشنی میں ہو رہی ہیں۔ شیرل نے تجویز کیا تھا کہ مسلمانوں کو ماڈریٹ بنانے اور ان کے اندر سے جذبہ جہاد ختم کرنے کیلئے کون کون سے طریقے اختیار کئے جائیں۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بے اثر بنا دیا جائے اور مسلمانوں کی فرقہ وارانہ تقسیم کا نہایت گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مسلم معاشرے کی تحلیل کیلئے اس تقسیم کو (نعوذباللہ) استعمال کیا جا سکے۔ شیرل نے مسلمانوں کو چار طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے طبقے کو صوفی مسلمانوں کا طبقہ قرار دیا گیا ہے۔ (جس میں پاکستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے مسلمانوں کو شامل کیا گیا ہے اور تجویز کیا گیا ہے کہ یہ پاکستان میں بڑی تعداد میں ہیں اس لئے ان کو دیگر مسلمانوں کے خلاف کر دیا جائے اور ان سے الگ کر دیا جائے اور پھر وہ ان کے معاملات میں دلچسپی نہ لیں۔ دوسرا طبقہ وہابی اسلام کا طبقہ قرار دیا گیا ہے جس میں دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کو شامل کیا گیا ہے۔
تیسرا شیعہ طبقہ جس میں شیعہ مکتبہ فکر کے تمام مسلمانوں کو شامل کیا گیا ہے اور چوتھا طبقہ سیکولر مسلمان جو کسی بھی مسلک پر عمل نہیں کرتا بلکہ اسلام کی تعلیمات پر بھی عمل پیرا نہیں ہوتا۔ شیرل نے اس کے باوجود مسلمانوں کو دو بڑے طبقات میں تقسیم کیا… آرتھوڈوکس اور سیکولر۔ آرتھوڈوکس میں قدامت پرست اور مولوی حضرات جو پرانی روایات پر عمل پیرا ہیں اور سیکولر جن کی تعداد بہت کم ہے۔ شیرل کے مطابق یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ البتہ باقی تین مسلمان طبقات کو آپس میں لڑانے کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔
یعنی مسلمان کے آپس میں تصادم کے نتائج امریکیوں کے بھی اچھے ہوں گے۔ اس وقت پاکستان میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کئی جہتوں میں ہے۔ اور مختلف علاقوں میں ہے۔ اس کھیل میں ضروری نہیں کہ وہی عناصر شامل ہوں جو فرقہ وارانہ عصبیت رکھتے ہوں بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اگر تحقیقات کھلی آنکھ اور کھلے ذہن کے ساتھ ہوں تو اس کھیل کے اصل کھلاڑی سامنے آئیں گے۔
فرقہ واریت کو ہوا دینے کا آغاز تو پہلے سے شروع ہے لیکن بریلوی مکتبہ فکر کو چھیڑنے کا سلسلہ مولانا نعیمی کی شہادت سے نہیں شروع ہوا بلکہ اس پر امریکہ نے اوپننگ رائونڈ نشتر پارک میں امریکہ نے 2006ء میں سنی تحریک کی پوری قیادت کو ختم کو ختم کرکے کیا تھا۔ 51افراد کو شہید کیا گیا۔ اور اس کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کیلئے چوتھے طبقے سیکولر مسلمان کو استعمال کیا تھا جس کی قیادت پرویز مشرف کر رہے تھے۔ عاشقان رسولؐ کی شہادت کے لئے 12ربیع الاول کے مقدس دن کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ایک مقدس اجتماع کو نشانہ بنایا گیا۔
اس وقت جب یہ لوگ نماز مغرب کی ادائیگی میں مصروف تھے اس وقت معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن اس معاملے پر تحقیقات کو پچھلی حکومت نے بند کر دیا اور موجودہ حکومت نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر اس واقعے کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا تو پھر کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ ایسے کام کرتا۔ اور شاید مولانا سرفراز نعیمی کی شہادت کا المناک واقعہ بھی پیش نہ آتا۔ پرویز مشرف نے ملک بھر میں سیکولر قاتلوں کو، چاہے وہ ربیع الاول کے واقعہ میں ملوث ہوں یا 12مئی کے، ملک بھر میں پھرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔ شیرل نے اپنے مقالے میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کے قبائلیوں کو فوج کے ساتھ لڑوا دیا جائے اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کروا دیے جائیں۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کون غلط ہے کون صحیح۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی عناصر قبائلیوں کے اندر سرایت کر گئے ہیں اور امریکی شیطانی منصوبے نے ان کے اندر اپنے پورے قدم جما لئے ہیں اور اب ظاہر ہو چکا ہے کہ بلیک واٹر نامی امریکی تنظیم نے پاکستان میں اپنے قدم جما لئے ہیں۔ اور انہوں نے یہاں پر اپنے اسپائیڈر گروپ بھی قائم کئے ہیں اور یہ سب انہوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی موجودگی میں کیا۔ بلیک واٹر سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی کی سکیورٹی ایجنسی ہے جسے آپ اس کا گینگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی ایجنسی پاکستانی فوجیوں کو دہشت گردی کے حلاف تربیت دینے کا منصوبہ رکھتی تھی جسے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی نے مسترد کر دیا لیکن اسکے کچھ لوگ پرویز مشرف کے دور میں آ چکے تھے اور انہیں پرویز مشرف نے اپنا کام پھیلانے کی پوری آزادی دی۔
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکیوں نے اپنی اسپیشل فورسز کے یونٹ بھی پاکستان میں داخل کئے۔ اس کے علاوہ را‘ موساد اور افغانستان کی سابق کمیونسٹ انٹیلی جنس ایجنسی جس میں ابھی تک پاکستان دشمن پرانے کمیونسٹ موجود ہیں۔ انہوں نے بھی اپنا کھیل کھیلنا شروع کیا ہے۔ ان ایجنسیوں نے اپنا پہلا مضبوط نیٹ ورک کراچی میں قائم کیا اور سابقہ دور میں لاہور میں بھی یہ نیٹ ورک قائم ہوا اور مجھے نعیمی صاحب کی شہادت اسی نیٹ ورک کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ میں امریکہ کا آلہ کار بننے کا جو فیصلہ پرویز مشرف نے کیا یہ اسی کرنی کا پھل ہے کہ آج 30لاکھ افراد بے گھر ہیں اور ملک میں جگہ جگہ خود کش حملے ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے ہوتے ہیں اور فوج اپنے علاقوں میں انجانے دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ سول حکومت عملاً ختم ہو چکی ہے۔ پولیس کا کہیں بھی کنٹرول نہیں ہے۔ راستے بند رکاوٹیں دہشت گرد حملوں کو نہیں روک پا رہی ہیںتو صرف اس لئے کہ پرویز مشرف نے سی آئی اے کو قبائلی علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کرنے کی کھلی اجازت دی تھی۔ اب علماء پر ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ واریت کے خلاف متحد ہوں اور عوام کو منتشر نہ ہونے دیں بلکہ یک زبان ہو کر امریکہ یہاں سے نکل جانے کا پیغام دیں۔ یہی اس وقت کی ضرورت ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل
O Muslims Be Aware US and its Allies are using the same technique they used in Iraq to strengthen their occupation They are killing our Innocent Brothers and Sisters........
Iraq Blackwater pimped out young Iraqi girls.
Black water , inter risk in pakistan shame on rinterior ministry
Talk Show Thori Si Syasat with Ansar Abbasi black water in pakistan..
Shahid masood present Black water in Meray mutabiq program of GEO.....it also clear that PK-Govt and Army is used by America and they are not fighting with the real Terrroist....and black water is bombing in public places and killing muslims in peshawar and in moon market iqbal town lahore....alqaeda also clear their point of view but dumb people cant understand.
Is the mercenary firm Black Water USA operating in Pakistan as well? What exactly is Black Water up to? This analysis answers some basic questions and states facts about the private military organization Black Water USA.
Ahmed Tamjid Aijazi is a News Producer and Analyst in AAJ TV.
Express news.....black water.....FBI or black water want to arrest female doctor from navy area in defence......a clear proof of black water and its killings.
American Black Water parallel Army is now operative in Pakistan. The Government has allowed them to abduct, kill and even shift the suspected terrorists to America. There is no way we can challenge them if they will charge any of us as accomplice of terrorist organization. Neither our Army nor our Courts are doing anything to stop the insult to the nation.
Our Leaders have already sold our skulls for few dollars and they are least interested in explaining this matter into parliament. Only people of Pakistan can join together to save their generations from perpetual insult and dark future.. Come and join this group and show your support to the cause of expelling this man eaters group from our soil.
Black Water in Pakistan Waqt News Documentary.
BlackWater started its operations in 2007 in Pakistan. Since then, it has been involved in many under cover operations and establishment of offices in Pakistan. After changing its name to XE Worldwide, the mercenary army has penetrated in Peshawar, Islamabad and Karachi. This report reveals the covert operations that Blackwater is performing in Pakistan.
Analyst: Sana Aijazi
Producer: Salman Ali
Executive Producer: Ahmed Tamjid Aijazi
Blackwater in Pakistan for '' TARGETED KILLINGS '' And people's Killing
Who are these Americans who are arriving in Pakistan in the tens and hundreds at a time when the US embassy in Islamabad follows a strange practice where a staffer personally calls any US citizen in the United States in order to warn them about coming to Pakistan for personal reasons or pleasure, apparently because of the security situation?
Bad News for India : Lahore 3 Indian Hindu RAW secret agents arrested
Indian citizen BARIYAM admitted working for Indian intelligence agency RAW. He admitted that RAW is directly involve in Lahore attacks, Attack on Srilankan team was also carried out by intelligence agency RAW.
Indian Terrorist arrested in Lahore with bomb materials.
No comments:
Post a Comment