امریکی برطانوی روایتی ہتھیاروں کی کثیر تعداد میں افغانستان منتقلی۔۔ ہمیں اپنی سلامتی کی فکر کرنی چاہیے
امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد بہت بڑی تعداد میں روایتی ہتھیار افغانستان بھجوائے ہیں جو انکے اپریشن ’’او ای ایف‘‘ کا حصہ ہیں۔ اس سلسلہ میں روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ میں باوثوق سفارتی ذرائع کے حوالے سے دی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متذکرہ ہتھیار افغانستان منتقل کرنے کیلئے امریکی فوج نے چار شپنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کیں‘ جن میں میرسک‘ اے پی ایل‘ ہیگ لائیڈ اور لبرٹی گلوبل لاجسٹک شامل ہیں‘ ان ہتھیاروں سے انسانی زندگیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان کا خطرہ ہے۔ یہ ہتھیار امریکہ کے علاوہ جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے بھی افغانستان بھجوائے گئے ہیں‘ جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں ان ممالک کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جو اسلحہ کی اس نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ہتھیار جن میں کلسٹر بم اور میزائل بھی شامل ہیں‘ جنوبی کوریا کی بندرگاہ سے لوڈ ہو کر مارچ 2008ء اور فروری 2010ء کے عرصہ کے دوران پاکستان آئے اور یہاں سے افغانستان منتقل کئے گئے۔
بظاہر یہ ہتھیار افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے استعمال کیلئے لائے گئے ہیں مگر اندیشہ یہی ہے کہ یہ ہتھیار اس پورے خطے بالخصوص پاکستان میں انسانیت کی تباہی کیلئے استعمال ہونگے جن میں شامل کلسٹر بم اور میزائل پہلے بھی عراق اور افغانستان میں باقاعدہ جنگ کے دوران استعمال کئے جا چکے ہیں اور جس ایریا میں یہ بم اور میزائل پھینکے گئے‘ وہاں زندہ بچنے والے انسان آج بھی کینسر کے موذی مرض کا شکار ہو کر ایڑیاں رگڑتے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عالمی قوانین کے تحت ایسے کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ہے مگر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی اپنے مفادات کی جنگ میں ان ہتھیاروں کو جس بے دردی کے ساتھ عراق اور افغانستان میں استعمال کیا گیا‘ وہ اس امر کا غماز ہے کہ امریکہ کو اپنے مفادات کی جنگ کی تکمیل کیلئے انسانی اقدار اور عالمی قوانین سمیت کسی چیز کی بھی پرواہ نہیں اور وہ بدمست ہاتھی کی طرح اپنے سامنے آنیوالی ہر چیز کو روندنے اور نیست و نابود کرنے کے خودساختہ فلسفے پر عمل پیرا ہے اور اگر وہ مسلمان ہوں‘ عرب یا افغان یا پاکستانی پھر تو بات ہی اور ہے۔
جب اتنی کثیر تعداد میں انتہائی خطرناک ہتھیار پاکستان کی سرحد کے قریب افغانستان میں موجود ہونگے‘ تو اس خطہ کی امن و سلامتی کیلئے مستقل خطرہ کا باعث بنے رہیں گے جبکہ ان ہتھیاروں کے استعمال میں کوئی معمولی سی لغزش اور ذرا سی بھی بے احتیاطی پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی جنگ کی نوبت لا سکتی ہے کیونکہ بھارت اس معاملہ میں اپنی دفاعی جوہری برتری کے زعم میں پہلے ہی باولے کتے کی طرح ہماری سالمیت کیخلاف رالیں ٹپکاتا پھر رہا ہے‘ جبکہ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اسلحہ بھارت کے تربیت یافتہ دہشتگردوں کے ہتھے چڑھے گا تو وہ اسے براستہ افغانستان پاکستان لا کر یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرینگے اور انسانیت کی تباہی کا سامان پیدا کرینگے۔ اسی طرح نیٹو افواج کے کمانڈروں اور امریکی حکام کی جانب سے بھی گاہے بگاہے ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کے تعاقب میں وہ ہماری سرزمین پر بھی فوجی کارروائی کر سکتے ہیں۔ امریکی ڈرون حملے تو ہماری سرزمین پر پہلے ہی جاری ہیں‘ اگر نیٹو افواج کی جانب سے ہماری سرزمین میں گھس کر زمینی حملے بھی شروع کر دیئے گئے تو کوئی بعید نہیں کہ افغانستان منتقل کئے گئے یہی خطرناک ہتھیار ہمارے شہریوں اور سیکورٹی فورسز کیخلاف استعمال ہوں‘ اس لئے ان ہتھیاروں کی موجودگی اس خطہ کے لوگوں کیلئے کسی بھی وقت آتش فشاں کا باعث بن سکتی ہے اور ہمارے آباد علاقوں کو قبرستان بنا سکتی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہم امریکی مفادات کی جنگ میں اس خطے میں اس کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں‘ ہم سے ڈومور کی تکرار بھی جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں مارنے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے اور انسانیت دشمن اپنی جنونی منصوبہ بندیوں پر ہم سے مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ کثیر تعداد میں لائے گئے متذکرہ خطرناک ہتھیار پاکستان کے راستے افغانستان منتقل ہوئے ہیں جس کیلئے اگر حکومت پاکستان سے اجازت حاصل کی گئی ہے تو بھی ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے اور اگر ہتھیاروں کی منتقل کا یہ کاروبار پاکستان کی اجازت کے بغیر ہی سرانجام پایا ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں کو ملک کی آزادی اور خودمختاری کے حوالے سے قوم کو بہرصورت مطمئن کرنا چاہیے کیونکہ انتہائی خطرناک ہتھیاروں کا کثیر مقدار میں ہمارے ملک کے اندر سے گزر کر جانا بھی ہمارے لئے خطرے کا الارم ہے۔ کل کو اگر ہمارے شاطر دشمن بھارت یا نیٹو افواج کی جانب سے ہمار ے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا جائیگا تو پھر انہیں اپنے اسلحہ سمیت یہاں کھلے عام دندنانے سے کون روک سکے گا اور یہ سوال بے جا نہیں ہوگا کہ امریکہ میرینزکے ویزے برائے پاکستان کیوں لگوا رہا ہے؟
یہ عجیب معاملہ ہے کہ امریکہ ایک جانب تو گزشتہ سہ ماہی میں جاری کی گئی اپنی نئی ایٹمی پالیسی میں ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف اور ان کا استعمال روکنے کیلئے اپنے 80 فیصد ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا اعلان کرتا ہے اور ایٹمی تباہ کاریوں سے انسانیت کو بچانے کیلئے دنیا پر ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے کیلئے زور دیتا ہے جبکہ دوسری جانب وہ خود ہی افغانستان میں جدید ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگا چکا ہے۔ یہ ہتھیار کسی نمائش میں رکھنے کیلئے تو نہیں لائے گئے‘ اگر امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی سے افغانستان منتقل ہوئے ہیں تو کسی خاص پس منظر اور حکمت عملی کے تحت ہی ایسا کیا گیا ہو گا‘ اس لئے ہمیں اس خطہ کی سلامتی کیلئے پیدا کئے گئے اس سنگین خطرے پر محض رسمی احتجاج تک محدود نہیں رہنا چاہیے‘ بلکہ ہر عالمی فورم بشمول اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اس مسئلہ کو اٹھانا چاہیے اور ان سنگین ہتھیاروں کو تلف کرانے یا افغانستان سے واپس لے جانے کیلئے امریکہ پر عالمی دبائو بڑھانا چاہیے‘ یہ ہتھیار چونکہ ہماری اپنی سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرے کا باعث ہیں‘ اس لئے اس معاملہ میں روایتی خاموشی اختیار کرنا ملک و قوم کو اجتماعی خودکشی کے راستے کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔ وطن عزیز اور اسکے ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے‘ جس میں ہم ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں معمولی سی غفلت کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔
بلوچستان … عقل و دانش سے مسئلہ کو حل کریں
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان سے اب تک ایک لاکھ آباد کار نقل مکانی کر چکے ہیں‘ سینٹ میں بلوچستان کی صورتحال پر پالیسی بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالات کی خرابی میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سال جنوری سے جولائی تک بلوچستان میں دو سو باون آباد کار قتل کئے جا چکے ہیں‘ انہیں غیرملکی طاقت کے ایماء پر مارا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں مقامی رہنے والوں میں اگر نفرت اس قدر بڑھ گئی ہے تو اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ وہاں سختی کی جائے‘ حکومت کو جائزہ لینا چاہیے کہ نفرت بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں‘ کیا وہاں موجود آباد کار مقامی آبادی کا استحصال کر رہے ہیں؟ غیرملکی ہاتھ کا جہاں تک تعلق ہے‘ اس سلسلے میں متعدد بار یہ سامنے آچکا ہے کہ بلوچستان میں اسلحہ سے بھرے ہوئے ٹرک پکڑے گئے‘ جنہیں افغانستان میں بھارتی سفارتخانے نے ناراض بلوچ شہریوں کیلئے ارسال کیا اور بہت سے دہشت گرد‘ ٹیلی ویژن پر بھی دکھائے گئے‘ جنہوں نے بھارتی سفارت خانے کی نگرانی میں دہشت گردی کی تربیت کا اعتراف کیا۔ مری قبیلہ اور بگتی قبیلہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نجی لشکروں کے ذریعہ اپنی طاقت بنائے ہوئے ہیں۔ مری‘ بگتی قبائل کے لیڈر اسمبلیوں کے ارکان رہے ہیں‘ وزیر بھی رہے ہیں‘ یہ سیاسی لوگ ہیں‘ ان سے بات چیت اور مذاکرات ہونے چاہئیں‘ انہیں جو شکایات ہیں‘ ان کا ازالہ ہو سکتا ہے‘ حرب یار مری لندن میں رہتا ہے‘ براہمداغ بگتی کابل میں ہے اور بھارتی شہریت حاصل کر چکا ہے‘ ان سے رابطے کئے جائیں‘ بلوچستان میں سینکڑوں سردار ہیں‘ ان سب سے بات چیت کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ بلوچ سرداروں نے تو گوادر غیرملکیوں کو دیدیا تھا‘ ایک پنجابی وزیراعظم نے وفاقی حکومت کے خزانے سے اسے خرید کر بلوچستان میں شامل کیا‘ جن آباد کاروں کو انتہا پسندوں نے اب تک قتل کیا ہے‘ وہ وہاں ٹیچرز‘ یونیورسٹی کے پروفیسرز‘ ڈاکٹر اور سرکاری ملازمین تھے۔ انکے خلاف اقدامات کرکے ہسپتالوں‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹی کو بند کیا جا رہا ہے‘ جو کہ بلوچ عوام کا ہی نقصان ہے۔
سارے بلوچ لیڈر اور سیاسی کارکن نہ تو انتہا پسند ہیں اور نہ ہی پاکستان کے مخالف‘ ان سب کے ساتھ مل کر عام شکایات دور کی جائیں اور بلوچستان میں ناراض بلوچ لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی جائے‘ مذاکرات کو ہر سطح پر آگے بڑھایا جائے‘ بلوچ ہمارے بھائی ہیں‘ غیرملکی طاقتیں جن میں بھارت‘ افغان اور امریکی بھی شامل ہیں‘ انہیں بغاوت پر آمادہ کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں‘ اس کا مقابلہ عقل و دانش سے کرنا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment